ساری دنیا اس وقت روس اور یوکرین کی جنگ کی خبریں سن رہی ہے اور اس جنگ سے ہونے والے معاشی اثرات سے نبرد آزما ہے لیکن پاکستان نوے اور اسی کی دہائی میں ہونے والی سیاست کی طرف رواں دواں ہے۔اس دوران آنے والی نہایت مسرت خیز خبریں بھی عوام کو کوئی خاص خوش نہیں کر سکیں۔اسلامو فوبیا کے خلاف اقوام متحدہ میں ہونے والی پیش رفت بھی راجہ ریاض اور ترین اور علیم خان گروپ کی خبروں میں گم ہو کر رہ گئی ہے۔کل کا دن تو خاص طور پر ہیجان انگریز تھا‘ جب اسلام آباد کے سندھ ہائوس میں ہونے والی سرگرمیاں منظر عام پر آئیں‘ اس سے پہلے سابق وزیر اعظم گیلانی میڈیا کے سامنے یہ بیان دے چکے تھے کہ وہاں صرف پیپلز پارٹی کے اراکین موجود ہیں‘ مجھے یقین ہے کہ انہیں اس پر قطعاً شرمندگی نہیں ہو گی۔شرم نام کی چیز پاکستان کی سیاست سے رخصت ہو چکی ہے ‘تنظیم سازی کے شوقین اور ویڈیو سیاست کا شکار ہونے والے بھی ڈٹ کر ٹیلی ویژن پر نمودار ہوتے ہیں اور خود کو قومی ہیرو سمجھتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ 1984ء کے بعد پاکستان کی سیاسی لیڈر شپ میں کوئی نیا خون شامل نہیں ہوا۔آج بھی پاکستان کی سیاست نواز شریف‘ آصف زرداری‘ مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے اردگرد گھومتی ہے۔مریم نواز اور بلاول بھٹو اس لئے سیاست میں ہیں کہ وہ ان گھرانوں میں پیدا ہوئے۔عام آدمی کی سیاست میں شمولیت صرف ووٹ دینے اور بینر اٹھانے تک محدود ہے۔عام آدمی کی سہولت یا بھلائی کسی سیاسی جماعت کا حقیقی منشور نہیں ہے۔حقیقی منشور صرف یہ ہے کہ اقتدار کا حصول ہر صورت کیا جائے اور اسے اپنی ذاتی جاگیر بڑھانے کے لئے استعمال کیا جائے۔اصولوں کی سیاست صرف نعرے بازی اور عام آدمی کو بے وقوف بنانے کے لئے ہے۔ہر سیاستدان اس بات پر کامل قدرت رکھتا ہے کہ وہ ملک میں موجود قوانین کو ایسے توڑ مروڑ کر پیش کرنے‘ جس سے اس کے ذاتی موقف کو تقویت ملے۔پی ٹی آئی سے منحرف ہونے والے اراکین نہایت ڈھٹائی سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ اپنی جماعت سے اس لئے منحرف ہوئے ہیں کیونکہ وہ کرپشن کو روکنا چاہتے ہیں۔یعنی وہ آصف زرداری‘شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر کرپشن کے سامنے بند باندھیں گے۔اس نظریے کو لطیفہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ خود اربوں روپے کی کرپشن کے کیسز کا سامنا کر رہے ہیں وہ کرپشن کے خلاف جہاد کے دعوے دار ہیں۔ان کی اولاد کہتی ہے کہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ ان کے اکائونٹ میں 25ارب روپیہ کون ڈال گیا ہے۔شاید کسی نے غلطی سے جمع کروا دیا ہے۔ان کے ادنیٰ ملازمین کے اکائونٹ میں بھی اربوں روپے نامعلوم لوگ جمع کروا دیتے ہیں۔ عمران خان کی صورت میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا پاکستان کی سیاست میں داخل ہوا تھا لیکن پچھلے چار سال میں جتنی ناقص کارکردگی کا مظاہرہ انہوں نے کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے‘ وہ کسی ایک سیاسی مخالف کو بھی کرپشن کے واضح ثبوتوں کے باوجود سزا نہیں دلوا سکے۔چیئرمین نیب ہر چند دن بعد جھوٹے دعوے کرتے ہیں انہوں نے سینکڑوں ارب روپیہ برآمد کیا ہے۔صرف اور صرف ایسے کاروباری حضرات ان کے احتساب کا شکار ہوئے جن کا کوئی سیاسی والی وارث نہیں تھا اور ان سے غلط یا صحیح جرمانے وصول کر لئے گئے۔جہاں کوئی سیاستدان نیب کے سامنے آیا نیب کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔مریم نواز کی ایک دفعہ کی خشت باری نے نیب کے اوسان خطا کر دیے اور انہیں دوبارہ بلانے کی نیب کو جرأت نہیں ہوئی۔