آئی جی اسلام آباد نے ایف نائن پارک ریپ کیس کی رپورٹ قومی اسمبلی کی قائمہ کیٹی کو پیش کی کہ ’ ملزمان ایک ناکے پر مار دیے گئے ، کیس تمام ہوا ‘۔مگر کمیٹی نے اسے رد کر دیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ یہ رپورٹ بھی اتنی ہی تکلیف دہ ہے جتنا وہ وقوعہ ۔ ضروری نہیں کہ انسپکٹر جنرل پولیس غلط بیانی کر رہے ہوں لیکن یہ ضرور ہے کہ پولیس اعلامیے کے مندرجات سوالات کا جواب دینے کی بجائے مزید سوالات پیدا کر کے معاملے کو مشکوک بنا رہے ہیں۔ پولیس اعلامیے کے مطابق ڈی 12 کے ناکے پر ملزمان نے پولیس پر فائرنگ کی ، فائرنگ کے تبادلے میں حفاظتی اقدامات کی وجہ سے پولیس اہلکار محفوظ رہے لیکن حملہ آور زخمی ہوئے اور ہسپتال جا کر ہلاک ہو گئے۔ سوال یہ ہے ناکے پر ایسے کون سے حفاظتی انتظامات تھے کہ پولیس اہلکار تو بالکل محفوظ رہے لیکن ملزمان مار دیے گئے؟ اسلام آباد آج کل ویسے ہی ’ ناکہ آباد‘ بن چکا ہے ۔ناکے تو جا بجا لگے ہیں لیکن حفاظتی انتظامات کیا ہیں؟ سامنے سڑک پر کھڑے ہو کر اہلکار چیکنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ جو پہلے فائر کر رہا ہے اس کا فائر تو پانچ دس فٹ کے فاصلے سے نشانے پر نہ لگے لیکن جوابی حملہ ایسا کارگر ہو کہ حملہ آور مارے جائیں۔ مارے بھی صرف وہی دو جائیں تو ریپ کے ’ ملزم‘ تھے۔ ان کے علاوہ نہ کوئی مارا جائے نہ کسی کو خراش آئے۔ اسامہ ستی کا قتل بھی ایسا ہی ناکے پر ہوا تھا اور حال ہی میں عدالت نے پولیس اہلکاروں کو سزائے موت سنائی ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ پولیس نے ایک بار پھر ناکے پر کچھ بے گناہ قتل کر دیے ہوں اور اب انہیں ملزم قرار دے کر ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی جارہی ہو کہ نہ تو اس مقابلے پر کوئی سوال اٹھے اور نہ ہی ریپ کیس کے معاملے میں مزید کوئی تفتیش و تحقیق کی مشقت اٹھانا پڑے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ فاطمہ جناح پارک ریپ کیس میں خود پولیس ہی کے کچھ اہلکار ملوث ہوں اور انہیں بچانے کی کوشش کی جا رہی ہو؟ میں اس بد گمانی پر معذرت خواہ ہوں لیکن یہ میری بد گمانی نہیں ، یہ شہر نا پرساں میں بلند ہوتی سرگوشیوں کا احوال ہے ۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ کیسے ممکن ہے دو لوگ پارک میں ’ گن پوائنٹ‘ پر ریپ کر لیں ۔اتنی آسانی سے ’ گن‘ لے کر پارکوں میں کون گھوم پھر سکتا ہے کہ موقع ملتے ہی واردات کر جائے؟ قائمہ کمیٹی نے سوالات اٹھائے تو آئی جی پولیس نے کہا کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، اس لیے مناسب ہے اس پر بات نہ کی جائے۔اس رویے پر قائمہ کمیٹی کی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ قادر مندو خیل صاحب نے کہا وہ احتجاجا اجلاس کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔وفاقی وزیر انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اتنا غیر محفوظ ہو چکا ہے کہ وہ آج کل اپنے گھر سے باہر نہیں نکلتے۔سوال یہ ہے کیا اس پر احتجاج کرنا چاہیے تھا یا کارروائی کرنی چاہیے تھی؟ قائمہ کمیٹی کی حیثیت کیا ہے؟کیا محض اتنی سی کہ اس کے سوالات کا جواب نہ دیا جائے تو فاضل اراکین احتجاج کرتے ہوئے اٹھ جانے کی دھمکی دیں؟ اگر منتخب ایوان کی محترم کمیٹی نے افسر شاہی کے آگے یوں بے بسی کا اظہار کرنا ہے تو پارلیمان کی با لا دستی اور اس کی عزت کی باتیں کرنے کا تکلف کیوں کیا جاتا ہے؟ ہماری افسر شاہی کا فہم قانون بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔محترم آئی جی صاحب کا یہ کہنا کہ اس معاملے پر مزید بات مناسب نہیں کیوں کہ یہ عدالت میں زیر سماعت ہے معلوم نہیں محض سادگی ہے یا ہشیاری ہے لیکن یہ موقف درست نہیں ہے۔ عدالت معاملے کے قانونی نکتے پر بات کر رہی ہے اور مجرم کا تعین ہونے کے بعد سزا دے گی۔ لیکن پارلیمان کی قائمہ کمیٹی افسر شاہی سے انتظامی پہلو پر بات کر رہی تھی جو اس کا مکمل استحقاق تھا۔ سوال یہ ہے کہ پارلیمان اور اس کی کمیٹیاں اپنے حق سے کہاں تک دست بردار ہوتی رہیں گی؟اس رضاکارانہ بے بسی کی انتہاء کیا ہو گی؟ چیئر مین سی ڈی اے کا موقف سب سے دلچسپ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف نائن پارک میں اس قت 200 کیمرے لگے ہوئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ یہ د وسو کیمرے کہاں لگے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ کسی ایک کیمرے میں بھی یہ جرم ریکارڈ نہیں ہو سکا؟ مجرم پارک سے اس لڑکی کو زبردستی ویرانے میں لے گئے تو بنچ سے اٹھا کر لے جانے میں کہیں تو کوئی منظر کسی کیمرے میں آ جاتا ؟ کیوں نہیں آ سکا؟ حالت تو یہ ہے کہ پولیس کی جانب سے ملزم ان کی شناخت کی جو اکلوتی تصویر جاری کی گئی ہے، اس میں موٹر سائیکل پر دو سوار پارک کے گیٹ سے نکل رہے ہیں؟ پولیس نے یہ وضاحت ابھی تک نہیں کی کہ انہیں کس بنیاد پر ملزم تصور کر لیا جائے؟ آپ کسی کی بھی دھندلی سی تصویر شیئر کر دیں، جس میں چہرے واضح نہ ہوں اور آپ اسے مجرم قرار دے دیں اور آپ کا موقف مان لیا جائے؟ یعنی اس زمانے میں بھی ایسی سادگی اور ایسی بے نیازی؟ آپ تصور کریں ، ایک پارک میں دو سو کیمرے لگے ہیں لیکن کوئی ایک کیمرا ملزمان کی تصویر نہیں لے سکا۔ چنانچہ متاثرہ خاتون کی مدد سے ملزم کا ایک خاکہ بنا کر شیئر کیا گیا ۔ اگر ان دو سو کیمروں میں سے کسی ایک کیمرے نے بھی ملزم کی کوئی تصویر لی ہوتی تو متاثرہ خاتون آسانی سے ملزم کو شناخت کر لیتی اور اس کے لیے کسی فرضی خاکے کی ضرورت نہ پڑتی۔ پھر آپ یہ تصور بھی کریں کہ یہ ان دو سو کیمروں کی مالیت کیا ہو گی؟ کس کس نے کتنا مال بنایا ہو گا؟ دو ہیصورتیں ہیں ، یا تو کیمرے کاغذات میں خرید لیے گئے اور مال بنا لیا گیا یا پھر یہ اتنے ناقص تھے کہ تصویر بنانے کے قابل ہی نہ تھے۔ ورنہ دو سو کیمرے لگے ہوں تو پارک کا ایک ایک کونا مانیٹر ہو سکتا ہے۔اسلام آباد کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں مقامی حکومت تو ہے نہیں ، شہر افسر شاہی کا مال غنیمت بن چکا ہے۔اب کون جا کر چیئرمین سی ڈی اے سے پوچھے کہ عالی جاہ یہ دو سو کیمرے کدھر ہیں؟ ضلعی انتظامیہ صرف ٹوئٹر پر متحرک ہے اور وہ بھی اس رسمی سے ٹویٹ کی حد تک کہ عزیز شہری نو ٹس لے لیا گیا ہے۔کوئی تنقید کرے تو ’ سول سوسائٹی‘ نام کے ایک ٹوئٹر ہینڈل سے ڈانٹ پلائی جاتی ہے کہ حد ادب صاحب بہادر کے حضور گستاخی کرتے ہو۔ یہ گماشتہ اکائونٹ بھی کہیں سرکاری ملازم تو نہیں چلا رہے ؟ آئی جی صاحب تو کمیٹی کو یہ کہہ کرکہ پولیس مسئلہ حل کر چکی ہے آپ بھی اسے بھول جائیں، عین نوزش ہو گی ، اپنا ’ سپٹر‘ (Scepter) تھامے وہاں سے چلے گئے لیکن کچھ سوالات باقی چھوڑ گئے۔ضروری ہے کہ ان سوالات پر غور کیا جائے۔