ضمنی انتخابات کا نتیجہ غیر متوقع ہی نہیں حیران کن رہا۔ پی ٹی آئی نے بہت سی مسرتیں سمیٹیں اور دوسری طرف یہ نتائج مسلم لیگ (ن) کے لئے لمحہ فکریہ کے طور پر سامنے آئے۔ یہ سمجھنے کیلئے کہ اب آگے کا سفر کیسے ہو۔ پورے منظر کو دیکھنا ہوگا۔ سب سے خوش آئند بات یہ لگی کہ ملتان میں سلمان اور زین نے ایک ساتھ بیٹھ کر نتائج دیکھے اور پھر ہارنے والے نے کشادہ دلی کے ساتھ جیتنے والے کو مبارکباد دی۔ احمد یار خان نے تو کمال کردیا۔ اعتراف کیا کہ یہ پی ٹی آئی کی تاریخی فتح ہے اور ہم انہیں اس کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اپنی جماعت کیلئے زبردست اور پرجوش مہم چلانے والی محترمہ مریم نواز نے بھی ہار کو پورے وقار کے ساتھ تسلیم کیا۔ انہوں نے کہا۔ مقابلے میں ہار اور جیت ہوتی ہے خدا خیر کرے۔ ہمیں ادراک ہونا چاہئے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کی ہوا چل رہی تھی۔ لوگوں نے ان کے بیانیے کو تسلیم کیا۔ ان کے اس بیانیے کو جس کسی نے بھی رد کیا' لیکن ثابت ہوگیا کہ ووٹر نے ان کی دلیل اور استدلال کو نہیں مانا۔ انہوں نے یہی سمجھا کہ عمران خاں سچ کہہ رہے ہیں۔ یہ حکومت کی تبدیلی کا بیانیہ تھا۔ امریکی سازش کا بیانیہ ہے یہ امپورٹڈ حکومت کا بیانیہ تھا۔ لوگوں نے سمجھ لیا کہ عمران خاں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ انہیں غلط ہٹایا گیا۔ ہم آگے چل کر اس طرف آتے ہیں کہ عمران خاں کو اب جبکہ لوگوں نے اپنے ووٹوں کی مدد سے ڈرائیونگ سیٹ پر لابٹھایا ہے ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم لیگ اس انتخابات میں اس بری طرح کیسے ہاری۔ پی ٹی آئی کیسے کلین سوئپ کرگئی۔ اس کی پہلی وجہ یہ تھی کہ عمران کا بیانیہ ہٹ ہوگیا۔ پاکستان میں اینٹی امریکن بیانیے کو عموماً پذیرائی ملتی ہے۔ انہوں نے بھرپور انداز سے ایک ایسے بیانیے کو جس کی صداقت کے بہت سے شواہد موجود نہیں تھے، لیکن اس کو دلیل کے ساتھ بیان کرنے والا عمران جیسا مقرر تھا جسے اپنی بات کہنے کا ڈھنگ آتا ہے جو اپنی استدلال اور موئثر شعلہ بیانی سے عام لوگوں کو متاثر کرنے کا فن جانتا ہے۔ اس نے پاکستان کے طول و عرض کے اندر لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی کہ سب کچھ اچھا چل رہا تھا لیکن امریکی اس کے خلاف تھے۔ اس لئے کہ وہ پاکستان کو ایک خود دار قوم کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کررہے تھے۔ وہ بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے اپنے دور حکومت میں مہنگائی' غربت اور اپنے وعدوں کے مطابق گھروں کی تعمیر اور ملازمتوں کے حصول میں اپنی ناکامی کو گول کرگئے۔ وہ صرف لوگوں کو یہ بتاتے رہے کہ وہ پاکستان کو ایک آزاد خارجہ پالیسی دینا چاہتے تھے۔ اس لئے انہوں نے روس کا سفر کیا جو امریکیوں کو پسند نہیں آیا۔ مسلم لیگ (ن) کو ہی کیا ہر ذی ہوش کو یہ اندازہ تھا کہ نوجوان کیڈر اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کے اس بیانیے کو پسند کررہی ہے،لیکن ن لیگ نے اس کے مقابل کوئی ایسا بیانیہ پیش نہیں کیا اور نہ یہ بتایا کہ وہ مستقبل میں پاکستان کو کس طرح کا ملک بنانا چاہتے ہیں۔ عمران خان کے خلاف مہم کو انہوں نے مخالفت برائے مخالفت سے تعبیر کیا، کیونکہ زیادہ وقت نہیں گزرا جب مسلم لیگ حزب اختلاف میں تھی اور انہوں نے تمام ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے لوگوں کو چاروں شانے چت کردیا تھا۔ آخر ایسا کیا ہوا کہ وہ ان حلقوں میں چاروں شانے خود چت ہوگئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس عمران خاں کے بیانیے کا کوئی توڑ نہیں تھا۔ ایک بڑا فیکٹر یہ بھی تھا کہ ٹکٹوں کی تقسیم نے مسلم لیگ (ن) کے حمایتیوں کو بہت زیادہ مایوس کیا۔ ان امیدواروں کو بھی جو سمجھتے تھے کہ ہر برے وقت میں وہ انتہائی وفاداری اور بہادری کے ساتھ پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے اور جب ٹکٹ دینے کا وقت آیا تو انہیں نظر انداز کرکے ٹکٹ لوٹوں کو دیدیا گیا۔ ٹکٹوں کی تقسیم پر بھی مسلم لیگ ن کو تنظیمی طور پر بہت نقصان ہوا۔ فیصل آباد میں خصوصاً ایسی شکایات موصول ہوئیں جس میں عام کارکنوں سے اہم لیڈروں تک نے یہ گلہ کیا کہ انہیں نظر انداز کیا گیا۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے اس ووٹ بینک کو متحرک نہ کرسکی جو ان کی کشتی پار لگاتا۔ اس تقسیم کے سبب پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی کھل کر سامنے آئے۔ پھر ایک بڑا فرق یہ تھا کہ عمران خان اس مہم کی قیادت کرنے خود میدان میں آئے اور انہوں نے بڑے کمال کی مہم چلائی۔ وہ بار بار اپنا بیانیہ دہراتے رہے۔ حکومت پر تنقید کرتے رہے اور تمام مسائل کو حل کرنے جیسے چیلنج کو قبول کرنے میں خود کو نمایاں کرتے رہے۔ انہوں نے تھکا دینے والی مہم کی قیادت کی۔ دوسری طرف مریم نواز تھیں جو اپنی بات کہہ تو رہی تھیں لیکن وہ اس پوری مہم میں کوئی ایسا بیانیہ پیش نہ کرسکیں جو عام ووٹرز کیلئے کشش رکھتا۔ یہ مریم نواز کا بڑا امتحان تھا انہوں نے پرجوش انداز سے گفتگو کی۔ زبردست تنقید کی لیکن ان کے پاس کوئی ایسا بیانیہ نہیں تھا جو عام لوگوں کو متاثر کرتا۔ ہاں انہوں نے بہت بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کیا۔ ان کا مقابلہ عمران خان جیسے نہ تھکنے اور اپنی بات پر بار بار اصرار کرنے والے لیڈر سے تھا۔ انہوں نے خوب ٹکر لی' لیکن ان کی تنظیم اور سپورٹر میں وہ جوش و خروش اور عزم نہیں تھا جو جیت کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو جمع کرنے میں تو کامیاب رہیں لیکن اپنے سپورٹرز کو ووٹرز میں تبدیل کرنے میں ناکام رہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ حمزہ شہباز بھی الیکشن ڈے میں اس سائنس کے ماہر ہیں۔ جن سے فتح سمیٹی جاتی ہے۔ لیکن وہ بھی اس طرح کی نیٹ ورکنگ نہ کرسکے جس کی ان سے توقع تھی۔ یہ فیکٹر بھی اہم تھا کہ نواز شریف گراؤنڈ میں موجود نہیں تھے۔ ورنہ وہ یقینا ایک ایسے بیانیے کے ساتھ الیکشن میں جاتے جن میں عوامی مسائل اور مزاحمت کا رنگ نمایاں ہوتا۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ حمزہ شہباز 22 تاریخ کے مقابلے سے قبل استعفیٰ دیں گے یا پھر وہ آخر تک لڑنا چاہیں گے۔ ایک ایسی لڑائی جو وہ ہارتے نظر آرہے ہیں۔ اب نظر یہ آتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو ایک بار پھر ڈرائنگ بورڈ پر جاکر تمامتر صورتحال کو جانچنے کی ضرورت ہے۔ عمران کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ دو قدم نیچے اتریں اور ایک ایسے سیاسی میثاق کی طرف جانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں جن کے خلاف وہ ہمیشہ سے محاذ آرائی کررہے ہیں۔ اس ملک کی خاطر سب کو مل بیٹھنا ہوگا۔ ایک حل تلاش کرنا ہوگا کہ مستقبل کا سفر کیسے کیا جائے۔ سیاسی بالغ النظری کا مظاہرہ کرنا چاہئے' حقائق کو تسلیم کرنا چاہئے۔ اختلافات کو ذاتی لڑائیوں تک نہیں لے جانا چاہئے۔ باہم اتحاد و یگانگت ملک کی سلامتی اور خوشحالی کا ضامن بن سکتا ہے۔ (جاری ہے)