انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے باوجود مادر وطن کے باسیوں میں کسی قسم کا جوش و خروش پایا جاتا ہے نہ سیاسی میدان میں موجود کوئی سیاسی جماعت عوام کو امید دینے میں کامیاب ہوسکی ہے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ جواب سب کی آنکھوں کے سامنے ہے‘مثال کے طور پر ن لیگ کے سربراہ نواز شریف کے مینار پاکستان جلسے میں خطاب جو انہوں نے پاکستان آمد پر کیا‘اس کے علاوہ تین چار مرتبہ ان کے جتنے بھی بیانات سامنے آئے ہیں‘ کسی میں وہ خود پر امید نظر نہیں آتے‘لہذا عوام کو کیا امید دینگے۔ مینار پاکستان جلسے کے دوران نواز شریف کا خطاب آدھا تیتر آدھا بٹیر بھی نہیں تھا‘ پھر انہو ں نے ایک لمبی خاموشی تان لی۔بعدازاں بیان آیا کہ عوام سے وہ وعدے نہیں کرینگے جو پورے نہیں کرسکتے‘ چند روز بعد پھر خاموشی ٹوٹی اور کہا کہ سب کو ساتھ لیکر چلیں گے۔ عوام کو تبدیلی لانے کے دعویداروں سے پوچھنا چاہیے‘وہ کونسی تبدیلی لائے ہیں‘مزید کہا کہ اب ہماری ترجیحات اور منشور میں صرف سڑکوں‘پلوں اور صحت کے میدان میں ترقی نہیں لانا ہوگا۔ ن لیگ ایک طویل عرصہ سے سڑکوں‘پلوں کی تعمیر اور ان کا جال بچھانے کے نعرے لگاتی نہیں تھکتی‘نواز شریف‘شہباز شریف سمیت ہر ن لیگی ہر دور میں یہی راگ الاپتا رہا ہے کہ ہم نے موٹرویز بنائیں‘فلاں سڑک بنائی‘میٹرو بس کیلئے پل بنائے وغیر ہ وغیرہ یہاں تک کہ ان کے حامی دانشور‘تجزیہ نگار پنجاب سپیڈ کی بانسری بجاتے نہیں تھکتے تھے لیکن خود نا امیدی اور عوام میں اپنا بیانیہ پِٹا دیکھ کر روز ایسے ایسے بے منطق جواز گھڑے جارہے ہیں جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ نواز شریف فرماتے ہیں کہ 2022ء میں شہباز شریف کا استعفی تیار تھا‘جسے میں نے بھی پڑھا تھا لیکن پھر دھمکیوں کے خوف میں نہیں آئے اور ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا‘مزید کہتے ہیں کہ عوام کو جھوٹے خواب اب نہیں دیکھانے چاہیے‘ ساتھ ہی معیشت کی زبوں حالی پر اپنی سیاسی دوکان چمکانے کی آرزو میں سوال کردیا کہ معاملات کیسے چل رہے ہیں‘ ادھر سے قرض کی قسط آتی ہے اور ادھر قرض اتارنے کی قسط جمع کروادی جاتی ہے۔ اس صورتحال کو تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو ہر ذی شعور جانتا ہے کہ ملک کی معیشت کا جنازہ کس نے نکالا‘بات پلوں‘سڑکوں اور صحت کے میدان سے کر لیتے ہیں‘ پی ٹی آئی کا روز اول سے موقف تھا اور ہے کہ سڑکوں اور پلوں کا جال بچھانا چاہییں لیکن اپنے وسائل سے‘قرضے لیکر پل تعمیر کرنا‘سڑکیں بنانا کہاں کی دانشمندی ہے۔ صحت کے میدان میں ن لیگ نے کوئی کام نہیں کیا‘ نواز شریف بے بنیاد دعوے کررہے ہیں‘ ان کے دور حکومت میں سرکاری ہسپتالو ں میں مفت ادویات کی فراہمی کے منصوبوں کے علاوہ چند بڑے شہروں میں سرکاری ہسپتالوں کی تعمیر و مرمت کے سوا کوئی کام نہیں ہوا‘ان کے ادوار کے اخبارات اس امر کی چیخ چیخ کر گواہی دیتے ہیں کہ مفت ادویات کی فراہمی کا منصوبہ بھی کرپشن کی نذر ہوا۔ کئی کرپشن کے سکینڈل سامنے آئے۔ نواز شریف جب جب وزیر اعظم رہے‘ملک کی معیشت کو مصنوعی انداز میں چلایا گیا اور آج حالت یہ ہوچکی ہے کہ ملک کے ڈیفالٹ کی باز گشت ہر ہفتے دو ہفتے بعد عوام کو سنائی دینے لگتی ہے۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ نوے کی دہائی کا سفر جاری رہنے دیا جاتا تو ترقی کرچکے ہوتے‘ ڈالر پچاس روپے کا ہوتا اور ساتھ ہی فرمایا کہ عوام کو مزید جھوٹے خواب دیکھانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اس پر اتنا ہی کہیں گے کہ آپ ہی اپنی اداؤں پر غور کریں‘جہاں تک شہباز شریف کے استعفے کا تیار ہونا اور نواز شریف کا اس کا مطالعہ کرنے کی بات ہے‘اب جتنی مرضی تاویلیں پیش کی جائیں کوئی اس اٹل حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتا کہ پی ڈی ایم کا شہباز شریف کی زیر قیادت پراجیکٹ ملک کی 76سالہ تاریخ کا بدترین پراجیکٹ تھا۔ پی ڈی ایم کی حکومت ملک پر قہر بن کر نازل ہوئی اس حکومت میں شامل اہم شخصیات نے اپنے نیب کیسز معاف کروانے اور چیئرمین پی ٹی آئی پر مقدمات کی بوچھاڑ کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ پی ڈی ایم سرکار نے ملک کی معیشت کا وہ جنازہ نکالا کہ آج ملک کی یہ حالت زار ہے کہ عام آدمی کسی بھی روایت پسند سیاسی جماعت جن میں بطور خاص ن لیگ‘پیپلز پارٹی‘ جمعیت علماء اسلام ف اور اے این پی شامل ہیں‘ ان پر کسی قسم کا اعتبار کرنے کو تیار ہے نہ ہی انہیں ووٹ ڈالنے کیلئے رضامند ۔ اس لئے کبھی ادھر کی اور کبھی اْدھر کی بات کی جاتی ہے‘کیا خوب کہا گیا تھا ’’تو ادھر اْدھر کی نا بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا….مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے‘‘- کتنی دیر عوام کو چکنی چوپڑی باتوں میں الجھا کر اس کو اس کے حقوق سے محروم رکھا جائیگا؟۔ اس وقت عام آدمی مسلسل بیروزگاری کی دلدل میں دھنس رہا ہے‘غریب آدمی کے گھر کے چولہے ٹھنڈے ہیں۔ سڑکو ں پر بھوک ناچ رہی ہے‘ہر سو ظلم اور دھونس دھاندلی کا راج ہے۔ نواز شریف جتنی مرضی تدابیر پیش کریں تا وقت وہ منظر سیاست میں ناکام ہیں‘عام آدمی جان چکا انہیں ملک اور قوم سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ روایت پسند سیاسی جماعتوں کے زوال کی وہ گھڑی ہے جسے تاریخ ہمیشہ ابھارے گی اور آخر کار انشاء اللہ پاکستانی قوم کا مستقبل اور حال خوشحال اور تابندہ ہوگا۔ عوام کی نبض شناسی سے پی ڈی ایم کے کٹھ پتلے محروم ہوچکے۔ بلاول بھٹو کی سنئیے‘کہتے ہیں:میں بھی ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتا ہوں‘تین مرتبہ جسے آزمایا گیا‘اس مرتبہ اسے بھی موقع دیا جائے جسے پہلے آزمایا نہیں گیا‘ پاکستان کی سیاسی جماعتوں بالخصوص پی ڈی ایم اتحاد والی جماعتوں کیلئے اس کے علاوہ کیا کہیں: انا اللہ و انا الیہ راجعون!