’’کپتان‘‘ کا کہنا ہے مجھ سے ایک بڑی غلطی ہوئی وہ یہ کہ 2018ء انتخابات کے بعد کمزور اور اتحادی حکومت بنانے کی بجائے مستحکم حق حکمرانی(مینڈیٹ) کے لئے دوبارہ انتخاب میں جانا چاہیے تھا۔غلطی کے اعتراف کے بعد ہی اس کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔عمران خان نے جس غلطی کی نشاندہی یا اعتراف کیا ہے دراصل یہ نسبتاً چھوٹی اور دوسری غلطی تھی‘ پہلی اور بڑی غلطی مینار پاکستان(اقبال پارک) میں 30اکتوبر 2011ء جلسے کے بعد قابل انتخاب (ELETABALES)کو اندھا دھند بھرتی کرنا تھا‘ ہم نے اس بات کا خیال نہیں رکھا تھا کہ نام نہاد ’’قابل انتخاب سمجھے جانے والے ہی اسٹیبلشمنٹ کے مہرے ہیں اور انہی کی مدد سے سیاسی حکومتوں کو غیر مستحکم کیا جاتا ہے۔ 30اکتوبر 2011ء کا جلسہ کوئی معجزہ‘ حادثہ یا انہونی نہیں تھا بلکہ یہ پندرہ برس کی بظاہر حوصلہ شکن ماحول میں پرامید اور انتھک محنت کا ثمر تھی جو تحریک انصاف کے غریب‘ نادار مگر وفادار کارکنوں نے عمران خان سے مل کر انجام دیا اس کے علاوہ عمران خان کی طرف سے ذاتی زندگی کی لازوال اور بے بدل قربانی بھی تھی‘ کیا اس نے یہ سب پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے لئے کیا‘ کون سی عزت احترام‘ شہرت یا آسائش تھی جو پاکستان کے کسی بھی وزیر اعظم کو حاصل رہی جو عمران خان کو سیاست میں قدم رکھے بغیر حاصل نہیں تھی؟دنیا یہ سمجھتی ہے کہ کپتان مغرور‘ خود پرست اور انّاپرور انسان ہے‘ ایسے متکبر آدمی نے شوکت خانم ہسپتال بنانے کے لئے اپنی حلال اور خون پسینے کی ایک ایک پائی ٹرسٹ ہسپتال کے لئے کیوں وقف کر دی؟ اس اپنی انّا کو قربان کر کے دوستوں عزیزوں کے علاوہ اجنبیوں کے سامنے ہاتھ کیوں پھیلایا؟ کیا ٹرسٹ ہسپتال جس نے مفت علاج فراہم کرنا تھا اس کی دنیاوی زندگی کے غرض کے لئے تھا؟ شہزادوں سے بڑھ کے عیش اور فاتحین عالم کی شہرت سے لطف اندوز ہونے والا ’’بُدھا‘‘ عاجزی اور انکساری میں عبدالستار ایدھی کی طرح کیوں جھک گیا‘ محبت کی شادی‘ دو خوبصورت بچوں سے جدائی‘ یورپ کی آرام دہ پُر آسائش زندگی سیاست میں نام کے لئے اختیار کر لی؟پاکستان کی تاریخ کا سب سے پرجوش‘ منفرد تعداد اور معیار کے اعتبار سے بڑا اور پررونق جلسہ کس ترین‘ علیم خان کی مرہون منت تھا؟ فیصل آباد‘ پشاور‘ سیالکوٹ‘ وغیرہ کے جلسے جو 30اکتوبر کا پیش خیمہ بنے کس نے ان کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھولے تھے؟ کیا وہ اسٹیبلشمنٹ تھی جس نے پاکستانی خواتین اور نوجوانوں کے دل تحریک انصاف کی طرف پھیر دیے؟ عروج کی مسافت کے لئے خاں نے کبھی جہانگیر ترین یا علیم خانوں کی آرزو نہیں کی۔ سوائے میاں اظہر‘ جاوید ہاشمی‘ شاہ محمود قریشی اور فخر امام‘ عابدہ حسین کے اس نے کسی دوسرے کے اپنے اشتیاق کا اظہار نہیں کیا‘ مجھے یہ اعزاز حاصل رہا کہ ان میں سے ایک کے سوا باقی سب سیاستدانوں کو عمران سے ملوانے اور پارٹی میں شامل کرنے میں پہل کی بلکہ کامیاب کوشش بھی‘ علیم خاں کو پارٹی میں شامل کرنے کی بات چلی تو زمان پارک میں ہم بھی وہیں موجود تھے‘ ہم سے بھی سب پوچھا کئے مگر احسن رشید شروع میں تیار نہیں تھے اور عمران خاں نے سرے سے انکار کر دیا‘ ان کے ہمدرد یا سفارشی وہاں موجود تھے وہ مسلسل لابنگ کرتے رہے‘ بہت لیت و لعل کے بعد خان ان سے ملنے کو آمادہ ہوئے یوں علیم خاں کا ورودِ مسعود ہوا‘ جہانگیر ترین صاحب کے ساتھ نصف درجن سابق ممبران قومی اسمبلی بھی جو بڑے جلسے کے بعد اسلام آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس کر کے تحریک انصاف میں شامل ہوئے لیکن جب یہ حضرات پہلی بار سنٹرل ایگزیکٹو کے