شکر دوپہر پپلی دے تھلے، ویکھی جا مولا دے رنگ، وے میں چوری چوری تیرے نال، دسیں ندی فرات دیا پانیا، سوچ کے یار بناویں بندیا، میں نئیں جاناں کھیڑیاں دے نال؟ نہ دل دیندی بے دردی نوں، ہنجو نذرانے تیرے، گل سن لے چناب دیا پانیا جیسے گیت اور بدر منیر ہووے نبی دا وزیر ہووے جیسے نوحے کاخالق منظور جھلا کے علاوہ کون ہو سکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ گیت نگاروں کی ایک ایسی کھیپ پاکستانی پنجابی فلمی دنیا میں موجود تھی جو پنجاب کے کلچر اور رہتل روایت سے پوری طرح ہم آہنگ تھی۔اس میں کوئی کسی سے کم نہ تھا۔ہر ایک اپنی جگہ ایک سٹار تھا۔منظور جھلا کی زندگی اور حالات زندگی کے بارے میں بہت کم لوگ واقفیت رکھتے ہیں۔انہوں نے فلمی دنیا کی گیت نگاری میں دو عشروں تک حکمرانی کی ہے۔منظور جھلے کے نام سے پنجابی زبان کا ہر شیدائی واقف ہے۔مگر اس کے کام کے بارے میں اور خود اس کے بارے میں کم کم معلومات حاصل ہیں۔ اب ان گیتوں اور ان جیسے گیتوں کے سوتے خشک ہو چکے ہیں۔یہ کوئی پرانی بات نہیں جب ہر شہر کے ہر سینما گھر میں مناسب اور کلچر کے مطابق تفریح کے مواقع میسر تھے جو انسانی قالب کی تطہیر کرتے تھے اور ایک امنگ پیدا کرنے میں معاون ہوتے تھے۔انیس سو اسی تک فلمی دنیا بھی آباد تھی اور اس منسلک کئی درجن پیشے بھی جن میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ تھا ، ان کی دال روٹی چل رہی تھی۔اسی زمانے میں تنویر نقوی، حزیں قادری، وارث لدھیانوی، خواجہ پرویز، احمد راہی اور بابا عالم سیاہ پوش جیسے گیت نگار تھے۔ایک بابا عالم سیاہ پوش کے گیتوں کی اتنی لمبی فہرست ہے کہ ان کی تفصیل کی گنجائش نہیں ان کے گیت نمبواں دا جواڑ اساں باگے وچوں توڑیا، میری جھانجھر چھن چھن چھنکے چھنکارا جاوے گلی گلی، چٹی گھوڑی تے کاٹھی تلے دار نی سیو، میرے سجرے پھلاں دے گجرے،کنڈیاں دے وس پے گئے اورمیں چھج پتاسے ونڈاں اج قیدی کر لیا ماہی نوں شامل ہیںلیکن بابا جی زندگی بھر آٹے روٹی کے چکر سے نہ نکل سکے۔ پنجابی زبان کی ایک الگ تاثیر ہے۔ شیر ِ مادر کی طرح مہربان اور شفقت سے بھرپور۔صرف ایک بولی دیکھیے کہ اس میں پنجاب اور پنجابی کس طرح رچی بسی پڑی ہے ۔میں رنڈیوں سہاگن ہوواں جے بصرے دی لام ٹٹ جائے۔ویسے اپنا ملک بھی کیا ملک تھا کیسی ثقافت تھی اور کیا ثقافتی اقدار اور کیا زمانہ تھا۔ 1948 میں پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد میں دلیپ کمار کے بھائی ناصر خان ہیرو تھے اور آشا بھوسلے ہیروئن۔ منظور جھلا ہماری فلمی دنیا کا سہرا ہے کہ ان جیسے لوگ کم کم ہوتے ہیں۔دنیاوی تعلیم نہ ہونے کے باوجود گیت نگاری میں اپنا نقش چھوڑ گئے۔