جولائی کی دوپہر تھی جب ہم پانچ لکھاری خواتین ایک کھانے پہ اکٹھے ہوئیں۔ میزبان تھیں بلقیس ریاض صاحبہ جو کئی پاپولر ناولوں اور مقبول سفر ناموں کی لکھاری ہیں۔ اخبار میں کالم لکھتی ہیں۔ ایک محبتی روح اور پرخلوص شخصیت کی مالک ہیں۔محترمہ سلمی اعوان صاحبہ کے کام اور مقام سے سب واقف ہیں ۔ سئینر افسانہ نگار فرحت پروین بھی موجود تھیں اور پانچویں لکھاری تھی امریکہ سے تشریف لائی ہوئی طاہرہ نقوی۔ چاروں لکھاری خواتین مجھ سے کام میں اور عمر میں سینئر تھیں اور میں ان کے درمیان خود کو بہت خوش قسمت سمجھ رہی تھی کہ مجھے سلیقے اور ہنر سے آراستہ تخلیق کار خواتین سے بات کرنے اور ان کی زندگیوں میں جھانکنے کا موقع مل رہا ہے۔ہاں اس سے پہلے طاہرہ نقوی کو نہیں جانتی تھی لیکن وہاں بیٹھے ہوئے جوں جوں طاہرہ نقوی صاحبہ کے بارے میں علم ہوا تو یہ احساس بڑھتا گیا کہ ایک اہم ادبی شخصیت سے ملاقات ہو رہی ہے۔ سب سے پہلے طاہرہ نقوی کا تعارف معروف صحافی رضا رومی نے کروایا اور بتایا کہ طاہرہ نقوی نیویارک کی ایک یونیورسٹی میں اردو پڑھاتی ہیں اور عصمت چغتائی کا سارا ادبی اثاثہ انہوں نے اردو سے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ اور پھر جب بات ہوئی تو میرا سوال یہ تھا کہ کیا آپ نے عصمت کے ناول "ایک قطرہ خون" کا بھی انگریزی ترجمہ کیا ہے۔طاہرہ صاحبہ نے کہا کہ جی وہ بھی میں نے ترجمہ کیا ہے۔ ناول ایک قطرہ خون ہسٹوریکل فکشن ہے تب جو واقعہ کربلا کے پس منظر میں لکھا گیا ۔ عصمت چغتائی کے حوالے سے یہ بات قاری کو حیران کرتی ہے کہ ان کی تحریروں میں مذہب بیزاری کا عنصر بہت واضح ہے ۔ طاہرہ نقوی کے خیالات بھی یہی تھے۔ انہوں نے کہا کہ بعض بڑے لکھاری اپنی زندگی کے بالکل آخر وقت میں جب انہیں اپنا اختتام نظر آنے لگتا ہے تو وہ مذہب کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور عصمت چغتائی کے ساتھ بھی یہی معاملہ لگتا ہے۔ یہ ناول انہوں نے بالکل عمر کے آخری حصے میں لکھا تھا۔ بنیادی طور پر یہ ناول میر انیس کے مرثیوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ میر انیس نے واقعہ کربلا کو اپنے مرثیوں میں بیان کیا، تفصیل کے ساتھ بس وہ اشعار تھے جنہیں عصمت چغتائی نے کمال انداز میں نثر کا روپ دیا۔ خواتین تخلیق کاروں کے ساتھ نشست ، پرتکلف کھانا، چائے اور اس آپس کی گفتگو نے دوپہر کو یادگار بنادیا تھا۔اس نشست میں گفتگو کا رخ سلمیٰ اعوان صاحبہ کے ایک سوال سے اس طرف مڑ گیا کہ انگریزی ادب میں جین آسٹن ،براونٹے سسٹرز کے ناولوں کو ادبی کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔لیکن ہمارے نقادوں نے اردو زبان کے آغاز میں ناول لکھنے والی خواتین کے کام کو بری طرح نظر انداز کیا جنہوں نے اس دور کی اتر پردیش کی مسلم تہذیب اور ان کے رہن سہن کی عکاسی اپنے ناولوں میں کی۔ براونٹے سسٹرز نے انیسویں صدی میں اس وقت ناول لکھنا شروع کیے جب خواتین کا لکھنا معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا تھا۔شارلٹ براونٹے نے اس وقت ادب کے ایک دو اہم نقادوں کو خط لکھا کہ ان کا خواب ہے کہ وہ لکھنے کو بطور پیشہ اختیار کریں۔ اس کے جواب میں جو خط انہیں ملا اس میں حوصلہ افزائی کی بجائے کہا گیا چونکہ تم ایک خاتون ہو تمہارا کام یہ نہیں ہے کہ تم اپنی انگلیاں سیاہی میں خراب کرو۔اس عہد کے نقادوں کی طرف سے حوصلہ شکنی کے باوجود براونٹے سسٹرز نے اپنا کام جاری رکھا۔ پھر دنیائے ادب کو انہوں نے بہت خوبصورت ناول دئیے۔ اب اپ آجائیں بیسویں صدی کے آغاز کی دو دہائیوں کی طرف جب اردو زبان میں گھروں میں بیٹھی ہوئی باپردہ خواتین نے ناول لکھنا شروع کیا تو ان کے لیے سماجی اور ادبی فضا سازگار نہیں تھی۔تقسیم سے قبل مسلمانوں کے لیے یہ دور علمی اور سماجی طور پر پسماندگی کا تھا۔ اس وقت خواتین لکھاریوں پر سماجی دباؤ کیوں نہ ہوتا۔ اس دور میں خواتین لکھاریوں نے کبھی نام بدل کر تو کبھی اپنے ناموں کے ساتھ اپنی مسلم معاشرت کی کہانیاں اور ناول لکھنا شروع کیے۔ سلمیٰ اعوان صاحبہ کا یہ سوال تھا کہ آخر ہمارے نقادوں نے اے آر خاتون اور نادرہ خاتون جیسی لکھاریوں کے کام کو ردی کی ٹوکری میں کیوں ڈال دیا؟ براونٹے سسٹرز اور جین آسٹن کے ناول انگلش میں کلاسیک کا درجہ رکھتے ہیں کہ انہوں نے بھی کسی آفاقی اور تاریخی موضوعات کو اپنے ناولوں کا حصہ نہیں بنایا بلکہ پاپولر فکشن کی طرح مرد اور عورت کے درمیان محبت، سماجی معاملات کے ارد گرد ناول کا تانا بانا بنا۔ اگر ان ناولوں کو کلاسیک کا درجہ دیتے ہیں تو یہی اصول ہم بیسویں صدی کے آغاز میں اردو زبان میں لکھے گئے ناولوں کو کیوں نہیں دیتے؟ اے آر خاتون، نادرہ خاتون کے ناولوں میں اتر پردیش کی شہری زندگی کا منظر نامہ پوری جزئیات کے ساتھ موجود ہے۔ ان کا رہن سہن کیا تھا, کس طرح آپس میں میل ملاپ تھا ،شادی بیاہ کی رسومات کیا تھیں، یہاں تک کے غم اور جنازوں کے موقعے پر کیا رسومات تھیں ۔آخر ہمارے نقاد کی نظر میں وہ ناول کمتر کیوں ہیں؟ ہم نے ان ناولوں کو نظر انداز کر کے صرف قرۃ العین حیدر کے’’ آگ کا دریا ‘‘کو اہمیت دی۔ سوال یہ ہے کہ آگ کا ذریعہ کتنے لوگوں کو سمجھ آتا ہے۔ کیا بیس اکیس سال کے طالب علموں کو آگ کا دریا سمجھ میں آئے گا۔اس کو سمجھنے کے لیے آپ کو علم اور شعور کی ایک خاص سطح درکار ہے۔ یہ ہمارے نقادوں کا کوئی احساس کمتری ہے کہ معاشرتی اور گھریلو موضوعات پر لکھے ہوئے انگریزی ناول تو کلاسکس میں شمار ہوتے ہیں مگر وہی موضوعات اگر اردو زبان میں خواتین لکھاریوں نے لکھے تو ان کو پاپولر فکشن کہہ کے ان کی تمام تر ادبی ریاضت اور عام خواتین کے ادبی ذوق کی آبیاری کرنے میں ان کی گراں قدر خدمات کو نظر انداز کرکے ادبی بد دیانتی کا مظاہرہ کیا گیا۔