آئی ایم ایف سے قرض کے معاہدے کی نوید کے بعد یہ تاثر دیا جا رہا تھا   کہ معاہدہ ہوتے ہی غریب کی قسمت بدل جائے گی۔اس کے ہر دکھ کا مداوا کردیا جائے گا۔ اشیا زندگی سستی ہو جائیں گی ، روز گار ملنا آسان ہو جائے گا۔غریب کے گھر کا ٹھنڈا ہوتا چو لہا پھر سے دہکنے لگے گا۔  ملک کے طول و عرض میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ حقائق اس کے بر عکس ہیں۔غریب کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ مہنگائی کا سیلاب  ہر شے کو بہائے لے جا رہا ہے۔محفوظ ہے تو صرف مراعات یافتہ طبقہ جو غریبوں کے ادا کردہ ٹیکسوں پر زندگی پورے طمطراق سے گزار رہا ہے۔ایک طرف مہنگائی دوسری جانب حکومت کے عوام کش فیصلے ہیں۔ تیرہ جماعتی اتحاد کی حکومت نے  جاتے جاتے  بجلی کے بلوں میں اضافے کا جو تحفہ دیا ہے  اس سے تو غریب  عوام کا بھرکس نکال کر رہ جائے گا۔ بجلی کے  بلوں میں بے تحاشہ  اضافے کے بعد ہر شخص بلبلا اٹھا ہے۔ روٹی کمانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔  ہر شخص مجسم سوال ہے کہ انہیں کس جرم کی سزا مل رہی ہے۔ جبکہ تین ،تین بار اقتدار میں رہنے والی جماعت یہ مضحکہ خیز دعوی کرتی نظر آتی ہے کہ ایک بار پھر اقتدار مل جائے تو ملک و ملت کی قسمت سنوار دیں گے۔ وزرا، سفرا،ارکان اسمبلیوں اور افسر شاہی کی مراعات کی باز گشت نے لوگوں کو  نہ صرف حکومت سے  متنفر کیا ہے بلکہ  اس طبقاتی تفریق نے  عوام کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر  عوام اپنے غیض و غضب کا اظہار مختلف انداز میں کر رہی ہے۔ خواتین جھولیاں پھیلا پھیلا کر بد دعائیں دے رہی ہیں۔ غریب کا دم بھرنے والی حکومت نے کتنا نام کمایا  انتخابات میں اسے پتہ چل جائے گا۔ اس وقت ایک ہا ہا کار مچی ہوئی ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے آئی ایم ایف کے  معاہدے پر خوشیاں منائیں یا بین ڈالیں۔ حکومت کی طرف سے بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد جو خوفناک منظر سامنے آرہا ہے اس نے عوام کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ سرکار کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا  جو تحفہ دیا گیا ہے اس کے مطابق 100 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارف کا بل 1836روپے آئے گا۔۔۔"اگے حساب آپ لا لوو" سوشل میڈیا پر کسی منچلے نے ازراہ مذاق  خوب تبصرہ کیا ہے۔ واپڈا آفس کے سامنے ایک شخص کیلے بیچ رہا تھا۔واپڈا کے ایک بڑے افسر نے پوچھا کیلے کیسے دیتے ہو؟ کیلے کس کے لئے خرید رہے ہو صاحب؟افسر۔ کیا مطلب کیلے والا۔۔۔مطلب یہ کہ یتیم خانے کے لئے لے رہے ہو تو 40 روپیہ درجن، اولڈ ہوم کے لئے لے رہے ہو تو 50 روپیہ درجن، بچوں کے ٹفن کے لئے 60 روپیہ درجن گھر کھانے کے لئے لے رہے ہو تو 70 روپیہ درجن اگر پکنک کے لئے خریدنے ہوں تو 80 روپیہ درجن۔ افسر یہ کیا بیوقوفی ہے؟ارے بھائی جب سب کیلے ایک جیسے ہیں تو ریٹ الگ الگ کیوں؟ کیلے والاپیسے کی وصولی کا اسٹائل تو آپ لوگوں والا ہی ہے۔ جیسے 1 سے 100 یونٹ کا الگ ریٹ100 سے 200 کا الگ200 سے 300 کا الگ300 سے 400 کا الگ۔ بجلی تو آپ ایک ہی کھمبے سے دیتے ہو ؟تو پھر گھرکے لئے الگ ریٹ دکان کے لئے الگ ریٹ کارخانے کا الگ ریٹ اور ایک بات۔۔ میٹر کی قیمت ہم سے لیکر پھر میٹر کا کرایہ الگ لیتے ہو۔ انکم واپڈا کو ہوتی ہے اور انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ہم سے الگ لیتے ہو سرچارج اور ایکسٹرا سرچارج کیا بلا ہے جو ہم سے لیتے ہو؟ میٹر کیا امریکہ سے امپورٹ کیا ہے 25 سال سے میٹر خرید کر بھی اس کا کرایہ بھر رہا ہوں۔آخر میٹر کی قیمت کتنی ہے؟  آپ بتا کیوں نہیں دیتے ایک ہی بار۔ بات تو سچ ہے مگر حکومت کو اس کی پرواہ نہیں اس کے اللے تللے پورے ہونے چاہیئں۔اس کی بلا سے کسی غریب خاندان کا سربراہ خود کشی کرتا ہے تو کرے۔غریب تو پیدا ہی ان کے جلسے جلوسوں کی رونق بڑھانے کے لئے ہے خام مال کی طرح اس کااستعمال کیا جاتا ہے۔وہ کیا جانے فنشڈ پراڈکٹ کی قیمت کتنی اور کون وصول کرتا ہے۔ایک طرف یہ ڈراؤنا سین چل رہا ہے دوسری طرف خبر عام ہے کہ سولر پینل مافیا نے ستر ارب سے زائد کی اوور انوائسنگ کر کے ملکی معیشت کو جو دھچکا لگا یا ہے اس پر ایف بی آر ، کسٹم حکام  اور ایف آئی اے سب ہی ادارے حرکت میں آگئے ہیں۔لیکن یاران وطن کا کہنا ہے ان کے حرکت میں آنے سے ہی تو برکات ہوتی ہیں " ایتھے پہلے کج نئیں بنیا ہن کی بننا اے"۔   جن کا بننا تھا انہوں نے بنا لیا اب تو صرف کہانیاں بنیں گی اور عوام سنے گے۔ اس ضمن میں پہلی کہانی یہ سامنے آئی ہے کہ سولر پینل درآمد تو چین سے کئے گئے لیکن اوور انوائسنگ سے حاصل رقم سنگار پور اور دبئی کے بینکوں میں بھجوائی گئی ہے۔کئی حاسد اسے منی لانڈرنگ کا اسکینڈل بتا رہے ہیں۔ یہ سارا کھیل تو بڑے لوگوں کا ہے اس میں بڑے بڑے پردہ نشینوں کے نام ہوں۔"کون پھڑے تو کیوں پھڑے"۔ کیس خود ہی پھڑ پھڑا کر ایک روز فائلوں میں اور پھر آگ یا دیمک کی نذ ہو جائے گا۔ عوام کا دکھ تو آٹا ، چینی اور دال ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے انہیں عزت نفس کے ساتھ جینے دیا جائے۔ حکومت آنے والی کیئر ٹیکر حکومت کی ذمہ داری لگا دے یا انہیں ہدایت کردے کہ  نادرا سے ڈیٹا لے کر  گھر گھر جا کر زہریلے ٹیکے لگانے کا بندو بست کر ے تاکہ نہ  ہو عوام نہ ہو مہنگائی کا شور شرابا۔ "کچھ تو کرو اے چارہ گرو"