خالصتاً جنگی کارروائیوں نے اگرچہ دہشت گرد تنظیموں کی افرادی قوت کو توڑا۔ کچھ مارے گئے، کچھ سرحد پارنکل گئے۔ مالی اعانت کے ذرائع مفقود ہوئے۔شہروں میںاُن کے سہولت کاروں کمزور ہوئے اور ہمدرد دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور ہوئے۔ تاہم اگست 2021ء میں امریکی انخلاء کے نتیجے میں ہمارے اس وقت کے پالیسی سازوں کو جوڈرائونا خواب ستا رہا تھا ، آج اُس کی تعبیر ہمارے سامنے منہ پھاڑے کھڑی ہے۔دہشت گردی کا عفریت جستہ جستہ ہماری رگوں سے خون چوس رہا ہے۔فوجی آپریشنز کے نتیجے میں جو سرحد پار بھاگے تھے، ایک بار پھر صف آراء ہو چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ گذشتہ سوا سال سے برسرِ اقتدار حکومت یقینا سلامتی کی موجودہ صورتِ حال کے لئے اپنے پیشروئوں کو ہی موردِ الزام ٹھہرائے گی۔تاہم دیانتداری سے دیکھا جائے تو معاملات اس قدر سادہ نہیںہیں۔ہمیںایک طویل، پیچ در پیچ اور صبر آزما جنگ کا سامنا ہے کہ جس کے نتائج کا انحصار بہت سے اندرونی اور خارجی عوامل پر ہے۔ حال ہی شائع ہونے والی، ایک معتبر سٹڈی گروپ کی رپورٹ میں رائے دی گئی ہے کہ ہماری مغربی سرحدوں پر عشروں پر محیط شدیدپیچیدگی اختیار کر جانے والی صورت حال میں کوئی تبدیلی تین ممکنات کے تناظر میں دیکھی جا رہی تھی۔اولاً،کسی بڑی قدرتی آفت کا نزول، ثانیاً،لیڈر شپ میں تبدیلی، جبکہ ثالثاً، بین الاقوامی حالات میں کوئی جوہری تبدیلی ۔ اگست 2021ء میں امریکی انخلاء کے بعد کابل میں طالبان کی حکومت کا قیام ممکنات کی دوسری اور تیسری اشکال کا ظہور تھا۔ چنانچہ دنیا بھر کی طرح ہمارے ہاں کے حکمت سازوں کو بھی بدلی ہوئی صورتِ حال میں کالعدم ٹی ٹی پی کی واپسی سمیت بکھرے ہوئے دہشت گرد گروہوں کا اکٹھ ہوتا ہوا نظر آیا توصورتِ حال سے نبردآزما ہونے کے لئے جو راستہ اختیار کیا گیا وہ طالبان حکومت کی مشاورت سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کا تھا۔ اپنی طرف کے قبائلی عمائدین کی مشاورت کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوئوںکی ہمارے قبائلی علاقوں میں آبادکاری کی تجویز پر حکومتِ پاکستان اور درجن بھر کے قریب تنظیموں کے درمیان مذاکرات ہوئے ۔آباد کاری کی شرائط میں کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں کا غیر مسلح کیا جاناسرِ فہرست تھا۔ امریکی لابی اور کچھ قوم پسند تنظیموں کی مخالفت کے باوجود ہمارے ہاں کے تمام سٹیک ہولڈرز بات چیت کی پالیسی پر مُصررہے۔دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی پر دو آراء کاہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ہر دو اطراف پر دلائل موجود ہیں۔ چنانچہ نیم دلانہ کوششوںکے اُلٹا منفی نتائج برآمد ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ دوہا معاہدے اور باربار کی یقین دہانیوں کے باوجود افغان سرزمین سے ہمارے اوپر آئے روز دہشت گردحملے ہو رہے ہیں۔سال 2023 ء کے چھ مہینوں میں ہماری سر زمین پر دہشت گرد حملوں کی شرح میں 80 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔صرف مئی کے مہینے میں ہم پر 76دہشت گرد حملے ہوئے ہیں، جو گذشتہ آٹھ برسوں میں سب سے زیادہ ہیں۔