یہ وقت تھا جب کوئی پان والے یا سگریٹ والے سے کوئی یہ لیتا تو وہ گاہک سے ہاتھ جوڑ کر کہتا کہ بھائی اس کا شغل آگے جاکر کرنا۔ گوشت مارکیٹ،دودھ، دہی کی دکانوں اور گلی کوچوں کے عام چائے خانوں کو حکم دیا کہ باریک جالیاں لگوائیں، کہیں کسی دکان پر مکھی مچھر بھٹکتے نظر آئے یا صفائی کا فقدان پایا گیا تو بارہ سال کی قید اس کی منتظر تھی۔ اس میں کس کی مجال تھی کہ کوئی ان احکامات کی سرتابی کرتا۔ معراج محمد خان بتاتے تھے کہ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے یاد ہے کہ ایوب کا ڈنڈا چل رہا تھا کہ کراچی بدل کر رہ گیا۔صاف ستھرے محلے اور ہر طرف چمکیلی سڑکیں نظر آنے لگیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مارشل لا کے بعد سب سے بڑا کام مہاجرین کی آبادی کے سلسلے میں ہوا۔ وہ لوگ جو خاص طور پر قائدآباد کی بستی میں رہ رہے تھے جہاں شہری اور رہائشی سہولتوں کا فقدان تھا۔ ان کی مشکلات اور صعوبتوں کا سیاسی حکومتوں کو بھی احساس رہا تھا۔ اس پر خاص کام بھی ہوا تھا۔ ڈرگ کالونی بن چکی تھی۔ لہٰذا قائد آباد کے مکینوں کیلئے کورنگی کے نام سے بستی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ شروع میں طے ہوا کہ پہلے فیز میں کورنگی میں پانچ سو کوارٹر بنائے جائیں گے۔ کام تو شروع ہوا لیکن اس کی رفتار بہت کم تھی۔ پھر یہ منصوبہ التوا کا شکار ہوا اور قائد آباد کی جھونپڑیوں کے مکین اپنی آبادکاری کا انتظار کرتے رہے۔ مارشل لاء کی حکومت نے جنرل اعظم کو وزیر آباد کاری مقرر کرکے ان کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ جھونپڑی نشینوں کو آباد کرنے کے منصوبوں کو ترجیح بنیادوں پر مکمل کرائیں۔ جنرل اعظم بڑے اپ رائٹ انسان تھے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل رہا کہ میں نے ان کی سوانح حیات لکھی۔ مجھے یہ ذمہ داری نوائے وقت کے ایڈیٹر انچیف محترم مجید نظامی نے دی تھی۔ بعد میں جب جنرل اعظم سے ملاقات ہوئی تو ان سے بہت جلد دوستی ہوگئی۔ وہ آغا خان اسپتال کے سامنے والی گلی میں اپنے ایک دوست کے پاس خاص طور پر اس مقصد کیلئے ٹہرے ان کے قیام کے ڈیڑھ ماہ کے دوران میں نے ان کی زندگی کو الفاظ میں ڈھال دیا۔ ان ملاقاتوں میں جنرل اعظم نے اپنی ساری پرانی یادیں دہرائیں۔ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے ساتھ ان کی محبت، محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی انتخابات میں ان کے معاون کا کردار ادا کرنے والے اسکندر مرزا کو ہٹانے کیلئے ایوب خان کا منصوبہ اور جب کورنگی پروجیکٹ کا ذکر آیا تو وہ بڑے جذباتی ہوگئے۔ انہوں نے ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کی کسمپرسی کے بے شمار قصے سنائے۔ پنجگانہ نماز اور دن میں دو بار قرآن پاک کی تلاوت ان کا معمول تھی۔ وہ بتانے لگے کہ جب مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ قائد آباد کے جھگی نشین اپنی آباد کاری کیلئے پریشان ہیں تو ایک دن میں خود ان سے ملنے وہاں چلا گیا۔ پھر میں نے قائداعظم کے مزار کا جائزہ لیا جو بغیر عمارت کھڑی کئے ایک عام قبر لئے وہاں نظر آرہا تھا۔ جنرل صاحب بتانے لگے کہ میں سچ مچ آبدیدہ ہوگیا۔ ہم نے اس قوم کے معمار کی یہ توقیر کی۔ جنرل اعظم نے فوری طور پر پی ڈبلیو ڈی کے تمام ذمہ دار آفیسروں اور انجینئروں کو طلب کرکے انہیں وارننگ دی کہ اگر چھ ماہ میں ان پانچ سو کوارٹروں کا منصوبہ مکمل نہ ہوا تو آپ کی جگہ صرف جیل ہوگی۔ ظاہر ہے پھر کس کی ہمت ہوتی جو کام نہ کرتا یا کام نہ ہوتا جب یہ کوارٹرز مقررہ مدت میں تعمیر ہوگئے تو مستحقین میں تقسیم کیلئے ان کی قرعہ اندازی جنرل اعظم نے اپنے سامنے کرائی اور پہلا نام نکلنے والے خاندان کو گھر کی چابی اپنے ہاتھ سے دی۔ اس طرح قائد آباد کی جھونپڑیاں ختم ہوئیں تو کورنگی آباد ہوئی۔ جنرل صاحب بتانے لگے کہ اس کے بعد میری ترجیح مزار قائد کی تعمیر تھی۔ میں نے اس سلسلے میں ایوب خان سے کہا کہ ہمیں سب سے پہلے اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ یہ بابائے قوم کا ہم پر قرض ہے۔ وہ بتانے لگے کہ صدر ایوب نے اس حوالے سے بڑی سرگرمی دکھائی۔ جنرل اعظم نے ایوب خان کو بتایا کہ قائداعظم کا مزار کی عمارت ان کے شایان شان نہ بننے سے کراچی کے عوم بہت مغموم ہیں۔ اس پر فوری طور پر تمام مالیاتی گرانٹ کی منظوری ہوگئی ماسٹر پلان بنا اور بابائے قوم کے مزار کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا۔ اس کے علاوہ فوجی حکومت نے جو بڑا کام کیا وہ مہاجرین کی غیر منقولہ جائیداد جو وہ عمارات اور زمین کی شکل میں ہندوستان میں چھوڑ آئے تھے۔ ان کی پاکستان میں نعم البدل کے طور پر منتقلی کاکام تھا۔ یہ ایک مشکل اور طویل کام تھا۔ پھر اسے ٹرانسپیرنٹ رکھنے کا بھی مرحلہ تھا۔ ساتھ ساتھ ایوب خان کی حکومت کی جانب سے یہ اعلان ہوا کہ کراچی کی مارکیٹوں میں جو غیر ملکی اسمگل شدہ سامان بھرا پڑا ہے اسے اگلے دو ماہ میں ٹھکانے لگایا جائے۔ اس کے بعد ہر دکان کی تلاشی ہوگی اور اس دوران کہیں سے ایسا سامان برآمد ہوا تو پھر تاجر کو بارہ سال کیلئے جیل جانا ہوگا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی کراچی کی مارکیٹوں میں کھلبلی مچ گئی۔ جونا مارکیٹ' بولٹن مارکیٹ' لی مارکیٹ' موتن داس مارکیٹ میں وافر مقدار میں غیر ملکی مال موجود تھا۔ کپڑا' کانچ کے برتن' میک اپ کا سامان' خوشبویات اور دوائیں ڈیوٹی کے بغیر لائی جاتیں اور فروخت کی جارہی تھیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے ڈنڈا اٹھالیا ہے اور حساب کتاب کا وقت آن پہنچا ہے۔ کبھی آپ نے سوچا کہ جنرل اعظم نے 500 کوارٹرز بناکر جس کورنگی نامی بستی کا آغاز کیا تھا۔ غریب اور متوسط طبقے کیلئے ایک انتہائی منظم اور زندگی کی ہر سہولت سے مزین ایسا علاقہ آباد کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ آج ہم نے اس کا کیا حال کیا۔ یہ بھی کراچی کی ان بستیوں میں سے ایک ہے جو بلا قواعد و ضوابط پھیلتی گئی۔ بے ترتیبی اندھا دھند تعمیرات' تجاوزات' قبضہ مافیا کا راج۔ وقت نے اس بستی کے چہرے پر ایسے کھرونچے لگائے جس میں تمام سرکاری اداروں کی ملی بھگت نے ہر شعبے میں یہاں کتنے لوگوں کو اپنی من مانی کرنے کا لائسنس دیدیا۔ اسی بستی میں نوگو ایریاز بنے' یہ بستی گولیوں کی گھن گرج سے گونجتی رہی۔ اپنے اپنے علاقے بٹے' خون بہتا رہا۔ سب تماشا دیکھتے رہے یا فریق بن گئے۔ لاقانونیت کا راج' حالات میں بہتری آئی تو یہاں غیر قانونی تعمیرات کا جنگل اگ آیا۔ غرض یہ کھیل آج بھی چل رہا ہے اور کورنگی دہائی دے رہا ہے' زمانہ بدل گیا' لیکن اب کوئی جنرل اعظم نہیں جو ڈنڈا اٹھاکر تمام سرکاری اداروں اور مافیاز سے یہ پوچھنے کی جرات کرلے کہ آخر تم یہ کیا کررہے ہو (جاری ہے)