عالمی شہرت یافتہ عظیم ناول نگار میلان کنڈیرا کا 94 برس کی عمر میں 11جولائی2023انتقال ہوا ۔ اسے دنیا بھر میں ادب پرستوں کی طرف سے زبردست خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے ۔کنڈیرا تمام عمر انٹرویو دینے والوں سے گریز کرتا رہا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ جو کچھ وہ کہے گا اخبار کا صحافی اس الفاظ کو اس طرح توڑ موڑ کر اخبار میں چھاپے گا جو اس کے بنیادی سوچ اور خیال کی عکاسی نہیں کریں گے اس نے بہت کم انٹرویو دیے۔جس کی وجہ یہ تھی کہ اسے اپنی پرائیویٹ زندگی کی آزادی بہت عزیز تھی۔ میلان کنڈیرا کی لازوال تحریروں سے کچھ اقتباسات کو کالم کاحصہ بناتے ہیں اور اس طرح سے اس عظیم لکھاری کو یاد کرتے ہیں۔’’میرے نزدیک مستقبل کا کوئی تصور موجود نہیں جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم اچھا مستقبل بنانا چاہتے ہیں مجھے ان پر حیرت ہے کیونکہ ہماری زندگی میں صرف ماضی بھرا ہوا ہے ,ماضی کی یادیں ہمیں رنجیدہ کرتی ہیں ،اکساتی ہیں پچھتاوا دیتی ہیں کہ انہیں ڈھا کر پھر سے بنایا جائے۔ میرے نزدیک اچھے مستقبل کی خواہش صرف اتنی سی ہے کہ ہم اپنے ماضی کو تبدیل کر کر سکیں"اس لڑکی کو کتاب بغل میں دبائے گلی سے گزرنا پسند تھا یہ اسے کسی فیشن ایبل گلیمرس شخص کا اپنے ہاتھ میں بیش قیمت چھڑی کے ساتھ گلی سے گزرنے جیسا عمل لگتا کیونکہ کتاب پکڑ کر گلی گزرنا اسے دوسروں سے ممتاز کرتا ہے"۔’’محبت بھی ایک سلطنت کی طرح ہوتی ہے جس خیال پر سلطنت استوار ہوتی ہے وہ خیال بوسیدہ ہو جائے تو محبت کی سلطنت بھی ڈھے جاتی ہے"اس زندگی کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے کہ پہلی زندگی کی ریہرسل ہی اصل زندگی ہے۔"جب دل گفتگو کرتا ہے تو عقل اپنی مداخلت کو غیر مہذب سمجھتی ہے۔"دو محبت کرنے والوں کے درمیان کی باہمی وابستگی کا اندازہ محض ان الفاظ سے نہیں لگا سکتے جب وہ آپس میں ایکسچینج کرتے ہیں"کسی ناول میں بیان کی گئی دانش ان سوالات سے آتی ہے جو لکھاری نے اس ناول کو بیان کرتے ہوئے ہر شے پر اٹھائے ہیں۔"ناول نگار قاری کو سکھانا چاہتا ہے کہ اس دنیا کو ایک سوال کی طرح سمجھیں، اس رویے میں ایک دانش ،برداشت اور حوصلہ چھپا ہوا ہے جو زندگی کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے"لکھاری کا مقصد کسی سچ کی تبلیغ نہیں بلکہ سچ دریافت کرنے کی کوشش ہے "خوشی کسی پرانی یاد کی دہرائی کی خواہش کا نام ہے۔"آپ اس وقت تک جدید آرٹ کو نہیں سمجھ سکتے جب تک اپ اس بات کو تسلیم نہ کریں کہ تخیل کی اہمیت کیا ہے"کسی سے نفرت کرنا ایک ایسا قید خانہ ہے جس میں ہم اپنی تباہی کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں"۔’’نقاد ایک ایسا شخص ہے جو دریافت کی جانے والی چیزوں کو پھر سے دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔"روز مرہ کی خبریں سننے کی عادت سگریٹ پینے اور پھر اس کی راکھ کو ایش ٹرے میں جھاڑنے سے زیادہ کچھ نہیں۔"