زرعی زمینوں کا اشتمال یا جمع بندی ایک انتظامی عمل ہے جس کے ذریعے زمین کے چھوٹے ،چھوٹے انفرادی پلاٹوں یا زمینی ٹکڑوں کو ملا کر زیادہ بڑے ، موثرٹکڑوںاور منطقی شکل والی زمین میں بدل دیا جاتاہے ۔ اس طرح زرعی زمین زرعی پیداوار کو نمایاں طور پر افزودہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے جس کے ذریعے سے بکھری ہو ئی زمینوں کو درپیش مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے اور زرعی شعبے کی بھرپو ر صلاحیت سے استفادہ بھی کیا جا سکتاہے ۔ پاکستان کا زرعی منظرنامہ چھوٹی اور بکھری ہوئی زمینوں کا حامل ہے۔ زمین کی ملکیت کا اوسط سائز نسبتاً چھوٹا ہے، جس کی وجہ سے کسانوں کے لیے جدید کاشتکاری ، میکانائزیشن، اور وسائل کے موثر انتظام کو اپنانا مشکل ہو جاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، پیداواری صلاحیت کم رہتی ہے۔اس ضمن میں سب سے پہلے پاکستان کی زرعی زمین کی تقسیم کے تاریخی عمل اور موجودہ صورتحال کو سمجھنا ضروری ہے ۔پاکستان میں گذشتہ پانچ دہائیوں میں زرعی فارموں کی تعداد 3.76ملین سے بڑھ کر 8.26ملین ہو چکی ہے ۔ اس اضافے کی رفتار نمایاں طور پر 2000 اور 2010 کے درمیان تیز ہوئی، جب فارموں کی تعداد 6.62ملین سے بڑھ کر 8.26ملین ہو گئی، جو کہ 25 فیصد کی حیران کن شرح نمو کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ ڈیٹا 13 سال پرانا ہے، اور 2010 کے بعد سے کوئی زراعت شماری نہیں کی گئی۔اوسط فارم کے سائز پر غور کرتے وقت، یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ 64 فیصد کسانوں کے پاس 5 ایکڑ سے کم اراضی ہے۔ اگر ہم اس حد کو 12.5 ایکڑ تک بڑھاتے ہیں، تو یہ شرح 89 فیصد تک بڑھ جاتی ہے ،جب اوسط فارم کے سائز کی جانچ کی جاتی ہے، تو وہ مزیدچھوٹے ہوجاتے ہیں۔مزید یہ کہ پاکستان میں کھیت کے اوسط سائز اور اوسط کاشت شدہ رقبہ دونوں میں کمی کا رجحان مستقل طور پر دیکھا گیا ہے۔ 1972 اور 2010 کے درمیان کھیت کا اوسط سائز 13 ایکڑ سے کم ہو کر 6.4ایکڑ رہ گیا، جبکہ اوسط کاشت شدہ رقبہ اسی عرصے میں10.8 ایکڑ سے کم ہو کر 5.2 ایکڑ رہ گیاہے۔ اگر ٹکڑوں کی کل تعداد ظاہر کی جائے تو یہ صورتحال مزید دگرگوں ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں فی فارم زرعی ٹکڑوں کی اوسط تعداد تین کے لگ بھگ ہے۔ پاکستا ن میں کل زرعی اراضی کا 34فی صد ٹکڑوں پر مشتمل ہے جس میں کل ٹکڑوں کی تعداد 8.58ملین ہے جبکہ اس میں سے 6.55ملین ٹکڑے ایسے کسانوں سے وابستہ ہیں جو 12.5 ایکڑ سے کم اراضی کے مالک ہیں ۔ ٹکڑوں کی اتنی بڑی تعداد کی چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسانوں میں موجودگی ، زرعی زمین کی تنظیمِ نو تقاضا کرتی ہے ۔ بکھری ہوئی زرعی زمینیں،ایک مربوط پیداواری زرعی حکمت عملی کے نفاذ کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہیں ۔ زرعی زمین کی تقسیمِ نو سے کسان بڑے اور زیادہ یکساں کھیت ترتیب دے سکتے ہیں جس سے کاشتکاری کے جدید آلات اور طریقوں کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس لیے زرعی زمین کی جمع بندی مقامی اور علاقائی دونوں سطحوں پر زمین کے استعمال کی بہتر منصوبہ بندی میں معاون ہوگی جو کہ دیگر ترقیاتی ترجیحات کے ساتھ زرعی ضروریات کو متوازن کرنے میں بھی معاون ہوگی۔ پاکستان میں زرعی زمین کی جمع بندی کے کامیاب نفاذ کے لئے قطعی اور تازہ ترین زمینی ریکارڈ کے ساتھ ساتھ زرعی زمیں کی ملکیت کی پیچیدگیوں اور مروجہ سماجی حرکیات کا تجزیہ بھی ازحد ضروری ہے ۔زمینی ملکیت کے پیچیدہ قوانین جوکہ ہر صوبے میں مختلف انداز میں رائج ہیں۔ زمین کے جائز استعمال، ذیلی تقسیم اور جمع بندی کے تعین میں مقامی زوننگ اور زمین کے استعمال کے ضوابط پر عمل کرنا ضروری ہے۔ زمین کے ٹائٹل، باؤنڈری کے تنازعات، کرایہ داری کے حقوق اور زمین کے ریکارڈ کی دیکھ بھال سے متعلق مسائل جمع بندی کے عمل میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔تمام خطوں میں زمین کی ملکیت اور مدتی نظام میں تنوع کا مطلب یہ ہے کہ جمع بندی کے اقدامات کو ،زمینی حقوق کے ممکنہ نقصان کے بارے میں فکرمند زمینداروں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مگر ان تمام مسائل سے مناسب لائحہ عمل اور منصوبہ بندی سے نمٹا جا سکتاہے۔ زرعی زمین کے اشتمال یا جمع بندی کے سلسلے میں جہاں تک موجودہ قانوں کا معاملہ ہے توپاکستان میں قانون ایک مخصوص علاقے کے رہائشیوں کو زمین کو یکجا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، بشرطیکہ وہ تحریری ثبوت پیش کر سکیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ گاؤں کے کم از کم 51 فیصد رہائشی زرعی زمین کی جمع بندی کے حق میںہیں۔ جو لوگ حمایت میں ہیں وہ جمع بندی کی اسکیم تجویز کر سکتے ہیں۔چونکہ جمع بندی کا یہ عمل بورڈ آف ریونیو کے دائرہ اختیار میں ہے سو ریونیو آفیسراس اسکیم کو شائع کرے گا۔ اگر ایک مقررہ مدت کے اندر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جاتا ہے تو اسکیم کو لاگو کیا جا سکتا ہے۔ اعتراضات پیدا ہونے کی صورت میں لوگ 60 دنوں کے اندر کلکٹر کے پاس اپیل دائر کر سکتے ہیں۔ اگر مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے، تو کمشنر کے پاس مزید 60 دن کی مدت میں اپیل کی جا سکتی ہے، کمشنر ایسے معاملات میں حتمی اتھارٹی کے طور پر کام کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں جہاں درخواست دہندہ جمع بندی اسکیم تجویزنہیں کرتے، ریونیو آفیسر اسی طریقہ کار کے مراحل پر عمل کرتے ہوئے اسکیم تیار کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ مزید برآں، اگرجمع بندی کے عمل میں حصہ لینے کے خواہشمند افراد کی تعداد 51 فیصد سے کم ہے، تب بھی جمع بندی کی جاسکتی ہے لیکن اس کا دائرہ کار صرف درخواست دہندگان تک محدود ہو گا۔ زرعی زمیں کی جمع بندی کی موجودہ قانونی ڈھانچے میں موجود گنجائش اور ممکنہ فوائد، پاکستان میں بڑے پیمانے پراس کے موثر نفاذ کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس کے لئے نہایت باریک بینی سے منصوبہ بندی، شفاف ریگولیٹری عوامل، اورمقامی لوگوں کی فعال شرکت کے ساتھ ساتھ حکومتی ترجیح اور ارادہ خشتِ اول ہیں۔ یہ تبدیلی نہ صرف کسانوں کو فائدہ دے گی بلکہ غذائی تحفظ کو بڑھانے، دیہی ترقی کو فروغ دینے اور مجموعی اقتصادی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