دوست مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ جو کانفرنس آج (17 اگست) کو ہونی تھی وہ کیوں ملتوی ہوئی؟یہ سوال شریعہ اکیڈمی سے پوچھنے کا ہے۔ 21 جولائی کو میں آفس سے گھر روانہ ہوا تو حسبِ عادت موبائل سائلنٹ موڈ پہ کرلیا۔ ایک جگہ پانی خریدنے کیلیے رکا اور موبائل دیکھا تو معلوم ہوا کہ ڈائریکٹر جنرل شریعہ اکیڈمی کے آفس کی نگران محترمہ ڈاکٹر فرخندہ ضیاء کی جانب سے 3 دفعہ کال مس ہوچکی ہے اور جلد رابطے کیلیے 1 صوتی پیغام بھی آچکا ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کیونکہ پچھلے 2 سال میں تو محترمہ کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔ خیر، ارادہ کیا کہ گھر پہنچ کر ان سے بات کرتا ہوں۔ گھر پہنچ کر موبائل دیکھا، تو 2 دفعہ پھر ان کی کال آچکی تھی۔ اب مجھے پریشانی لاحق ہوگئی۔ میں نے انھیں کال کی تو بات نہیں ہوسکی۔ کچھ دیر بعد انھوں نے پھر کال کی اور چھوٹتے ہی کہا: میں آپ کو بلارہی ہوں اور آپ نے ضرور آنا ہے اور کوئی مسئلہ ہوگا تو میں استعفا دے دوں گی۔ میں نے پوچھا، آپ مجھے کہاں بلا رہی ہیں اور آپ استعفا کیوں دیں گی؟ انھوں نے کہا کہ "مسلح تصادم کے دوران میں ماحول کا تحفظ" کے موضوع پر ہماری 2 روزہ کانفرنس ہورہی ہے، اس کیلیے آپ کو دعوت دینی ہے اور آپ نے پینل ڈسکشن میں حصہ لینا ہے۔ چونکہ اس موضوع اور اس سے متعلقہ مسائل پر میں تقریباً 2 عشروں سے کام کرتا آیا ہوں، اس لیے میں نے کہا، بصد شوق، لیکن اسلامی یونیورسٹی کی انتظامیہ تو ایسے خوف میں مبتلا ہے کہ جہاں یونیورسٹی کا کوئی ملازم میرے ساتھ کسی تصویر میں نظر آئے، اس سے وضاحت طلب کی جاتی ہے اور کوئی طالب علم میری فیس بک پوسٹ پر کمنٹ کرے تو اس کیلیے مشکلات پیدا کی جاتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کچھ بھی ہو، آپ نے آنا ہے، اس موضوع پر میرے اور آپ کے سوا کون بولنے والا ہے، اور اگر کسی نے کچھ کہا تو میں استعفا دے دوں گی۔ میں نے کہا کہ میں آپ کیلیے کوئی مشکل پیدا نہیں کرنا چاہتا، لیکن آپ اصرار کررہی ہیں، تو میں ضرور آؤں گا، ان شاء اللہ۔ برادر محترم جناب آصف محمود صاحب کا کہنا ہے، اور مجھے ان سے اتفاق ہے کہ اسلامی یونیورسٹی تو اپنا گھر ہے اور اس کے درودیوار سے ہمیں محبت نہیں، عقیدت ہے۔ 26 جولائی کو مجھے تحریری دعوت نامہ اور تفصیلی جدول بھی بھیجا گیا۔ مجھے متنوع موضوعات اور مقررین کی فہرست دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ زیادہ خوشی اس بات کی ہوئی کہ اختتامی تقریب میں عزت مآب جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ اسلامی یونیورسٹی پر مسلط جبر کی فضا اور گھٹن میں یہ ایک تازہ ہوا کا جھونکا تھا۔ تاہم اس خوشگوار حیرت کا اختتام اچانک ہی پرسوں ہوا جب کانفرنس کے ملتوی ہونے اور ناسازیِ طبیعت کی وجہ سے ڈاکٹر فرخندہ کے "طویل رخصت" پر چلے جانے کے بارے میں معلوم ہوا۔ اللہ تعالیٰ انھیں شفائے کاملہ عطا فرمائے لیکن بھلا کسی ایک شخص کے بیمار پڑ جانے سے ایسی کانفرنس ملتوی کی جاسکتی ہے جس کیلیے سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج کے علاوہ 24 دانشوروں کو مقالات پڑھنے کیلیے دعوت دی گئی ہو،کئی مہینوں سے تیاری کی جاتی رہی ہو اور فنڈنگ ایک بین الاقوامی ادارے سے آئی ہو؟ اصل میں ہوا کیا ہے؟ انگریزی محاورے کے مطابق، اس کا اندازہ ہر کوئی کرسکتا ہے! اور یہ کوئی انوکھا کام نہیں ہوا۔ 2 سال قبل جبکہ اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں میرے ساتھ کئی طلبہ نے پی ایچ ڈی اور ایل ایل ایم کے مقالات لکھے تھے، ایک دن مراسلہ آیا کہ ان مقالات کے وائیوا میں سپروائزر نہیں بیٹھے گا۔ میں نے اس پر یونیورسٹی کے حکام کو لکھا کہ اس مراسلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے کیونکہ یونیورسٹی کے قواعد کے تحت سپروائزر وائیوا کمیٹی کا رکن ہوتا ہے اور قواعد میں تبدیلی اکیڈمک کونسل ہی کرسکتی ہے۔ بعد میں اپنے طلبہ کے اصرار کے باوجود ان کو انتقامی کارروائی سے بچانے کی خاطر میں وائیوا میں نہیں گیا۔ اسلامی یونیورسٹی میں بد انتظامی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یونیورسٹی کو قانون اور قاعدے کے بجائے ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر چلایاجارہا ہے۔ اسلامی یونیورسٹی آرڈی نینس 1985ء کی دفعہ 27 اساتذہ کو اپنی تحقیق اور تعلیمی سرگرمیوں کیلیے "علمی آزادی" کی ضمانت دیتی ہے۔ یہ علمی آزادی کیسے ممکن ہوگی اگر یونیورسٹی کے ڈین، ڈائریکٹر جنرل اور چیئرپرسن کے عہدوں پر تعیناتی اور معزولی مرضی سے ہو؟ یونیورسٹی کے اپنے اعتراف کے مطابق ان میں 90 فیصد سے زائد عہدیداروں کی تعیناتی "تاحکمِ ثانی" کی گئی ہے۔ یہ عہدیدار اپنے اپنے شعبوں میں تعیناتیوں کیلیے سلیکشن بورڈ کے رکن ہونے کے علاوہ اکیڈمک کونسل کے بھی رکن ہوتے ہیں جہاں اکیڈمک امور کیلیے پالیسیاں اور قواعد وضع کیے جاتے ہیں۔ کیا تعیناتی کرتے ہوئے اور پالیسی یا قواعد بناتے ہوئے یہ عہدیدار آزادانہ فیصلے کریں گے یا اپنے باس کی جبین پر پڑنے والی شکن کو دیکھیں گے؟ یونیورسٹی کے قوانین کی رو سے ان عہدوں کیلیے مدت مقرر ہے اور ان پر تعیناتی بورڈ آف گورنرز کرتا ہے، لیکن پچھلے 15 مہینوں میں بورڈ کی میٹنگ ہی نہیں ہوئی، جبکہ آرڈی نینس کے مطابق ہر تیسرے مہینے بورڈ کی میٹنگ کا ہونا لازمی ہے۔ اسلامی یونیورسٹی میں علمی آزادی کیلیے میں نے مئی 2021ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک رٹ درخواست دائر کی تھی جس پر دسمبر 2021ء میں ہونہار بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی نے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے سامنے تفصیلی دلائل دیے۔ اس کے بعد بھی کئی دفعہ سماعت ہوئی لیکن ابھی تک اس درخواست پر فیصلہ نہیں ہوا۔ شریعہ اکیڈمی کیلیے الگ مقدمے میں انھی جسٹس میاں گل نے فروری 2021ء میں حکم جاری کیا تھا کہ بورڈ اس کیلیے مستقل ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی کرے۔ ایک اور مقدمے میں انھوں نے حکم دیا کہ یہ کام ستمبر 2021ء میں ہی کیا جائے۔ ان احکامات پر ابھی تک عمل نہیں ہوا۔ توہینِ عدالت کی درخواست بھی جسٹس صاحب کے سامنے پونے 2 سال سے زیرِ التوا ہے۔ میں نے سینیٹ کی خصوصی کمیٹی میں یہ تفصیلات پیش کیںتو ایک معزز سینیٹر نے کہا کہ وہ جسٹس صاحب کے متعلق تو نہیں کہیں گے لیکن ان کے آفس کو ضرور یونیورسٹی والوں نے مینیج کیا ہے! خود محترمہ ڈاکٹر فرخندہ ضیاء کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مئی 2022ء میں ریٹائر ہوچکی ہیں اور اس کے بعد انھیں کنٹریکٹ پر عارضی تعیناتی دی گئی ہے، حالانکہ بورڈ کا فیصلہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کسی کو انتظامی عہدوں پر تعینات نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کانفرنس کا ملتوی کیا جانا اہم نہیں ہے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی یونیورسٹی کسی کی ذاتی جاگیر ہے جہاں اس کی مرضی اور پسند و ناپسند پر فیصلے ہوں گے یا یہ ایک پبلک سیکٹر یونیورسٹی ہے جو شہریوں سے وصول کیے گئے ٹیکس کی رقم سے چلتی ہے اور اس وجہ سے اس کے فیصلے پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق ہوں گے؟