کسی قوم کو ختم کرنے کا پہلا قدم اس کی یادداشت مٹانا ہے اس کی کتابیں اس کی ثقافت اس کی تاریخ کو تباہ کر دیں پھر کوئی نئی کتابیں لکھے، نیا کلچر تیار کرے، نئی تاریخ لکھے۔ جلد ہی وہ قوم بھولنا شروع کر دے گی وہ کیا تھی طاقت کے خلاف انسان کی مزاحمت اور جدوجہد بھولنے کے خلاف یاد کی جدوجہد ہے۔ ’’جب میں ایک چھوٹا لڑکا تھا تو میرا خواب تھا کہ میرے پاس ایک جادوئی مرہم ہو جسے لگا کر میں دنیا کی نظر سے غائب ہوجائوں۔ پھر میں بڑا ہو گیا میں نے لکھنا شروع کر دیا میں کامیاب ہونا چاہتا تھا میں لکھتا رہا۔اب میں کامیاب لکھاری ہوں اوراب پھر میری یہ خواہش ہے۔ کاش میرے پاس کوئی جادو کا ایسا مر ہم ہو جسے میں لگاؤں اور وہ مجھے دنیا کی نظر سے اوجھل (invisible)کردے۔‘‘ ملان کنڈیرا 94 برس کی عمر میں دنیا سے گئے 2014 میں اس نے 85 برس کی عمر میں اپنا اخری ناول لکھا۔ جس کے بارے میں نقادوں کا کہنا ہے کہ اس ناول میں زندگی کی بے کیفی اور امید کے درمیان اس مسلسل کشمکش کو بیان کیا گیا ہے جس سے ہر انسان گزرتا ہے۔میلان کنڈیرا بہت زیادہ مجلسی شخص نہیں تھا وہ انٹرویو دینے سے ہمیشہ گریز کرتا رہا۔ ان کے چند بہت اعلی انٹرویوز ہمیں انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ان میں سے ایک انٹرویو نیویارک ٹائمز میں 1985 شائع ہوا تھا جسے بغیر کسی ترمیم اور اضافے کے ساتھ انٹرنیٹ پر ڈال دیا گیا ہے تاکہ محفوظ رہے۔ اس میں انٹرویو لینے والے نے ان کوششوں کو بھی بیان کیا ہے جو اسے عالمی شہرت یافتہ عظیم ناول نگار میلان کنڈیرا کو انٹرویو کے لیے راضی کرتے ہوئے کرنی پڑیں ۔وہ لکھتا ہے کہ میری انٹرویو کی خواہش کے جواب میں ایک دوپہر مجھے میلان کنڈیرا کی طرف سے خط ملا جس میں لکھا تھا کہ میں تمہیں اپنے اس برے مزاج کے بارے میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں اپنے بارے میں، اپنی زندگی کے بارے میں، اپنی روح کے بارے میں بات چیت نہیں کرسکتا۔ اسے چھوڑ کر اگر آپ ادب پر بات کرسکتے ہیں توآپ آسکتے ہیں۔انسانی زندگی کی پرائیویسی کے احترام کے حوالے سے میلان کنڈیرا کے چند بہت ہی پر اثر خیالات نظر سے گزرے جس میں ایک یہ بھی تھا کہ ’’ ایک ایسی زندگی جس میں پرائیویسی کا احترام نہ کیا جائے کسی جہنم سے کم نہیں‘‘۔ چیکو سلواکیہ میں پیدا ہونے والے میلان کنڈیرا اپنی زندگی کے اخری 48 برس فرانس میں گزارے اور اس جلاوطنی کو بوجھ سے نہیں بلکہ لبریشن یاآزادی سے تعبیر کیا۔ فرانس کو اپنا حقیقی وطن قرار دینے والے نے اپنی 30 ہزار کتابیں جمہوریہ چیک میں اپنے آبائی شہر برنو میں قائم ہونے والی میلان کنڈیرا لائبریری کو عطیہ کیں ۔اس لائبریری کا افتتاح اس برس یکم اپریل کو ہوا جب میلان کنڈیرا نے اپنی 94 ویں سالگرہ منائی۔لائبریری انتظامیہ نے فخر کے ساتھ اعلان کیا کہ اب لوگ اس لائبریری میں آکر اپنے عظیم ناول نگار میلان کنڈیرا سے ملا کریں گے۔