بھارت میں الیکشن کمیشن نے سات مرحلوں پر محیط عام انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا ہے۔ پہلے مرحلے میں 19اپریل کو ووٹ ڈالے جائینگے، جبکہ آخری مرحلے میں یکم جون کو ووٹنگ ہوگی۔ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان چار جون کو کیا جائیگا۔ یعنی پہلے اور ساتویں مرحلے کے درمیان 44دن کا وقفہ ہوگا، اور اگر انتخابات کے شیڈول کے اعلان سے مدت کو شامل کیا جائے، تو سیاسی پارٹیوں کو 79دن اب تک کی سب سے طویل ترین انتخابی مہم چلانی پڑے گی۔ شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی انتخابی ضابطہ اخلاق کا بھی نفاذ ہوگیا ہے، یعنی اب حکومت کوئی پالیسی فیصلہ لے سکتی ہے نہ ترقیاتی کاموں کے اعلانات وغیرہ۔ ایک طرح سے اس مدت کے دوران اب تمام سرکاری کام اگلی حکومت کے قیام تک ٹھپ ہوجائینگے اور بیوروکریسی اب حکومت کے بجائے الیکشن کمیشن کو جوابدہ ہوگی۔ اپوزیشن پارٹیاں اتنے طویل مرحلوں پر محیط انتخابی عمل پر پہلے سے ہی تحفظات ظاہر کر چکی ہیں، کیونکہ تقریباً 80دنوں تک انتخابی مہم چلانے اور اسکو زندہ رکھنے کیلئے زر کثیر کی بھی ضرور ت ہوگی، جو کہ اس وقت صرف حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے پاس ہی ہے۔ 543رکنی لوک سبھا کیلئے 97کروڑ ووٹر 10.5 لاکھ پولنگ بوتھوں میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ پولنگ افسران کی تعداد ہی 1.5کروڑ ہوگی ، جو 55لاکھ الیکٹرانک ووٹنگ مشینو ں کے ذریعے اس عمل کو مکمل کروائیں گے۔ اس بار 1.8کروڑ نئے ووٹر ہونگے اور 19.7کروڑ ووٹر ایسے ہیں، جن کی عمر 20سے 29سال کے درمیان ہیں۔ بھارت میں چھ قومی پارٹیاں، 57علاقائی رجسٹرڈ پارٹیاں اور 2,597غیر رجسٹرڈ پارٹیاں ہیں، جو متواتر انتخابات میں حصہ لیتی ہیں۔ جموں و کشمیر میں امن امان کی بحالی کے بلند و بانگ دعوں کے باوجود وہاں اسمبلی کے انتخابات منعقد نہیں ہونگے، جبکہ کمیشن نے چار صوبائی اسمبلیوں آندھرا پردیش، سکم، اروناچل پردیش اور اڑیسہ کیلئے لوک سبھا کے ساتھ ہی انتخابات منعقد کرانے کا اعلان کیا۔ چیف الیکشن کمشنر راجیوکمار کا کہنا تھا ، گو کہ جموں و کشمیر کی سبھی سیاسی پارٹیوں نے لوک سبھا کی نشتوں کے ساتھ ہی اسمبلی انتخابات منعقد کروانے کی وکالت کی تھی، مگر سیکورٹی اداروں نے اس کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا نئی حد بندی کے مطابق جموں و کشمیر کی 90نشستوں کیلئے تقریبا ایک ہزار کے قریب امیدوار ہونگے اور ہر امیدوار کی حفاظت کیلئے دو سیکشن فورس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی سکیور ٹی فورسز کی اضافی 500کمپنیاں درکار ہونگی۔ مگر حقیقت ہے کہ نئی دہلی میں بیٹھے حکمران لوک سبھا انتخابات منعقد کرواکے پہلے عوامی رجحان کی سن گن لیکر ہی پھر اسمبلی انتخابات کے تئیں رخ صاف کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ان کو اب بھی خدشہ ہے کہ عوامی حکومت چاہے براہ نام ہی سہی، کہیں، پچھلے پانچ سالوں کے دوران ٹھونسے گئے فیصلوں کو واپس نہ لے۔ ان کو بھی لگتا ہے کہ کشمیر میں جو خاموشی چھائی ہے، وہ مصنوعی ہے اور شاید اس کے پیچھے کوئی طوفان نہ چھپا ہوا ہے، جو ذرا سی ڈھیل دینے سے باہر آجائے۔ اپوزیشن کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات بھارت کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان انتخابات کے نتائج نہ صرف بھارت بلکہ پورے خطے کیلئے دو رس عوامل کے حامل ہونگے ۔