کیمبرج کی لْغت یعنی ڈکشنری کے مطابق لیول پلیئنگ فیلڈ ایسی صورتِ حال کو کہتے ہیں جس کے اندر سب کو برابر فائدے اور نقصانات مہیا کیے جاتے ہیں۔ ایک ایسا موقع جو سب کھلاڑیوں کو کھیل میں حصّہ لینے اور جیتنے کے لیے یکساں مہیا ہو۔ مگر ہمارے وطنِ عزیز میں یوں لگتا ہے جیسے یہ سب باتیں فرضی ہیں یا ایک واہمہ۔۔۔! ایک مشہور محاورہ ہے: ’’یہ گھوڑا اور یہ گھوڑے کا میدان‘‘ یعنی جیسے ہی گھوڑا میدان میں اترے گا تو پتہ چل جائے گا کہ گھوڑے میں کتنا دم ہے؟ لیکن اگر دوسرے کے مقابلے پر گھوڑا ہی نہیں ہو گا تو کس میں کتنا ہے دم کیسے پتہ چلے گا؟ یاد ہے بچپن میں جب ہم دوستوں سے مل کر لْڈو یا شطرنج کھیلتے تو ہارنے والا ہاتھ مار کر ساری گوٹیاں گرا دیتا تھا کہ جاؤ میں نہیں کھیلوں گا۔ اسی طرح اس ملک میں بار بار انصاف کا قتل ہوتا ہے۔ طاقتوروں اور سیاست بازوں کو تو کسی نہ کسی طرح ان کی مرضی کا انصاف مہیا ہو ہی جاتا ہے۔ مگر عوام کون سے جہانگیر کی زنجیر عدل ہلائے کہ اس کے بچے بْھوکوں مرنے لگے ہیں۔ مہنگائی کا مقدمہ کون سی عدالتِ عالیہ کے حضور پیش کرے کہ اس معاملے میں شنوائی کہاں ہو گی؟ سیاست ایک ایسی گھمبیرتا کا نام ہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی۔ ایک سوال ہے کہ کیا 8فروری 2024کو الیکشن ہو رہے ہیں یا نہیں؟سیدھی سی بات ہے کہ کسی بھی ملک میں جمہوری نظام قائم کرنے کے لیے انتخابات پہلی سیڑھی ہیں۔ ہمارے ہاں تو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ وطنِ عزیز میں آخر کیا چل رہا ہے؟ جمہوریت یا آمریت ۔ انتخابات کے حوالے سے حالات و واقعات بھی سیاسی تنازعات کی شدت کے بہاؤ میں خس و خاشاک کی طرح بہتے چلے جا رہے ہیں۔ مانجھی اپنی پتواروں، کشتیوں حتیٰ کہ لہروں کو بھی اپنی مرضی سے کھیتا چلا جا رہا ہے۔ کہیں سینٹ میں الیکشن ملتوی کرنے کو قراردادیں پیش کی جا رہی ہیں تو کہیں منجھے ہوئے کھلاڑی بھی انتشار کی سیاست کی گرہیں کھول رہے ہیں۔ اس وقت پیارا پاکستان جس طرح کی بحرانی کیفیت کا سامنا کر رہا ہے اس سے ملک کو مزید سیاسی، معاشی اور قومی یک جہتی کے بکھرے ہوئے وجود کا سامنا توبہر حال رہے گا۔انتخابات کی ساکھ اور جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر تاریخ کو کھنگالا جائے تو جنوبی ایشیا میں مقامی حکومتوں کا نظام 1884میں وائسرئے لارڈ پن نے ایک ایسے ایکٹ کے ذریعے نافذ کیا جس میں ضلعی اور تحصیل کی سطح پر مقامی بورڈ قائم کیے گئے ان اداروں کے ذریعے مقامی لوگوں کے مسائل کو حل کرنا تھا۔ لیکن وہ تمام ادارے اختیارات اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے۔ پاکستان بن جانے کے بعد اسی لارڈ پن کے نظام کو اپنایا گیا مگر پھر ناکامی ہی کا سامنا ہوا۔ صدر ایوب نے بنیادی جمہوریتوں کے نام سے ایک نظام قائم کیا تاکہ اختیارات کی نچلی سطح تک عوام کے مسائل کو حل کیا جائے مگر فائدہ نہ ہوا اور حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کا نظام بھی ختم ہو گیا۔بیچ کا لمبا اور کانٹے دار سفر طے کرنے کے بعد جس میں بہت سے نقصانات بھی ہوئے ۔ضیا کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد مقامی حکومتوں کے نظام کو پھر سے بلدیاتی حکومتوں کے نام سے نافذ کیا گیا اگرچہ یہ نظام کئی سال چلا مگر عوام کی اکثریت کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔ قصّہ مختصر نام بدل بدل کر یہ نظام ہر دورِ حکومت میں چلتے رہے مگر عوام آج تک فائدوں سے محروم ہی رہے۔ آج بھی عوام کے دل تو اپنی مٹی کے ساتھ ہی دھڑکتے ہیں اور وہ اچھے نظامِ حکومت کے منتظر ہیں جس میں تمام عوامی اور حکومتی فیصلے شفاف طریقے سے سر انجام پائیں۔ عوام اپنے آئین کے مطابق اپنے بنیادی حقوق حاصل کرکے عوام اور حکومت کے درمیان قریبی احسن تعلقات مضبوط ہوں۔ ایک اچھا نظام حکومت بلاشبہ شفاف انتخابات کے علاوہ عدل و انصاف، برداشت، مساوات اور آزادیء رائے پر منحصر ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں بھی عوام کی امیدیں انتخابات پر ہی لگی ہوئی ہیں۔ اچھا نظام حکومت تمام مذہبی اقلیتوں کو مکمل آزادی دیتا ہے اور استحصال سے پاک معاشرہ قائم کرتا ہے جہاں کوئی طبقہ کسی دوسرے طبقے کے حقوق پامال نہیں کر سکتا۔پاکستان میں ہر آنیوالی حکومت احتساب کا نعرہ تو لگاتی ہے مگر یہ نظام بہت ہی پیچیدہ ہے۔ حکومت کا جمہوری تقاضا تو یہ ہے کہ دیانتداری اور راست بازی قائم کی جائے مگر اب تو ان کا مذاق اْڑایا جاتا ہے۔ قومی سطح کے ادارے قوم کی خدمت کے لیے بنائے جاتے ہیں مگر اداروں میں اس قومی جذبے کا فقدان ہی نظر آتا ہے۔ کبھی کبھی تو یہ سب لکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ سانپ کب کا نکل چکا اب ہم تو بس لکیر ہی پیٹے جا رہے ہیں۔ مگر اللہ کہتا ہے مایوسی گناہ ہے اسی لیے ہم بار بار ایسی باتوں کا اعادہ کرتے رہتے ہیں تا کہ عوامی حقوق کے تحفظ کو اولیت دی جائے اور عوام کو انصاف فراہم ہو۔ فیصلے اور پالیسیاں بناتے وقت عوام کی رائے کو مقدم رکھا جائے۔ ایسا صرف شفاف انتخابات کی راہ پر چلنے سے ہی ہو گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سیاست دان قوم کے خادم ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بہت سے لوگ خود غرضی کے جال میں ایسے پھنس چکے ہیں کہ اس میں سے نکل نہیں پاتے۔ سرکاری محکموں کے ملازمین کو چاہیئے کہ ادنیٰ خادم کی حیثیت سے ایمانداری سے اپنے فرائض بجالائیں۔ تعلیم کو عام کریں۔ کامیاب لیڈر عوام کے ووٹوں کے ذریعے سے ہی منتخب ہوتا ہے اور اس کی نشانی یہ ہے کہ وہ سچا اور دیانت دار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے مخالفین کو ہر چیلنج قبول کر کے اپنے عوام کو مصائب سے بچاتا ہے۔ اس بار عوام بے قراری سے اپنی سرکار کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ شفاف انتخابات ہوکر انہیں وہ تمام بنیادی حقوق میسر ہوں جو آئینِ پاکستان انہیں فراہم کرتا ہے۔