ان کے بارے میں صفدر وامق کا ضخیم کام دو کتب پر مشتمل ہے ایک کلیات منظور جھلا اور دوئم منظور جھلا حیاتی اور فن۔یہ دونوں کتب ملا کر تقریبا چھ سو ساٹھ صفحات بنتے ہیں۔اس طرح کا لاجواب کام منظور جھلا کیا کسی بھی فلمی گیت نگار کے لیے نہیں کیا گیا۔مذکور کتب کے مطابق منظور جھلا امرتسر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔پاکستان بننے کے بعد وہ لاہور آ گئے اور مغل پورہ میں رہائش اختیار کی۔وہ تھیٹر کا آدمی تھا اور پنجاب کے مختلف میلوں میں تھیٹر لے کر جاتا تھا۔ایک وقت تھا بالی جٹی ، عنایت حسین بھٹی اور عالم لوہار میلوں ٹھیلوں کی رونق ہوا کرتے تھے۔ ایسے ہی میلوں ٹھیلوں میں منظور جھلا بھی کام کرتا تھا۔کتاب میں مذکور ہے کہ منظور حسین جھلا کی زندگی میں ایک ڈانسر زبیدہ کا بھی نام آتا ہے۔اس ڈانسر کو لاہور کے کسی رئیس نے خریدا ہوا تھا (ان بیچاروں اور بیچاریوں کی بھی کیا ذاتی زندگی ہوتی ہے)۔ہمارے ممدوح کو زبیدہ سے دلی انس تھا۔ان کی وجہ ہی سے اس وقت کے ایک ایس ایس پی لاہور کی مداخلت کی وجہ سے اس ڈانسر کی رئیس سے جان چھوٹی۔منظور جھلے نے کئی فلموں کے گیت لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ریشماں کا ایک ہٹ گیت’’ وے میں چوری چوری تیرے نال لالیاں اکھاں‘‘ وے میں چوری چوری چنگیاں میں جاتا تینوں لکھ جند جان توں ردی گئی آں بھاویں بیبا جگ تے جہان توں دس منظور کیویں دل نوں میں ڈکاں وے میں چوری چوری یوں تو دیوان منظور جھلا شاعر کی زندگی میں بھی شائع ہوا تھا مگرصفدر وامق تو میدان کا سورما ثابت ہوا ہے جس نے کھوج کا حق ادا کر دیا ہے۔ منظور جھلا کوئی عام تخلیق کار نہیں اس کی زندگی کے بارے میں اور اس کے گیتوں کے بارے مکمل کھوج ان کی ترتیب ان گیتوں کے گائیک اور جن فلموں میں یہ گیت شامل ہوئے ان کی مکمل جانکاری ایک نہایت مشکل کام ہے۔کھوج کاری سب سے مشکل فن ہے کہ اس کے لیے روایت کے مطابق گائوں گاؤں شہر شہر پھرنا پڑتا ہے۔تخلیق کار کے بارے میں ان لوگوں سے ملنا پڑتا ہے جن کا اس مہان ہستی سے تعلق رہا ہو۔اس سلسلے میں مصنف کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بسا اوقات ٹھٹا مذاق کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔تاہم صفدر وامق مبارکباد کے مستحق ہیں۔ان کی محنت شاقہ خلوص اور لگن کی داد نہ دینا زیادتی ہے۔منظور جھلے پر اس وقیع کام کو اشاعت پذیر کرنے میں ہمارے دوست روزانہ بھلیکا کے چیف ایڈیٹر اور بابا فرید فاؤنڈیشن کے چئرمین مدثر اقبال بٹ حرف ِ تحسین کے مستحق ہیں ہمارا صفدر وامق اور مدثر اقبال کی مساعی کو سلام۔پنجابی زبان کے اس انمول رتن کی دیکھ بھال وقت کا اہم تقاضا تھا جو ان دو نوں نے انجام دیا ہے۔یہ کام سرکاری اداروں کا ہے جو بابا فرید فاؤنڈیشن نے کر دکھایا ہے۔