اجلاس میں شرکت کے لئے تشریف لانے والے تھے اس سے پہلے ہی شیریں مزاری پارٹی ان کی شمولیت پر اعتراض اٹھا رہی تھیں‘ انہوں نے تقریباً ایک درجن ممبران کے دستخط کے ساتھ سنٹرل ایگزیکٹو کونسل میں قرار داد پیش کر دی کہ یہ حضرات ہمارے ساتھ بیٹھنے سے پہلے باقاعدہ پریس کانفرنس کر کے قوم سے معافی طلب کریں کہ انہوں نے ڈکٹیٹر کا ساتھ دیا اور مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں شامل رہے‘ خاں صاحب ان کی پریس کانفرنس میں شرکت کر چکے تھے‘ جب وہ تحریک انصاف کے دفتر پہنچنے ہی والے تھے تو شیریں مزاری نے نیا تنازعہ کھڑا کر دیا‘ خاں صاحب پریشان‘ شریں کچھ سننے کو تیار ہی نہیں تھیں‘ حسن اتفاق کہ راقم نے اس قرار داد پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا‘ ایک مختصر موثر تقریر نے جس میں سیرت النبی کا ایک حوالہ بھی تھا اس مسئلے کو حل کر دیا اور شیریں مزاری خلاف توقع خاموش ہو رہیں‘ اس طرح علیم و ترین کی تحریک انصاف میں شمولیت ہو گئی۔1۔ electable ہوں یا نادیدہ ہاتھ انہوں نے کبھی کوئی سیاسی جماعت بنائی نہ گروہ ترتیب دیا‘یہ سرے سے بنا ہی نہیں سکتے ہاں جب کچھ بن چکتا ہے اور کامیابی سے چل نکلتا ہے‘ تو یہ مردار خور گدھ اس کے گرد جمع ہونے لگتے ہیں۔پاکستان کی تاریخ سے تین واقعات بطور مثال پیش کرتا ہوں۔پہلی مثال پیپلز پارٹی کی ہے۔بھٹو نے ہی بنائی سیاسی جماعتوں میں شمولیت چاہی تو مسلم لیگ کونسل نے جگہ دی نہ ولی خاں نے‘ اس نے اپنی پارٹی بنائی وہ چل نکلی مغربی پاکستان میں کامیاب ہوئی غریب‘ نادار مددگار بنے، گمنام ممبر اسمبلی بن گئے اقتدار ملا تو مسلم لیگ کے اپوزیشن ممبر بھی چلے آئے‘ وڈیرے‘ خوش حال اور نامور بھی آن حاضر ہوئے‘77ء کے انتخابات میں انہی کی بھرمار تھی‘ ان کے سبز قدم بھٹو کو پھانسی تک لے گئے‘ دوسری مثال ایم کیو ایم ہے‘ اس نے قدم جما لئے اور کراچی کے عوام ایم کیو ایم کے ہو گئے تو نواز شریف‘ جتوئی‘ نصراللہ خاں سمیت سب ان کے بڑے جلسے میں رونق افروز ہوئے اور نادیدہ نے بھی دیدے کھول لئے اور سندھو دیش کے مقابلے کے لئے اسے استعمال کرنے کا خیال پیدا ہوا۔باقی تاریخ ہے۔الیکٹ ایبل اور اسٹیبلشمنٹ نے دو پارٹیاں بنائیں دونوں فوجی حکمرانوں نے حکمرانی کے دوران قائم کیں ایوب خاں نے مسلم لیگ کنونشن اور مشرف نے مسلم لیگ (ق) اقتدار ہٹتے ہی برف کے گالے کی طرح پگھل گئیں۔تیسری کوشش آپ کے سامنے ہے ’’نومولود‘‘ استحکام پاکستان‘ اڑنے بھی نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے‘ زچہ بچہ دونوں مصنوعی تنفس کے ذریعے آخری سانسیں گن رہے ہیں۔ 1۔ تحریک انصاف سے پہلی غلطی یہ ہوئی کہ نقاب پوش ہمدردوں کے بھرے میں آ کر نام نہاد قابل انتخاب افراد بھرتی کر لئے گئے وہ اپنے آقائوں کا اشارہ پاتے ہی بھاگ نکلے۔2۔ غلطی وہی ہے جس کا ذکر عمران خاں نے کیا کہ 2018ء میں کمزور حکومت بنانے کی بجائے ہمیں پھر سے انتخاب میں جانا چاہیے تھا تاکہ واضح عوام حمایت کے ساتھ مضبوط حکومت بنائی جاتی جو آزادی سے بڑے فیصلے کرنے کے قابل ہوتی۔3۔ ایک تیسری غلطی بھی ہے شاید سب سے بڑی اور سنگین غلطی جس کے نتائج اب سامنے آ رہے ہیں۔وہ ہے تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات میں جہانگیر ترین اور علیم خان کا کردار‘ ان کی روا رکھی بے قاعدگیوں پر جسٹس وجیہہ الدین کا فیصلہ کہ ان کی بنیادی رکنیت ختم کر کے پارٹی سے نکال دیا جائے‘اس فیصلے پر عملدرآمد ہو جاتا تو تحریک انصاف کو ان مشکلات کا سامنا ہی نہیں ہوتاجن سے آج گزر رہی ہے۔ہاں ان مشکلات کی آگ میں تپ کے تحریک انصاف اور قیادت کند ن بننے جا رہی ہے، انشاء اللہ۔