یہ کون سے عناصر ہیں جو دہائیوں سے پرامن طور پر رہنے والے مسلمانوں اور مسیحی بھائیوں کے درمیان نفرت اور فساد کی دیواریں کھڑی کرتے ہیں اور مذہب کو اس کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ اس سانحے کا آ غاز مبینہ طور پر قرآن پاک کی بے حرمتی سے ہوا۔اس سانحے کی مذمت کے ساتھ ساتھ یہ تحقیق بہت ضروری ہے کہ کہانی کے ان کرداروں کا ہدایت کار کون تھا۔ اس جرم میں ملوث افراد کو ریاست کے قانون نافذ کرنے والے ادارے گرفتار کرتے اور وہی ان سے حساب لیتے لوگوں کو جتھوں کی صورت میں مسیحی عبادت گاہوں پر حملہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔نفرت کی جو آ گ لگائی گئی اس کے شعلے دور تک جائیں گے اس واقعے کو نہایت تحمل اور بردباری کے ساتھ دیکھنے اور۔سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے اسلام میں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی تعظیم کا حکم دیا گیا۔قرآن کی بے حرمتی کرنے والا بھی شرانگیز ہے اور جنہوں نے چرچ اور مسیحی بھائیوں کے گھروں کو جلایا وہ بھی شر انگیز ہیں۔دونوں سے ریاست کو آ ہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے۔ اب ذرا عوامی مسئلہ مہنگائی پر بات کر لیںِ کہ نگرانوں نے آتے ہی پٹرول 20 روپے بڑھا کر عوام کو مزید مہنگائی کی سلامی دی، مہنگائی کے نئے تھپیڑے پرانی آمدنی کے ساتھ زندگی کے چولیں ہلا رہے ہیں۔ عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں مگر عوام کی ان چیخوں کو سننے والا کوئی نہیں اس وقت تو پھر نگران حکومت ہے جو کسی کو جوابدہ نہیں جس نے پانچ سال بعد عوام سے ووٹ مانگنے نہیں جانا ،دوہزار اٹھارہ سے دوہزار تیئیس تک پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طور حکمران رہی ہیں ،ساڑھے تین سال عمران خان اور باقی کے پی ڈی ایم اتحاد کی حکومت اس دوران مسلسل مہنگائی بڑھتی رہی تمام معاشی مسائل کا بوجھ مسلسل عوام پر ڈالا جاتا رہا۔ بدترین معاشی حالات میں بھی حکومتی اشرافیہ کی مراعات میں اضافہ کیا گیا یہ بے حسی اور سنگ دلی پر مبنی فیصلہ عوام کے وجود سے آخری قطرے خون نچوڑنے کے مترادف ہے۔ آ ئی ایم ایف کسی ملک کی معیشت کو سہارا دیتا ہے تو اس کی تباہی کا پورا انتظام کیا جاتا ہے۔ یہ حقائق ہیں۔ آ ئی ایم ایف جہاں گیا وہاں مہنگائی کبھی کنٹرول میں نہ آسکی نتیجتاً معاشی اور سماجی عدم استحکام پیدا ہوا۔آئی ایم ایف کی انسان دشمن معاشی پالیسیوں کے سہولت کار یقیناً پاکستان کا مقتدر طبقہ ہے۔ چونکہ ان انسان دشمن معاشی پالیسیوں سے ان کی زندگیوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا ان کی مراعات بڑھتی رہتی ہیں ان کی زندگی کی آسودگی اور عیاشی پر رتی برابر فرق نہیں پڑتا ،انہی حالات میں قوم نے اپنا 76واں یوم آزادی بھی منایا ،بدترین مہنگائی کے تھپیڑے سہے اور باجے بجاتے ہوئے اپنے غم غلط کر نے کی کوشش کی،آزادی منانے والے ان بے سمت ہم وطنوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ 76 سالوں میں ہماری سمت ہی درست نہیں ہو سکی،تہواروں کے ساتھ کمرشل سرگرمیاں جڑی ہوئی ہے،یہ کنزیومر ورلڈ کے کچھ اصول ہیں کہ ہر مذہبی اور غیر مذہبی تہوار پر بازار سج جاتے ہیں اور گاہکوں کو خریداری کی دعوت دیتے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے پر سرخ رنگ کے دل بازار میں دستیاب ہوتے ہیں ،اسی طرح 14 اگست پر سبز اور سفید جھنڈیوں کے ساتھ ساتھ اب کئی اور چیزیں بھی سبز اور سفید رنگوں میں بکنے لگی ہیں۔خریدار کون ہوتے ہیں وہی بیچارے 80 فیصد پاکستانی جو اشرافیہ کا بوجھ اپنی جیب سے ٹیکس دے کر اٹھاتے ہیں لیکن جنہیں جمہوریت کے ثمرات سے آج تک کوئی آسودگی نہیں ملی۔یہی 80 فیصد پاکستانی اس طرح کی کمرشل ایکٹیوٹی پر قرض اٹھا کر بچوں کی ضد پوری کرتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان کا وہ طبقہ جو پاکستان کے 80 فیصد دولت پر قابض ہے وہاں جشن آزادی کا منانے کا یہ تصور موجود نہیں۔ سڑکوں پر باجے بجاتے ہوئے موٹر سائیکلوں پر ون ویلنگ کرتے اپنی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کرتے پاکستانی اسی فیصد عوام سے تعلق رکھتے ہیں جن کے خواب کبھی پورے نہیں ہوتے جس کی خواہشیں حسرتوں میں بدلتی رہتی ہیں۔سیاست اور ریاست کی اس تماشہ گاہ میں یہ پاکستانی افتخار عارف کے بارہویں کھلاڑی کی طرح بس اپنی باری کے انتظار میں زندگیاں گزار دیتے ہیں۔ ہریوم آزادی کی طرح اس بار بھی ذہن میں یہ سوال آیا کہ آخر 76 سالوں میں ہم اپنی ازادی کے دن کو ڈھنگ سے منانے کا کوئی طریقہ کیوں وضع نہیں کر سکے۔ وطن سے محبت کے اس جذبے کو کوئی ایسی مثبت سمت دی جا سکتی ہے جس کا فائدہ مجموعی طور پر معاشرے کو ہوتا۔ ورنہ ایک دن میں جھنڈیاں لگا کر اگلے روز گلیوں میں ان جھنڈیوں کو رولنا اور ایک دن باجے بجا بجا کر دوسروں کے آرام کو حرام کرنے سے کیا حاصل ہوتا ہے، لیکن قوم کے جذبوں اور توانائی کو مثبت سمت وہاں دی جاتی ہے جہاں رہنماؤں میں ویژن ہو اور شعور ہو۔ ہم اس معاملے میں کورے ہیں بدقسمتی سے ہمیں جو بھی رہنما ملے وہ شعور اور ویژن کی دولت سے خالی ہوس اور مفاد پرستی سے بھرے ہوئے خود غرض وجود تھے،اتنے سالوں میں ہم نے بھی بہت کچھ دیکھ لیاہے۔ پاکستان کے سیاسی حالات میں تبدیلی نہیں آئی۔بڑے بڑے سیاسی رہنماؤں سے وابستہ خوابوں کو چکنا چور ہوتے دیکھا،ہم نے سیاست کے اتار چڑھاؤ دیکھتے ہوئے زمانہ طالب علمی گزارا۔ عملی زندگی میں آئے۔پھر ایک صحافی کی حیثیت سے پاکستان کے سیاسی سماجی اور معاشی نظام کا مطالعہ کیا اور اور کر رہے ہیں سچی بات یہ ہے کہ سیاست دانوں سے اب کوئی امید وابستہ نہ کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ پاکستان کے نوجوانوں سے کہوں کہ اپنے وقت کی قدر کریں اور اپنے اوپر فوکس کریں۔ ڈیجٹل ہنر سیکھنے میں وقت لگائیں اور ان سیاست دانوں کے الہ کار بن کر وقت ضائع نہ کریں۔اللہ پہ بھروسہ کر کے اپنی قسمت آ پ بدلنے کی کوشش کریں۔