مئے مرد افگن عشق ایسی دو آتشہ شراب کو کہتے ہیں جو نشہ باز اور عشق کے گھائل متوالوں کو لمحوں میں ڈھیر کر دیتی ہے سوائے میدان اقتدار کے مرد حر کے جو مئے گلنار کا جام جم لہراتے ہوئے بار بار استفسار کرتا ہے" ہے کوئی مجھ جیسا عاشق جہاں بان جو قصر صدارت پر دوبارہ جلوہ افروز ہو اور تینوں دھڑوں __اسٹیبلشمنٹ ،مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ___کی سیاسی بالیدگی کا انحصار اس باکمال کاریگرکی ہنر مندی پر ہو باوجود اس کے کہ وہ تینوں کو ناپسند ہو مگر مجبوری بن جائے۔ 1988 میں بے نظیر بھٹو پہلی دفعہ وزیر اعظم بنیں تو خیال تھا کہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی کریڈیبلٹی کی خاطر مرد اول غیر سیاسی زندگی میں مگن رہیں گے مگر انہوں نے وزیراعظم ہاؤس میں پولو کے گھوڑے پالنے کے ساتھ ساتھ دوستوں کو بھی پالا پوسا اور سیاسی جوڑ توڑ میں بھی مصروف رہے ہمارے ایک جاننے والے پولو کے کھلاڑی کو برونائی میں سفیر مقرر کروایا اور سلطان آف برونائی کو اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کے تحفے بجھوا کر اچھی سفارت کاری کا مظاہرہ کیا مگر دوست نوازی کی وجہ سے خاصے بدنام ہوئے ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے آصف علی زرداری کے ایک دوست فوزی علی کا ظمی تھے وہ غریب گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ پیدا تو غریب ہوا ہوں مگر مروں گا امیر پھر آصف علی زرداری کی دوستانہ آشیرباد سے وہ واقعی بہت امیر ہو کر فوت ہو ئے آصف علی زرداری کے بہت سے دوست احباب ان کی مہربانیوں کے طفیل سیاسی اور مالی طور پر مضبوط اور خوشحال ہوئے کیونکہ ان کے متعلق یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ دوستوں کے دوست ہیں اور انہیں نوازنے میں بے حد فراخ دل ہیں وہ الگ بات ہے کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا جیسے دوستوں نے ان کے احسانات کا بدلہ بڑے گھناؤنے طریقے سے چکایا مگر آصف علی زرداری نے اس کی قابل اعتراض باتوں کا کبھی جواب تک نہیں دیا دوستوں کو نوازنے کے الزام میں وہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خاتمے پر 1990 سے لے کر 1993 تک جیل میں چلے گئے اس دوران نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی تو انہیں جیل سے رہا کر کے وفاقی وزیر بنا دیا گیا۔ پی ٹی وی لائیو پروگرام میں شرکت کے لیے آئے تو میں نے ان سے سوال کیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے دائر کار میں رہ کر اپنی سیاست کریں گے یا وہ بھٹو کی مزاحمتی سیاست کو آگے بڑھاتے ہوئے بے نظیر بھٹو کے ماؤتھ پیس کا کردار نبھائیں گے وہ مسکرانے لگے اور انہوں نے جہاں بے نظیر بھٹو کے سیاسی وژن کو اپنا مشن قرار دیا وہیں وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی مفاہمت کی بات کرتے تھے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات کو عملیت پسند سیاست کا اہم فیکٹر قرار دیتے تھے اس کی واضح مثال یہ ہے کہ انہوں نے نوابزادہ نصر اللہ کو صدر بنانے کی بجائے فاروق لغاری کو صدر بنوایا اس غلط فیصلے سے بے نظیر بھٹو کی حکومت فاروق لغاری نے اس وقت ختم کی جب وہ مرتضی بھٹو کی شہادت کا سوگ منا رہی تھیں۔ نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ فاروق لغاری کی پشت پناہی کر رہی تھی زرداری صاحب کو 1996ء میں گورنر ہاؤس لاہور سے گرفتار کر لیا گیا حالانکہ وہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے وقت دبئی میں تھے مگر وہ پاکستان واپس آئے اور دس سال کے لیے جیل میں چلے گئے مگر انہوں نے نواز شریف کی طرح ڈینگیں نہیں ماریں کہ وہ لندن سے پاکستان آکر جیل میں چلے گئے جب کہ بیمار بیوی لندن ہسپتال میں تھی۔ میاں نواز شریف کو کون دھوکے سے پاکستان بلا کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے اس کا کھرا وہ اپنے گھر اور پارٹی میں تلاش کریں تو مل جائے گا ۔آصف علی زرداری کی جیل میں زبان کا ٹی گئی مگر زرداری صاحب نے اپنے اوپر کئے گئے تمام مظالم پر نواز شریف اور شہباز شریف کو کبھی گلہ نہیں کیا اور ہمیشہ ان کے سیاسی حلیف بنے کیونکہ وہ سیاست کو ممکنات کا کھیل قرار دیتے ہیں۔ جس میں کوئی اصول نہیں ہوتا ہے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اعجاز الحق سے صدارتی ووٹ لیا جانا بھی معیوب تصور نہیں کیا جاتا ہے اگر اعجاز الحق کا باپ بھٹو کو شہید نہ کرتا اور اس کے نظریاتی پیروکار بے نظیر بھٹو کو قتل نہ کرتے تو کیسے بھٹو خاندان کی شہادتوں کے ثمرات زرداری خاندان کو منتقل ہوتے اور آصف علی زرداری دو دفعہ صدر بننے کے بعد بھٹو کی سیاسی میراث کے وارث ٹھہرتے اور اصلی بھٹوز دربدر ہو جاتے حالانکہ نصرت بھٹو کہا کرتیں تھیں کہ بھٹوز حکومت کے لیے پیدا ہوتے ہیں مگر صنم بھٹو، فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کہاں کے حاکم ٹھہرے سندھ کی حکمرانی تو حاکم علی زرداری کے خانوادے کو حاصل ہے یہی قسمت کے رنگ ڈھنگ ہیں بی بی زندہ رہتی تو شاہد آصف علی زرداری بقیہ زندگی نیویارک کے فلیٹس میں ہی گزارتے اس میں کوئی شک نہیں کہ آصف علی زرداری مفاہمت کے بادشاہ ہیں انہوں نے بہادری اور جوانمردی سے جیل کاٹی عمران خان کے دور میں بھی خرابی صحت کے باوجود جیلوں میں رہے مگر کبھی حوصلہ نہیں چھوڑا ان کی جوانمردی کی وجہ سے مجید نظامی صاحب نے انہیں مرد حر کہا جسکا مسلم لیگ ن والوں نے بہت برا بنایا ان کی شخصی خوبیوں سے انکار نہیں ۔یہ آصف علی زرداری کا اعلی ظرف یا سیاسی حکمت عملی ہے کہ انہوں نے اپنی اور بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کرنے والے شریف خاندان کے ساتھ شرکت اقتدار کی۔ اعلان تو زرداری صاحب کا یہ تھا کہ وہ بلاول کو وزیراعظم بنائیں گے مگر شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا کر خود صدر بن گئے اور سیاسی وراثت میں بلاول کے ساتھ آصفہ کی شراکت کا کارڈ بھی چلا دیا بہرحال منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے عوام میں مقبول لیڈر پھانسی چڑھ گئے قتل ہوگئے عمران خان کی طرح جیل چلے گئے اور نواز شریف کی طرح راندہ درگاہ ہو گئے سوائے مرد حر کے جو مئے اقتدار کا جام ہاتھوں میں لیے شاعرانہ تعلی کے ساتھ گویا ہے بقول غالب کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد