جہالت ہے،جاہلیت ہے۔ ظلم ہے جبر ہے،فسادہے،قتل و غارت گری ہے۔لو ٹ مار ہے،ڈاکہ زنی ہے،چوری ہے، مکاری ہے ،فتنے ہیں۔مہنگائی ہے،کرپشن ہے،بدنظمی ہے۔انصاف بھی نہیں عدل بھی نہیں۔ انسان انسان کو کاٹ کھانے کو دوڑ رہا ہے۔ادارے تقسیم ہیں،سیاست دان سیاست دان کا خون بہانے کے درپے ہے۔بازاروں ،چوکوں چوراہوں میں جنگ جاری ہے۔ کبھی آنکھیں بند کر کے لمبی سانس لیں اور سوچیں ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں۔آپ کہیں گے یہ پاکستان کے معاشرے کی کہانی ہے۔یہ پاکستان کا نقشہ ہے۔بظاہر یہی لگتا ہے لیکن اصل میں یہ ساری کہانی باقاعدہ ترتیب دی گئی ہے۔ایک اسکرپٹ لکھا گیا تھا اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔سوشل میڈیا کے جنگل میں یہ بیانیہ ہرروز بیان کیا جاتا ہے اور ہمارے دماغوں پر روزانہ دستک دی جاتی ہے اور ہماری نوجوان نسل کے ذہن میں پاکستان کا ہر منفی پہلو ایک سلیقے سے ٹھونسا جارہاہے۔اس پر مستزاد ظلم یہ ہے کہ ہمارے سیاست کاراسی بیانے کو لے کر مجمعے گرماتے ،نعرے لگاتے اور ایک شاندار ریاست کا چہرہ بگاڑ کر پیش کرتے ہیںاس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہمارا برین ڈرین کیا جا رہا ہے ۔ نوجوان جوق درجوق اس’’ بدنما‘‘نقشے کو دیکھ کر پاکستان چھوڑ نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان چھہتر سال کا ہو گیا۔میں نے شعوری طور پرپاکستان کے ساتھ نصف صدی گزار دی ۔میرے ماں باپ جب بھارتی ظلم،جبر اور قتل و غارت گری سے تنگ ہو گئے تو انہوں نے قائد اعظم ؒکی پکار پر اپنے گھر بار ،کاروبار ،جائیداد چھوڑ کر ہجرت کا سفر شروع کیا ۔ اس ہجرت میں انہیں تین بار پھر ہجرت کرنا پڑی۔اس نیلے آسمان کے نیچے ان کا کوئی نہیں تھا،تب پاکستان نے انہیں اپنی گود میں سمیٹ لیا ۔انہیں پہچان دی،انہیں پناہ دی ۔وہ چاہتے تو دوسری ہجرت کے وقت اپنی زمینوں اور جائیدادوں پر پھر سے بس جاتے لیکن یہ بسنا بھی کیا بسنا تھا ،جب اپنی مرضی سے سانس لینا ممکن نہ ہو،جہاںطاغوت آپ کے سر پر کھڑا ہو جہاں،جہاں آپ کی عزت محفوط نہ ہو، جہاں آپ اپنے رب کی کبریائی کی صدا بلند نہ کر سکیں۔ایسا بہت کچھ اور بھی تھا ورنہ دنیا میں ملی جنت کو کون چھوڑتا ہے ورنہ میری سو برس کی ماں،اپنی جوانی میں ہجرت کے پُر تششد راستے پر نہ چلتی،جسے آج بھی یقین ہے کہ تب ہجرت واجب تھی اور کشمیر کے لیے لڑنا آج بھی فرض ہے۔یہ سچ ہے کہ پاکستان کا وہ خواب جو دکھایا گیا تھا یہ اس کی تعبیر نہیں ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ پون صدی گزر گئی ہم منزل کے لئے بھٹک رہے ہیں۔اس سب کے باوجود دنیا کا سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ پاکستان نے ہمیں سب کچھ دیا ہے۔پاکستان نہ ہوتا تو آج ہماری دنیا میں کوئی شناخت نہ ہوتی۔دنیا کے درجنوں ملکوں کو دیکھنے کے بعد آج بھی دماغ میں جب سوال اٹھتا ہے کہ ’بولو تم کس ملک میں بسنا چاہتے ہو ‘ تو دل کی گہرائیوں سے جواب ملتا ہے ’پاکستان‘۔ کبھی تنہائی میں بیٹھیے اور سوچیے ہماری نئی نسل کو پاکستان سے کون اورکیوں بدظن کیا جاتا ہے ؟آپ کا ضمیر آپ کو خود بتائے گا،آپ کے دل کی گہرائیوں سے جواب ابھر کر سامنے آئے گا۔ایک کروڑ خامیوں کے باوجود ایک یقین کر لیں گے کہ پاکستان ہمارے لیے اور ہماری نسلوں کے لیے اللہ رب العزت کی بڑی نعمت ہے۔کبھی پاکستان سے باہر نکل کر دیکھیے آپ کو فرق صاف نظر آجائے گا۔دوسروں کے چمکتے چہرے دیکھ کر اپنے چہرے نہیں نوچنے چاہیں۔دور کے ڈھول ہمیشہ سہانے ہوتے ہیں اورہر چمکتی چیزسونا نہیں ہوتی۔ نسل نو کو خوابوں کی تعبیر نہیں ملی،شاید یہ اپنی ڈگریوں کو بوجھ سمجھنے لگے ہیں،شاید یہ زیر بار ہیں،شاید انہیںان مصائب اور مشکلات کا اندازہ نہیں،جن سے ان کے اجداد نے گزر کر پاکستان بنایا تھا۔ہمیںسوچنا ہے کہ ہماری اصل پہچان کیا ہے؟دنیا کے کسی بھی گوشے میںچلے جائیے،کسی بھی ملک کی شہریت حاصل کر لیجئے،آپ کی اصلی شناخت پاکستان ہی رہے گی۔ڈالرز،یورو اور پائونڈز کمالیں،محلات بنا لیں۔آپ نے پاکستانی ہی رہنا ہے۔اس لیے آج سوچیے،ٹھنڈے دل کے ساتھ کہ اس سب کچھ کے باوجود،ہمارے شکوے شکایتوں کے ہجوم میں اپنے آپ سے پوچھیے،ہم نے پاکستان کو کیا دیا؟۔یہ جو ہمارے اوپر ہمارے گناہوں کے عذاب کی طرح مسلط حکمران ہیں کیا ان کو ہم خودمسلط نہیں کرتے؟ہم اپنے گروہی تعصبات اور قبیلائی مفاد کے زیر اثر نہیں ہیں کیا؟ہم طاقتور حلقوں کے باجگزار نہیں ہیں؟ہم اقتدار تک پہنچنے کے لیے خوشامد نہیں کرتے؟ہمارے ہاتھ میں ووٹ کی سب سے مضبوط طاقت ہونے کے باوجود جعلی پراپگنڈے میں آکر ضمیر کی آواز نہیں سنتے۔جن کو اسمبلیوں میںہم بھیجتے ہیں ان کو دیوتا بنا کر نہیں پوجھتے؟ہم ٹوٹی کھمبے اور نالی کے لیے ان کی منتیںنہیں کرتے؟ان کے خلاف کوئی بات کرے تو اخلاق کی حدیں پار نہیں کرتے؟۔ کیا کبھی ہم نے اپنے ان’’قائدین‘‘سے پوچھا ہے کہ آپ نے اسمبلی کے ایوان میں کبھی کوئی ایسا قانون بنوایا ہے،جس سے چور کے ہاتھ کٹ سکیں؟کبھی ایسی قانون سازی کرائی ہے،جس سے کرپشن کا بازار بند ہو سکے؟کبھی ان ’’قائدین‘‘ نے ایسا قانون بنایا جس کے نتیجے میں پکڑے ہوئے ڈاکوکو ضمانت نہ مل سکے؟کبھی انہوں نے نسل نو کے لیے کوئی ایسا بل پیش کیا ہے،جس سے بے روزگار کو میرٹ پر کام مل جائے۔کیا کبھی ان میں سے کسی نے ایسا قانون بنوایا ہے،جس کے بعد ہر ادارہ اپنے کام سے کام رکھتا ہو؟کیا کبھی انہوں نے امیر اور غریب کے بچے کو ایک ہی سکول میں تعلیم،ایک ہی ڈسک پر بیٹھنے کا قانون بنوایا ہے؟کبھی انہوںنے کوشش کی ہے کہ ایسا قانون بن جائے،کبھی ہمارے ان ’’قائدین‘‘ نے ایسا کوئی قانون بنایا کہ کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلیوں میں جاکر اربوں روپے لوٹنے کو ناممکن بنایا جاسکے؟آئیے پاکستان سے شکوے کرنے کی بجائے اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں۔