پاکستان کے اچھے دن بھی دور نہیں مگر سردست آگ کا دریا ہے جسے عبور کرنا ہے ۔حالات کی درست تفہیم کے لئے ماضی کے جھروکے میں جھانکنا ضروری ہے۔یہ تفہیم پاک امریکہ تعلقات کے پس منظر میں سمجھنا اہم ہے کیونکہ پاکستان کی تاریخ امریکی نزدیکی یا دوری‘ ہونے سے متعین ہوتی رہی ہے۔یہ ناراضی وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت‘ جنرل ایوب خان کی معزولی‘ جنرل ضیاء الحق کی شہادت اور محمد نواز شریف کی بار بار کی جمہوری آمدو برخاست سے عیاں ہے ۔اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کی آمد‘ بینظیر ‘زرداری کی آمد اور جنرل پرویز مشرف کی آمد و رخصتی امریکی مرضی اور ایماء پر منحصر تھی۔ بھٹو کی پھانسی امریکی ناراضی کا سبب تھی جبکہ بینظیر کی ناگہانی وفات میں امریکی مرضی شامل تھی جنرل پرویز مشرف کو اقتدار میں لانے میں دو اہم مقصود بھی تھے۔پہلا مقصود پاکستان کی حفاظتی چھتری تلے امریکی و اتحادی افواج کو افغانستان پہنچانا‘ کابل میں امریکہ نواز کٹھ پتلی حکومت بنانا اور ہمہ نوعی سپلائی لائن کو محفوظ رکھنا تھا۔دوسرا مقصود پاکستانی معاشرے کو دنیاداری کی بیماری میں مبتلا کر کے امریکہ نواز بنانا تھا۔ امریکہ اپنے مقاصدمیں کافی حد تک کامیاب رہا۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ پرویز مشرف حکومت اپنے دور آمریت میں اپنے امریکہ نواز احکامات پورے کرنے میں کمزور پڑ گئی تھی ۔لہٰذا بلیک واٹر کا عوامی نیٹ ورک زرداری دور میں مکمل کیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کی باعزت رخصتی کا عدالتی بندوبست کیا گیا ،جس میں چیف جسٹس افتخار چودھری اور اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل پرویز اشفاق کیانی کا کلیدی کردار تھا، دریں تناظر امریکہ نے افواج پاکستان کے نظریاتی عناصر کو یعنی امریکہ مخالف عناصر کو بائیں بازو کی انتہا پسند اور امریکہ و اتحادی ممالک کی وفادار جمہوری حکومت کے ماتحت رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ امریکہ کا پالیسی بیان تھا کہ جنرل پرویز مشرف کی معزولی پالیسی کی تبدیلی کا حصہ ہے، ناراضی کا شاخسانہ نہیںنیز پاکستان جمہوریت اور امریکہ نواز پالیسی سے انحراف نہیں کرے گا ۔زرداری پارٹی کی خاتون قائد شہلا رضا کا بیان تھا کہ 2025ء تک ملک میں مارشل لاء کا کوئی امکان نہیں۔جنرل پرویز مشرف اور امریکہ کے درمیان مفاہمتی یادداشت کے مطابق افواج پاکستان جمہوری ماتحتی میں گزارے گی نیز اس دوران پاکستان کے تعلیمی‘ معاشرتی اور معاشی حالات سے ایک ایسی نسل پروان چڑھے گی، جو پاکستان میں رہ کر عالمی مفادات کی محافظ ہو گی۔ انتظامی مہارت میں گزری ہے،امریکہ و برطانیہ کے سیاسی و جمہوری نظام کی طرح دو پارٹی کا نظام لایا جائے اور دونوں پارٹیاں بائیں بازو کی لبرل اور عالم نواز ہونا چاہیں۔امریکہ و اتحادی ممالک مذکورہ مقصود کے حصول میں فی الوقت پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے ‘اس کے دو تین بنیادی محرکات اور اسباب ہیں۔