دل چاہتا ہے کہ آٹا کہانیوں کے نام سے کالموں کی پوری سیریز لکھ دوں۔ہر کالم کے پیچھے الگ کہانی‘ کہانیاں تو لوگ پڑھ لیتے ہیں چاہے لاشوں کے چہروں پر لکھی ہوں۔ چھوٹا بھائی عقیل شریف اب مصروف وکیل ہے۔ چند روز پہلے ایک مقدمہ میں اس کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ملزمان کی تعداد 6کے قریب تھی۔سب دس بارہ سال کے بچے تھے۔جرم یہ تھا کہ ان کے والدین محنت مزدوری کی وجہ سے گھنٹوں قطار میں کھڑے نہیں ہو سکتے تھے۔اپنے شناختی کارڈ دے کر ان بچوں کو مفت آٹا لینے بھیج دیا۔ تقسیم کرنے والے عملے نے انہیں پکڑ لیا کہ کارڈ کس کے ہیں۔کارڈ جعلی ہیں، پھر کہا کہ ان کارڈوں پر آٹا دیا جا چکا ہے۔ممکن ہے ایسا ہی ہو ۔ قانون فوری حرکت میں آیا اور ان سب کے خلاف تھانہ گرین ٹائون میں ایف آئی آر درج کر لی گئی۔بچے روتے رہے۔ معافیاں مانگتے رہے۔ان کے والدین کو ایک دیہاڑی ٹوٹنے کا ڈر تھا۔ کئی دن تک عدالتوں میں دھکے کھاتے رہے۔ عقیل نے جانے کیا نکات جج صاحب کے سامنے پیش کرکے ان کی جان خلاصی کرائی۔ اس ماں کا حال تو سب پڑھ چکے ہیں‘ جو چھ ماہ کی بچی کو ساتھ لے کر فیروز والا میں آٹا ڈسٹری بیوشن پوائنٹ پر آئی۔دھکم پیل اور ہجوم میں بچی ماں کے ہاتھوں سے پھسل گئی۔ آٹے کے لئے دیوانہ ہوا ہجوم اس ننھی سی جان کو قدموں میں روندتا ہوا گزر گیا۔آٹا کیا لینا تھا‘ لاش اٹھا کر چلتی بنی۔معلوم نہیں گھر پہنچی یا نہیں۔مگر گئی ہو گی تو خاوند اور دوسرے اہل خانے کیا کہا ہو۔کسی نے لاپرواہ کہا ہو گا‘ کسی نے بچی کی قاتل کہا ہو گا۔یہ کہانی ایک جان کے چلے جانے سے ختم نہیں ہو گی۔اس کہانی کو سہنے والے ساری زندگی روتے رہیں گے۔ ان کے سامنے جب بھی آٹا آئے گا وہ روئیں گے‘ ایسے ہی جیسے حضرت زبن العابدین مدینہ منورہ میں واپس آ کر جب بھی ٹھنڈا پانی ہاتھ میں لیتے جناب علی اصغر اور دیگر شہدائے کربلا کی پیاس یاد کر کے اشکبار ہو جاتے۔ ایک بوڑھی عورت کھلے میدان میں بازو کھولے پڑی تھی۔وہ کسی کی ماں تھی۔آٹا لینے آئی اور ہجوم میں آ کر ماری گئی۔اس کے کپڑے بتا رہے تھے کہ گھر میں غربت کا ڈیرہ ہے۔ الجھے اور مٹی سے آلودہ بال۔اس کا ایک گھر ہو گا‘ شوہر کام پر گیا ہو گا ۔ممکن ہے بیٹا نہ ہو۔گھر میں کئی روز سے فاقے ہوں۔ایسی مشکل میں گھر کے بڑے ہی سامنے آتے ہیں۔وہ بھی آٹا تلاش کرتی اس مقام پر آ پہنچی جہاں حکومت نے پوائنٹ بنایا تھا۔اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ وہ گندم کی طرح پیسی گئی اور اب لاش بن کر پڑی تھی۔مجھے جانے کیوں وہ چڑیا یاد آ گئی جو بھوکے بچوں کے لئے دانہ دنکا لینے گھر سے نکلی اور کسی شکاری کے نشانے پر آ گئی۔جیسے چڑیا کے بچوں کے بارے میں ہمیں کبھی معلوم نہ ہو سکا ایسے ہی اس ماں کے بچوں کے متعلق نہ تاریخ میں کچھ لکھا جائے گا نہ کہانی میں اس کی موت موضوع بنے گی۔ ایک بوڑھا آدھی تھا۔غالباً مظفر گڑھ کا واقعہ ہے۔اس علاقے میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاریاں اور ان کے اثرات ابھی تک موجود ہیں۔اس کی کوئی مجبوری ہو گی کہ بیماری اور کمزوری کے باوجود آٹا لینے آ گیا۔یہاں آ کر دیکھا تو دو چار سو نہیں ہزاروں لوگ کھڑے تھے۔قطار میں لگے افراد کے علاوہ بہت سے قطار سے باہر ٹکڑیوں میں جمے تھے۔ آٹے کا ٹرک نمودار ہوا۔گویا ایک سورج تھا جو تاریکیوں کو چیرتا ہوا طلوع ہو رہا تھا۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ دریا میں بہتے ہوئے لوگوں کو ایک امدادی کشتی نظر آئی۔چھوٹی سی کشتی میں ہزاروں لوگ سوار ہونا چاہتے تھے ۔ ٹرک اس کشتی سے بھی چھوٹا ثابت ہوا۔ہجوم اور طاقتور لوگوں نے آٹے کی کشتی میں پناہ لے لی۔وہ بوڑھا تھوڑی دیر ٹرک کے ساتھ ساتھ بھاگتا رہا۔پھر گر گیا۔کہانی کا ایک حصہ ختم ہوا۔اب دوسرا حصہ ہمیں بتاتا ہے کہ وہ گھر میں بیٹھی بیٹیوں کا کفیل تھا۔آٹا نہ ملتا‘ گھر لوٹ آتا تو بیٹیاں پانی پی کر روزہ رکھ لیتیں۔باپ کی لاش گھر آئی تو انہیں روز خون کے گھونٹ پینا ہوں گے۔ آٹا کہانیوں کی تعداد 22ہو چکی ہے۔22لوگ آٹا حاصل کرنے کی تگ و دو میں جان ہار گئے۔بلوچستان ‘ سندھ‘ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں ایک جیسا حال ہے۔ایسا مک جہاں گندم کا سونا اگتا ہے۔ جہاں کی زمین اناج کے گودام بھر دیتی ہے۔ جہاں غریب سے غریب شخص بھی کبھی بھوکا نہیں سویا کرتا تھا۔اس زرعی ملک میں بھوک ناچ رہی ہے۔ بے یقینی کی حالت ہے۔ باخبر اتنا ہی اندھیرے میں ہے جتنا بے خبر۔افواہیں اور بے بنیاد باتیں ہیں جن سے دلاسے کا کام لیا جا رہا ہے۔چند درجن پروپیگنڈسٹ ہیں جو سب اچھاکی گردان کر رہے ہیں۔ان کے گھر آٹا موجود ہے۔85وزراء ہیں‘ وزیر اعظم ہیں۔کچھ اتحادی جماعتوں کے رہنما ہیں جو بظاہر کوئی حکومتی عہدہ نہیں رکھتے لیکن آٹے کے ٹرک ان کے اشارے پر چلتے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں پٹرول کے نرخوں میں اب کتنا اضافہ ہو گیا ہے۔بجلی کے نرخ گرمی شروع ہوتے ہی بڑھنے لگے ہیں۔جانے اس بار پنکھے چل سکیں یا نہ۔سکول والے سال میں دو بار بچوں کی فیس بڑھا دیتے ہیں۔ سبزی والا اب دھنیا اور سبز مرچ مفت نہیں دیتا۔ رمضان المبارک کے دوران حکومت کہیں نظر نہیں آئی۔سوال پوچھنا ہے تو پوچھیں لیکن پہلے یہ بتائیں کہ پارلیمنٹ کیا اس لئے قابل احترام ہے کہ یہاں بالا دست طبقات کی سیاسی آل اولاد چیختی چنگھاڑتی اور گالیاں دیتی ہے۔پارلیمنٹ میں ایسا کوئی بھی نہیں جو آٹے کی تلاش میں خوار ہوا ہو۔ یہاں تو کوئی آٹے کی کہانیاں سنانے والا بھی نہیں‘ بس انہیں اپنے مقدمات اور مخالفین کو کچلنے کی کہانی آ تی ہے۔ خیر عوام بھی ان کے مخالفین میں شمار ہوتے ہیں۔انہیں کیوں نہ کچلا جائے؟