صرف یہی نہیں ، بلکہ بتایا جاتا ہے کہ جون کے مہینے میں کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنے اثر ورسوخ کا دائرہ بلوچستان کے پشتون علاقوں سے بھی آگے بڑھاتے ہوئے ،قلات اور مکران میں بھی ’شیڈو صوبوں ‘کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ اب تک بلوچستان میں کئے گئے 22 ٹی ٹی پی حملوں میں سے8حملے صرف گوادر اور مکران میں ہوئے ہیں۔دوسری طرف بلوچ علیحدگی پسند اگرچہ مذہبی انتہا پسندی کی پہچان نہیں رکھتے، تاہم کہا جا سکتا ہے کہ اِن شورش پسند تنظیموں کو بلوچستان کے پشتون علاقوں سمیت پنجاب اور سندھ کے ساتھ سرحدی علاقوں میں بدامنی پرکوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔ موجودہ حکومتی بندوبست کی جانب بظاہر ا مریکی جھکائو کے باب میں ہر کسی کو رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔ امریکہ ہم سے کیا چاہتا ہے، اس میں بھی ہم جیسوں کو ابہام ہو سکتا ہے۔لیکن ایک بات تو خیر ہم جیسے عامی بھی جانتے ہیں کہ امریکی ہمیں ’مفت لنچ‘ کھلانے پرتو ہرگز مرے نہیں جا رہے۔ ہمارے لئے اطمینان کا مگر یہی ایک پہلو ہے کہ ہماری سلامتی پالیسی کے معمار اس پہلو کوہم سے بہت بہتر سمجھتے ہیں۔ بھارت خطے میں امریکی پٹھو بن چکا ہے۔تاہم پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے لئے وہ کسی امریکی اشارے کا محتاج نہیں۔ ہر تاریک راہ میں مگرروشنی کی ایک کرن ضرور جگمگاتی ہے۔چنانچہ جہاں ایک طرف تو بھارت کا اثرور سوخ ایران میں کم ہورہا ہے تو وہیں چین نے ایران کو شنگھائی تنظیم میں رکنیت دے کرخطے میں دلچسپی رکھنے والی کئی طاقتوں کو واضح پیغام دیا ہے۔ حال ہی میں چین کی چھتری کے نیچے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی تاریخی بحالی پاک ایران سرحدی علاقوں میں بھی امن کے لئے نیک شگون سمجھی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ چین دہشت گردی کو سی پیک کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ چنانچہ چین جو کچھ کر رہا ہے وہ ہمارے لئے نہیں بلکہ اپنے قومی مفادات کو سامنے رکھ کر کررہا ہے۔ لیکن کیا ہم ساری زندگی اپنے معاملات کے لئے اوروں ہی کی طرف دیکھتے رہیں گے؟کیاکچھ کام خود ہمارے اپنے کرنے کے نہیں ہیں؟ بلوچستان کی بے چین نئی نسل اب سرداروں اور نوابوں کے اثر ورسوخ سے نکل چکی ہے۔ ان کی بے چینی اور مزاحمت کوقابوکرنا کسی نواب یا سردار کی گورنری اور وزارتوں سے ممکن نہیں۔اب معاملہ چند عمائدین کا نہیں ، صوبے میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی دکھوں کے مداوے کا ہے۔ بلوچستان میں ایک عرصے سے غیر نمائندہ حکومتیں کسی نہ کسی شکل میں صوبے کے عوام پر مسلط رہی ہیں۔ جوڑ توڑ اور دبائو کے زیر اثر بننے والی حکومتوں سے کچھ بھی کام لیا جا سکتا ہے۔سماجی محرومی کی شاکی نوجوان نسل کے زخموںپر مرہم رکھنا ان کے بس کی بات بہرحال نہیں۔ کیا ہم قومی یکسوئی اور اتحاد و یگانگت کے بغیرہی دہشت گردی کی طویل اور صبر آزما جنگ لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ ٭٭٭٭٭