کھڑگے کے مطابق یہ جمہوریت کا امتحان ہوگا۔ اگر بی جے پی وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں واپس اقتدار میں آتی ہے، تو اگلی مدت کے دوران آئین میں دور رس تبدیلیاں کی جائینگی ۔ بی جے پی کے ایک ممبر نے پہلے ہی عندیہ دیا ہے کہ آئین سے سیکولر اور سوشلسٹ لفظ کو حذف کیا جائیگا۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے یہ جمہوریت بنام آمرانہ نظام کا مقابلہ ہے، جو مودی کی تیسری مدت کے دوران باضابطہ پنجہ گاڑ لے گا۔ موجودہ صورت میں بھی یہ لوک سبھا کا آخری الیکشن بھی ہے۔ کیونکہ 2029کے انتخابات کے وقت موجودہ لوک سبھا کی شکل و صورت ہی مختلف ہوگی۔ اگلے انتخابات کے وقت ایک تہائی نشستیں خواتین کیلئے مختص ہونگی، یعنی آنے والی لوک سبھا کے 33فیصد مرد اراکین کو 2029کے انتخابات کو لڑنے کا موقعہ ہی نہیں ملے گا۔ دوسرا 2026میں لوک سبھا کی نشتوں کی حد بندی ہونے والی ہے، جو 2011کی مردم شماری کی بنیاد پر ہوگی، جس میں شمالی بھارت میں آبادی بڑھنے سے اس کی سیٹیں جنوبی بھارت کے نسبتاً خاصی بڑھ جائیگی۔اس طرح بھارتی سیاست میں جنوبی بھارت کا وزن بہت ہی کم ہو جائیگا۔ شمالی بھارت ہی بی جے پی کا گڑھ ہے۔ جنوبی صوبوں کے ووٹروں کا شاید وہی حال ہونے کا اندیشہ ہے، جو مودی کی آمد کے بعد پورے ملک میں ایک وقت کے بادشاہ گرمسلمانوں کا ہوگیاہے۔ اتراکھنڈ میں تجربہ کیے گئے یکساں سول کوڈ کو پورے ملک میں نافذ کیا جائیگا۔ بیک وقت پارلیمانی اور صوبائی انتخابات یعنی ون نیشن ون الیکشن کے آئیڈیا کو آئین میں ترمیم کرکے قانون بنایا جائے گا۔ وفاقیت کو مزید کمزور کرکے مرکز کو مزید اختیارات منتقل کئے جائینگے۔ حکومت صدارتی نظام کے قریب تر ہو جائے گی اور اختیارات ایک شخص کے پاس مرکوز ہوں گے۔ مودی نے بی جے پی کے لیے 370 سیٹوں اور اتحادیوں کے ساتھ نیشنل ڈیموکریٹک الائینس یعنی این ڈی اے کے لیے 400 سیٹوں کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے مودی نے پچھلے چند مہینوں میں، این ڈی اے میں 30 سے زیادہ چھوٹی پارٹیوں کو شامل کیا ہے۔ا یسے افراد کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا ہے جن کو وہ ماضی میں ذاتی طور پر نشانہ بناتے تھے۔ ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر ، کشمیر کی خصوصی حثیت کا خاتمہ اور شہریت قانون میں ترمیم جیسے ایشوز کو لیکر ہی بی جے پی اسوقت فی الحال میدان میں ہے۔ 2019کے برعکس اس وقت بی جے پی کے پاس کوئی بڑا جذباتی ایشو نہیں ہے۔ 2019میں پلوامہ کشمیر میں حفاظتی دستوں پر حملہ اور پھر بالا کوٹ پر بھارتی فضائیہ کی کاروائی نے ایک ہیجا ن ملک میں برپا کردیا تھا، جس کا مودی نے خاطر خواہ فائدہ اٹھا کر ایوان میں 303نشستیں حاصل کیں۔ ان میں سے 224 نشستوں پر شمالی بھارت میں کامیابی حاصل کی ۔ 2019میں بہار صوبہ کی 40نشستوں میں 39بی جے پی اور اسکے اتحادیوں کو مل گئی تھیں۔ اسی طرح اتر پردیش کی کل 80میں سے 62، مدھیہ پردیش کی 28میں سے 27، گجرات، ہریانہ، ہماچل پردیش، جھارکھنڈ اور اتراکھنڈ کی سبھی پارلیمانی سیٹیں بی جے پی کی مل گئی تھیں۔ یعنی جتنی سیٹیں شمالی بھات سے مل سکتی تھی، وہ مل چکی ہیں، اب اس میں اضافہ کی گنجائش کم ہی ہے۔ا سلئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کسی جذباتی موضوع کے بغیر اور جنوبی صوبوں میں قدم جمائے بغیر 370سیٹیں لانا ناممکن ہے۔ (جاری ہے)