نواز شریف نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو پہلی بار پارلیمانی ملازمتی توسیع دی تھی دوسرا سبب جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کا ایک پیج پر ہونا تھا جس نے سب کچھ نراشا میں بدل دیا جنرل باجوہ تیسری بار ملازمت میں توسیع چاہتے تھے۔تیسری توسیعی مدت کے باعث جنرل فیض حمید آرمی چیف بنے بغیر ریٹائر ہو جاتے۔لہٰذا دونوں کی مفاداتی لڑائی سرد جنگ کا سبب بن گئی ۔جب جنرل باجوہ لاڈلے نیازی سے پہلے سے طے شدہ لائحہ عمل کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہے تھے ،تو ان کا جھکائو زرداری کی جانب مجبوراً بڑھ گیا زرداری اور چیئرمین پی ٹی آئی میں بنیادی اختلاف سرکار سازی کی باری کا تھا۔زرداری صاحب کا خیال بجا تھا کہ پی پی پی کے پارلیمنٹرین نے جنرل پرویز مشرف کو پارلیمانی اور جمہوری سہارا دیا نیز زرداری صاحب کی فضل الرحمن کے ساتھ ذاتی دوستی نے جنرل پرویز مشرف کو مذہبی سہارا بھی دیا جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سرکار سازی میں پی پی پی کے نام نہاد منحرف یا زرداری صاحب کے پیش کردہ پی پی پی ارکان کی پی ٹی آئی میں شمولیت تھی، چیئرمین پی ٹی آئی کی پارلیمانی معزولی اور شہباز شریف کی سرکار سازی میں زرداری صاحب کی ایماء با اشارہ شامل حال تھا اور ہے، اس کھیل میں زرداری صاحب اس بار نیازی کے بجائے اپنے بیٹے بلاول زرداری کو وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں، اب لاڈلا نیازی ڈھیر ہو چکا ہے۔تحریک انصاف (PTI) کے کئی ٹکڑے ہو چکے ہیں، اب تحریک انصاف کے دانت کھٹے ہو چکے ہیں۔اب بکرے کی ماں کو زرداری چھتری کی ذیلی چھائوں میں سلامتی نظر آتی ہے۔رہا معاملہ ن لیگ کے پنجاب ووٹ بنک کا تو وہ پی ٹی آئی‘ پی پی پی چودھری برادران اور ہمنوا کے رہن منت زرداری کی کمان میں ہے۔موجودہ حالات میں پی ٹی آئی‘ پی پی پی اور ن لیگ جمہوریت کے تسلسل کے لئے ایک پیج پر دامے‘ درمے ‘ سخنے یکجان ہیں۔شاید یہی جمہوری یکجانی کھیل کا ٹریجک خلا یا المیہ ہو ۔اللہ کا اپنا کھیل ہے اور اسی کی تدبیر غالب و کار آفرین ہوتی ہے۔امریکی پالیسی بیان میں مضمر‘ نادیدہ اہداف کے حصول سے قبل افواج پاکستان میں کلیدی تبدیلی در آئی یہ تبدیلی نئے آرمی چیف جنرل حافظ عاصم منیر کی تعیناتی ہے۔نوازشریف کا گمان رہا ہے کہ بہاولپور فضائی سازش کے بعد امریکہ و اتحادی عالمی طاقتیں چیف صاحب کے ذریعے معاملات کو قابو میں رکھتی ہیں۔اس بار نواز شریف کا دائو لگ گیا اور امریکہ مخالف چیف تعینات کر دیا مذکورہ تعیناتی کے وقت زرداری صاحب خاموش رہے کیونکہ اس وقت وہ نواز شریف کو ناراض کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے ۔اس وقت چیئرمین پی ٹی آئی کے دانت کھٹے نہیں ہوئے تھے۔مذکورہ پس منظر میں اہم ترین تبدیلی جنرل حافظ عاصم منیر کی تعیناتی‘ پاک چین دفاعی و تجارتی پیش رفت ہے ۔اب افواج پاکستان میںچیئرمین پی ٹی آئی کے لئے پہلی سی محبت نہیں رہی ،ادارے میں زرداری کی پسندیدگی زیادہ نہیں اور تقریباً یہی حال نواز شریف کا بھی ہے لہٰذا انہونی کے جانب سفر شروع ہے۔دیکھیے آگے آگے ہوتا ہے کیا۔