گزشتہ روز نیپا چورنگی سے نزدیک یونیورسٹی روڈ سے ملحقہ عمران خان سٹیڈیم میں آئی سی ایم اے کے زیراہتمام انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلقہ کمپنیوں کی ایک ایسی نمائش میں جانے کا اتفاق ہوا، جہاں ان آئی ٹی کمپنیوں نے ایسے نوجوانوں کو مدعو کر رکھا تھا،جو اس شعبے کے کارآمد افراد کی حیثت اختیار کرنے کے باوجود بیروزگار ہیں۔ آپ یقین کریں ہاتھوں میں درخواستیں تھانے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اسی تعداد میں اس نمائش یا یوں کہیے ایمپلائمنٹ ایکسچینج پر حیران کن انداز میں ہزاروں کی تعداد میں امڈ پڑے تھے، جس طرح کراچی میں میلانی سمیت مختلف رفاعی اداروں کے تحت لگائے جانے والے دستر خوانوں پر شکم سیری کے منتظر لوگوں کا جھمگٹا دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس شہر کی بدقسمتی دیکھیے کہ جہاںسے دوسرے علاقوں سے آنے اولے ہزاروں کی تعداد میں غربت و عسرت میں لپٹے لوگوں کے لیے یہ شہر امید کا مرکز ہے وہاں سب سے زیادہ خواندہ‘ کلچرڈ اور سب سے زیادہ موقع سمیٹے اس شہر میں بیروزگاروں کا ایسا اژدھام امڈ رہا ہے، جس کے سبب کراچی پر مایوسی اور یاس و حسرت کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ مسال و مصائب قطار در قطار کھڑے تین کروڑ نفوس پر مشتمل اس شہر کا بوجہ بیان کر رہے ہیں اور اس لاوارث شہر پر اپنے جبڑے گاڑے صاحب اقتدار اور اختیار لوگ ڈفلی بجا رہے ہیں۔ پھر جب میں ماضی کے اوراق الٹتا ہوں تو یہ ایوب خان کا دور تھا پاکستان کو معرض وجود میں آئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا لیکن اس شہر کا چہرہ نکھر رہا تھا۔ اس وقت کراچی کو بنانے سنوارنے کی ذمہ داری پی ڈبلیو ڈی کی تھی لیکن بے شمار شکایات موجود تھیں بالآخر ایوب خان اس نتیجے پر پہنچے کو اس شہر کے مسائل اس شہر کے رہنے والے حل کر سکتے ہیں۔ کراچی سے باہر بیٹھے لوگ ان مسائل کو نہ حل کرسکتے ہیں اور نہ وہ اسے سمجھنے اور اس تمام معاملات سے وابستگی رکھتے ہیں۔ اسی حد بے اور سوچ کے ساتھ انہوں نے کراچی ڈویلپمنٹ جیسی سکیمیں بنائیں یہ وہ وقت تھا جب کراچی کی حدود جیل چورنگی تک تھی۔ یوں سمجھ لیں کہ کراچی یونیورسٹی جاتے ہوئے راستے میں کسی جنگل کا گمان ہونا تھا۔ اسی زمانے میں ابن النساء ہر ہفتے اخبار میں کراچی یونیورسٹی کی سماجی و ثقافتی اور تعلیمی سرگرمیوں کے حوالے سے ’’شہر سے بارہ میل تیرے‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے۔ اس کھلے میدان میں گلشن اقبال کے نام سے بستی آراء کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ عام لوگوں سے پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی قرعہ اندازی کے لیے درخواستیں طلب کی گئیں اور پھر سب کے سامنے بلڈنگ اینڈ لینڈ ڈیپارٹمنٹ کے افسران نے پرچیاں نکال کر بالکل پرانسپرنٹ دلچسپی انداز میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا عمل مکمل کیا۔ کامیاب امیدوار پلاٹ کی پہلی قسط جمع کرانا رسید وصول کرنا اور پلاٹ اس کے نام ہوگیا اور وہ خوشی خوشی گھر چلا گیا۔ اس کارروائی کے نتیجے میں سالہا سال میں رفتہ رفتہ گلشن اقبال آراء ہوا اور اس طرح سفر کرتا ہوا تین ہزار کا یہ 400 گز کا پلاٹ آج پانچ کروڑ تک پہنچ گیا۔ صدر ایوب کے دور میں ایک اور بڑا ترقیاتی سفر یہ سپر ہائی وے کی تعمیر تھی۔ یہ اس وقت پاکستان کی سب سے جدید ہائی وے تھی۔ 145 کلومیٹر کی اس شاہراہ کو اٹلی کی ایک کمپنی نے مجموعی طور پر 12 کروڑ میں تعمیر کیا تھا۔ کراچی سے اس ہائی وے کا اسارٹنگ پوائنٹ لالو کھیت سے شروع کیا گیا تھا اور یہ کراچی اور حیدرآباد کو ملاتی ہے۔ اس شاہراہ کی تعمیر سے کراچی اور اندرون سندھ کے مابین مواصلات کا شاندار ذریعے کے علاوہ سماج پر تھی اس کے ثقافتی اور معاشرتی اثرات مرتب ہوئے۔ ساتھ ساتھ اس سے فیڈرل بی ایریا اور سہراب گوٹھ تک سڑک بھی بہت عمدہ انداز سے بنا دی گئی۔ یہ وہ دور تھ جب ناظم آباد‘ گولیمار‘ لالو کھیت اور پی آئی بی کالونی کے متمول لوگوں کے لیے خریداری کی سب سے پسندیدہ مارکیٹ بازار صدر ہوا کرتی تھی۔ شہر شہر کے قلب میں ایسا بازار تھا، جہاں ضروریات کی تمام چیزیں دستیاب تھیں۔ پرانے زمانے کے لوگوں کو یاد ہوگا کہ شب برات کے دنوں میں یہاں پٹاخوں کے موجود گوداموں میں آگ بھڑکی کہ سب کچھ خاکستر ہوگیا۔ کراچی والوں کے لیے یہ بڑا افسوسناک واقعہ تھا۔ یہاں صرف عام ضروریات کا سامان مل جاتا تھا بلکہ متوسط گھرانوں کے لوگ شادی بیاہ کا سامان بھی یہیں سے خریدتے تھے اور ان تمام طبقات کو اس بازار کے جل جانے کا بڑا دکھ تھا۔ یہ بازار قیام پاکستان سے پہلے کا تھا۔ یہاں پر دکانیں بغیر کسی منصوبہ بندی کے لیے ڈھنگے انداز میں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں۔ پھر حکومت نے اعلان کیا کہ بوہری بازار کو نئے منصوبے کے ساتھ ازسرنو تعمیر کیا جائے گا۔ تمام پرانے دکانداروں کو دکانیں بنا کر دی جائیں گی۔ اس زمانے میں آج کی طرح لوگوں کو بہلانے کے لیے جھوٹے وعدہ نہیں کئے جاتے تھے۔ حکومت جو وعدے کرتی تھی پورا کرتی تھی اور پھر یہی ہوا حکومت نے محض ایک سال میں اہل کراچی سے کیا گیا وعدہ پورا کردیا۔ ایوب خان کے دور کے ابتدائی سال عام لوگوں کے لیے بہت ہی خوشگوار رہے جو کہا جاتا اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جاتا۔ دکانداروں کے لیے لازمی تھا کہ وہ ہر چیز کی قیمت کا چارٹ دکان کے باہر آویزاں کریں اور کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ حکومت کے مقررہ کردہ نرخوں سے انحراف کر سکے۔ ذخیرہ اندوزوں کے متعلق کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ یہی وہ دورتھا جب ایوب خان کو ایک سکینڈل کا نشانہ بننا پڑا۔ہوا یوں کہ ایوب خان جب امریکہ کے دورے پر گئے تو واپسی میں انہوں نے دو دن لندن میں قیام کیا یہاں ان کی ملاقات اس وقت کی مشہور زمانہ اداکارہ کرسٹائن کیلر سے ہوئی۔ بعد میں کرسٹائن کیلر نے ایک برطانوی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ایوب خان میرے ساتھ ہوٹل کے سوئمنگ پول میں نہانے کو اترے۔ نہانے کے دوران وہ میری ٹانگیں پکڑ کر گہرے پانی میں لے گئے۔ اس عمر میں بھی ان میں جوجانوں کا سا دم خم تھا۔ اب خبر نے پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں میں کھلبلی مچا دی۔ کرسٹائن کیلر پھر غیر معمول خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ لندن کے ارباب اختیار میں بڑی مقبول شخصیت تھی۔ خیر بعد میں یہ دھول آہستہ آہستہ بیٹھ گئی۔ اگر آج کی طرح آڈیو اور ویڈیو کا دور ہوتا تو اندازہ کیجیے کہ کیا کیا طوفان اٹھتے۔