مولانا فضل الرحمن کی دھمکی ہی نیب کے لئے کافی ثابت ہوئی اور انہیں دوبارہ کبھی نہیں بلایا گیا۔مریم نواز اپنے والد کی تیماری داری کے لئے ضمانت پر رہا ہوئیں اور اپنے والد کے دو سال پہلے مفرور ہو جانے کے باوجود وہ ضمانت پر رہا ہیں اور جب چاہتی ہیں حکومت اور اس کے اداروں کو نشانے پر رکھ لیتی ہیں اور بے نقط سناتی ہیں۔عمران خان حیرت سے انہیں دیکھتے ہیں جیسے وہ حکومت میں نہیں بلکہ اپوزیشن میں ہیں۔۔اپوزیشن تو ان کے قابو نہیں آئی لیکن اپنے جاں نثار ساتھیوں کو زچ کرنے اور بھکانے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ایک میراثی کے بیٹے کی مثال یاد آتی ہے جس کی ماں نے اسے تھانیدار بننے کی دعا دی تو اس نے کہا کہ اگر میں تھانیدار بن گیا تو تیرا وہ حشر کروں گا کہ تو یاد کرے گی۔اسی پالیسی کی سزا عمران خان آج بھگت رہے ہیں۔نہ اپنے ان سے خوش ہیں اور نہ بیگانے۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس نے انہیں بزدار سنڈورام سے نکالنے کی کوشش نہ کی ہو لیکن وہ تسلسل کے ساتھ عثمان بزدار کی حمایت میں کھڑے رہے۔اس کے نتیجے میں ان کی پارٹی پنجاب میں کمزور ہوتی چلی گئی اور ان کے حریف مضبوط ہوتے چلے گئے۔آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ملک کے کرپٹ ترین لیڈر انہیں کرپٹ قرار دیتے ہیں اور میڈیا کی اکثریت بھی ان کے حریفوں کی زبان بولتی ہے۔اپنے چار سالہ اقتدار میں نہ وہ میڈیا کا رخ تبدیل کر سکے نہ بیورو کریسی کا۔کون یقین کرے گا کہ الیکشن کمیشن کا موجودہ چیئرمین ان کا اپنا حسن انتخاب ہے۔سیاست کی خوبصورتی تو یہ ہوتی ہے کہ دشمنوں کو دوست بنایا جائے لیکن وزیر اعظم کو دوستوں کو دشمن بنانے میں ملکہ حاصل ہے۔اپوزیشن کی تینوں بڑی جماعتیں ہمیشہ ایک دوسرے کی نظریاتی حریف رہی ہیں۔ان میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے سوائے عمران خان کے بغض کے۔ اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو گئی تو ان کا لائحہ عمل کیا ہو گا کسی جماعت نے اس کا اظہار نہیں کیا۔ن لیگ یہ گلہ ضرور کر رہی ہے عمران خان کو absolutely notکہنے کی کیا ضرورت تھی اور یورپی ممالک کی مخالفت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔البتہ وہ یہ نہیں بتا رہے کہ وہ امریکہ کا طوق اپنے گلے میں دوبارہ ڈالنے کے لئے بالکل تیار ہیں۔اپنی متوقع حکومت کی کسی بھی پالیسی کے خدوخال وہ بیان نہیں کر رہے‘ وہ یہ تو نہیں بتا سکتے کہ وہ احتساب کا عمل مکمل طور پر ختم کر دیںگے اور سزا یافتہ مجرموں کو قوانین تبدیل کر کے دوبارہ سیاست کے دائرے میں شامل کر لیں گے۔وہ یہ بھی بتانے سے قاصر ہیں کہ وہ ملکی معیشت کے بارے میں کیا مختلف فیصلے کریں گے اور ڈالر کی اڑان کو کیسے کنٹرول کریں گے۔دوسروں کو یہودی ہونے کا طعنہ دینے والے مولانا کس منہ سے امریکہ کی غلامی میں دوبارہ شامل ہونے کو برداشت کریں گے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی نے جو تھوڑی سے آزادی کی طرف قدم اٹھائے تھے وہ آئندہ آنے والے شاید جاری نہ رکھ سکیں۔اسلام آباد میں ہونے والے اجتماعات پرامن رہنے کے امکانات بہت کم ہیں۔پاکستان کی سکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کو اس کا بروقت نوٹس لینا چاہیے اور اس طرح کے کسی ٹکرائو کے امکانات کو ختم کرنا ہو گا۔اگر اسی پرانی سیاست کی طرف ہی لوٹنا تھا تو پھر بلند وبانگ دعوے کرنے کی کیا ضرورت تھی۔اہل سیاست کو پتہ ہونا چاہیے کہ تصادم کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