آزادی کے خواب اپنی آنکھوں میں سجھائے بابائے گوجری بھی چلے گئے۔ وہ ایک درد سے بھرا انسان تھا،جس کے رگ و ریشے سے کشمیر کے زخم پھوٹتے تھے،مندمل ہوتے تھے اور بابا جی انہیں کھرچ کر پھر تازہ کر دیتے تھے۔ بابائے گوجری رانا فضل حسین کا درد وہی جان سکتا ہے جس کے سینے میں وطن کی جدائی کا گھائو گہرا ہو اور آزادی کی پیاس جس کی روح کو بے کل رکھتی ہو ۔میرا ان سے درد مشترک کا رشتہ رہاہے ۔مقبوضہ راجوری میں میرے اجداد کی قبریں ہیں اور پیر بڈیسر پہاڑ کے اس پار ہی بابا فضل حسین کا دیار ہجراں ہے ۔ گاہے ایسا ہوتا ہے کہ حالات کے دبائو میں جان سے پیارے لوگ بھی بھول جاتے ہیں ۔پھر ایک دستک ذہن پر ہوتی ہے ‘سارے منظر چمک اٹھتے ہیں۔ایسا ہی ایک لمحہ برسوں سے ذہن پر مسلط ہے ۔ریڈیو جموں سے ایک ادبی پروگرام کا پیش کار کہہ رہا تھا : ’’ جموںو کشمیر میں زبانوں کی ماں گوجری ہے اور اس زبان کا باپ رانا فضل حسین جس نے 1965ء کے بعد مسلسل گوجری ادب تخلیق کیا ہے ۔‘‘ ایک لمحے کے لیے وہ رکا اور کچھ لمحوں کے توقف کے بعد بولا ۔ ’’ وہ گوجری ادب کا باپ ضرور ہے لیکن اس نے بھارت ماتا کے خلاف بھی بہت کچھ لکھا ہے اور وہ ایسا نہ کرتا … ؟‘‘ اس کے بعد اس نے کیا کہا میں سن نہیں سکا ۔ پھر مجھے اپنے بھائی امیر محمد شمسی یاد آئے اور کس شدت سے یاد آئے۔ برسوںادھر کی بات ہے جب راجوری سے امیر محمد شمسی پیر بڈیسر پہاڑ کے اس پار سے ہجرت کر کے آزاد کشمیر وارد ہوا تھا۔آزاد کشمیر پولیس اسے پکڑ کر لے گئی تھی ۔پاکستان کا یہ جاں نثار کئی دنوں تک کوٹلی کے ایک تھانے میں تشدد کا شکار رہا ۔ جب انہیںیقین ہو گیا کہ اب یہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہا اور نہ ہی نقد ادائیگی کی سکت رکھتا ہے تو اسے یہ کہہ کر چھوڑ دیا گیا ۔ ’’ آئندہ سیز فائر لائن عبور نہ کرنا ‘‘ رہائی کے بعد شمسی اس شخص کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا جس نے اسے ہجرت پر آمادہ کیا تھا جو اس کا اصل مجرم تھا۔وہ شخص تھا رانا فضل حسین ۔ تب رانا فضل حسین ریڈیو پر سیز فائر کے اس پار کے مظلوموں کو اکساتے ‘ اپنے شعلہ بار شعروں سے انہیں بھڑکاتے تھے۔ کوہستانی آبادی کے مکین جن کی اکثریت گوجری زبان بولتی اور سمجھتی ہے ‘ ریڈیو آزاد کشمیر کی اس آواز پر لبیک لبیک کہنے لگی تھی ۔کتنے ہی وہ بھی تھے جنہیں ابو الاثر حفیظ جالندھری نے گھروں سے نکالا تھا۔ کوہستانوں کی آبادی پہن چکی تاج آزادی تم بھی اٹھو اہل وادی حامی ہے اﷲ تمہارا یہ الگ داستان ہے کہ جب اہل وادی اٹھے تب حفیظ جالندھری گہری نیند سو چکے تھے ۔ یہ شاعر خوش نوا رانا فضل حسین کا دور تھا جس نے ایک نیا راگ چھیڑ ڈالا ۔ یہ سلیم ناز بریلوی کا زمانہ تھا جس نے نئے آہنگ سے لوگوں کو پکارا ۔ خون شہیداں رنگ لایا ‘ فتح کا پرچم لہرایا جاگو جاگو صبح ہوئی جاگو جاگو صبح ہوئی رانا فضل حسین کی قولی اور صوتی محاذپر خدمات ہی نصف صدی پر محیط ہیں ۔ پچاس سے زائد تصنیفات اور مولفات کا یہ تخلیق کار ایک طویل اور جان سوز سفر کا مسافر اگر بھارت کے نام نہاد ادیبوں کے ہاں مطعون ٹھہرا ہے تو یہ بھی ان کے ہنر کا اعتراف اور سخن وردی کی داد ہے۔وہ تو یہاں کے بعض خود ساختہ اور خوشامدی دانشوروں کی آنکھوں میں بھی کھٹکتارہا ہے ۔ کل تک ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کے طلب گار ان کی شہرت سے جلنے لگے ۔ وہ بھی کہ جو ابھی تک فیڈر چوسنے کی منزل میں ہیں حکومت پاکستان نے اس مجاہد حریت کو تمغہ پاکستان سے نوازا لیکن تمغہ ان کے لیے وجہ شہرت نہیں ‘ تمغے ان کے سینے پر سج کے ناز کرتے ہیں ۔ بابا ئے گوجری آزادی کی تلاش میں راجوری سے چلے تھے۔ ایک طفیل سفر کرنے کے بعد ان کی آواز میں بہت سی آوازیں شامل ہو گئیں ۔جموں کشمیر کے ہندو دانش ور ان کی صلاحیت سے انکاری نہیں مگر اس لیے قبول نہیں کرتے تھے کہ رانا فضل حسین نے مزاحمتی گوجری ادب کے ذریعے کوہستانی آبادی کے جوانوں کو پیر پنجال اور پیر بڈیسرسے زیادہ توانا کر دیا ہے۔ بابائے گوجری نے اپنے قلم کو تحریک آزادی کشمیر کے لیے ایسے استعمال کیا جیسے ان کے ہاتھ میںگن تھما دی گئی ہو۔ انہوں نے اپنے وطن کی آزادی کے لیے نغمے لکھے، بھارت کے مظالم کو اجاگر کیا، ریاست کی سب سے بڑی زبان کو اظہار کا ذریعہ بنایااور اپنی زبان کے ذریعے افق تا افق ہوائوں کے دوش پر بکھیر دیا۔ان کی زندگی سیماب صفت انسان کی زندگی تھی۔ وہ جب تک زندہ رہے اپنے عزم و یقین کو متزلزل نہیں ہونے دیا۔ غلامی کی ایک طویل سیاہ رات سے تا حیات جنگ جاری رکھی اور ایک کامیاب زندگی گزار کر اپنے رب کے پاس چلے گئے۔آج بابائے گوجری ہم میں نہیں مگر ان کا مشن ،جدوجہد اور مقصد حیات ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کی جدوجہد رنگ ضرور لائے گی۔ ان کی زندگی میں سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ان کے لا تعداد چاہنے والے بھارت کے طول وعرض میں،بندی خانوں میں ہونے کے باوجود اپنی جدوجہد سے باز نہیں آئے۔ پیر بڈیسر کے اس پار آزادی کا سوج طلوع ابھی طلوع نہیں ہوا۔ظلم کے سائے گہرے ہیں۔رات ہی تو ہے جس نے ڈھل جانا ہے۔رانا فضل اپنی باری پوری کر کے اپنے اللہ کے ہان حاضر ہو گئے۔ان کا عَلم گرا نہیں،اسے ااگے برھ کر تھامنے والے بہت ہیں۔ ان کا مشن جاری رہے گا ۔ درد منداں ے سخن محمد دین گواہی حالوں جس پلے پھل بدھے ہوون آوے باس رومالوں