گمان کیاہوتا ہے؟ گمان ایک مذکر لفظ ہے جس کا مطلب خیال ،اندازہ ، شبہ، احتمال اور وہم ہوتاہے ۔ گمان اور رائے میںکیا فرق ہے؟ رائے مذکر گمان کے مقابلے میں مونث لفظ ہے جس کا مطلب تجویز ، عقل، خیال ، مشورہ اور قیاس بتائے گئے ہیں۔ ان مختلف مطالب سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ رائے کسی معروضی یا موضوئی حقیقت کی بنیاد پر دی جاتی ہے جبکہ گمان کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ یعنی ایک ہی شخص ،واقعے ، چیز ،جگہ اور وقت کے بارے میں طرح طرح کے گمان کر سکتاہے تبھی تو کہتے ہیں کہ گمان اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور بُرے بھی۔ قابل ستائش بھی اور قابل فہمائش بھی۔ محبت سے لبریز بھی اور نفر ت اور حقارت سے بھرے ہوئے بھی ۔ ارشاد رب العزت ہے۔ ’’اس بات کے پیچھے نا پڑجس کا تجھے علم نہیں۔ بے شک ، کان او ر آنکھ اور دل ان سب کے بارے میںسوال کیا جائے گا‘‘۔ (سورہ بنی اسرائیل آیت 36) اس واضح تنبیہہ کے بعد اللہ فرماتا ہے ۔ ’’اے ایمان والوں بہت بدگمانیوں سے بچو۔ یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں۔ اور بھید نہ ٹٹولا کرو اور ناتم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتاہے ۔ تم کو اس سے گھن آئے گی۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو ۔بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے‘‘ (سورہ حجرات آیت 12) گمانو ں کی اقسام پر بات کرنے سے پہلے ان کی وجوہات پر غور کرنا ضروری ہے ۔گمان میںمبتلا ہو نے کی سب سے بڑی اور پہلی وجہ ادھورا علم ہوتا ہے ۔ وہ جیسے کہتے ہیں ۔ پوری بات کا علم نہ ہونا جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنادیتاہے ۔ ۔ افوائیںادھورے علم پرمبنی ہوتی ہیں ۔ گمان کی دیگر وجوہات میں منفی یا مثبت سوچ ، غلط فہمی یا خوش فہمی ، ماضی کا تجربہ ، وسوسے اور نفسیانی بیماریاں بھی ہوسکتی ہیں۔اسی لئے گمان کی دوبڑی اقسام سامنے آئی ہیں۔ بدگمانیاںاور خوش گمانیاں ۔آدمی چونکہ فطرتاً عقل وخرد کے ساتھ ساتھ جذبات، احساسات ، تعصبات، شکایات اور نہ جانے کن کن طرح کے تجربات کا شکار رہتاہے اس لئے اس کی خوش گمانیاں اس کی بدگمانیوں کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہیں۔ گمان کی بنیاد کیا ہوتی ہے؟ گمان کی بنیاد ذاتی فائدہ یاحفاظت ہوتی ہے۔ کیسے؟ اس لئے کہ گمان اپنی سرشست میںموضوئی ہونے کے باوجود معروضی صورت حال کی سمجھ اور تاویل پر منحصر ہوتا ہے ۔ سائنس چونکہ معروضیت (objectively) پر بات کرکے نتائج اخذ کرتی ہے اس لئے گمان وہاں سے بھاگ جاتاہے ۔کیوں؟ اسلئے کہ حقائق گمان کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑتے ۔ یہی وجہ ہے کہ علم کو عبادت پر برتری حاصل ہے۔ اس بات کو امام محمد باقرؑ نے اس طرح فرمایا ’’ایک عالم کی موت کو ابلیس نوئے عابدوں کے مرنے سے بہتر سمجھتا ہے ۔ ایک ہزار عابد سے وہ ایک عالم بہتر ہے جو اپنے علم سے فائدہ پہنچا رہا ہو‘‘ ۔ جبکہ اسی امام ؑ کے مطابق ’’خدا کے نزدیک بہترین عبادت پاک دامنی ہے ‘‘ چونکہ تقویٰ کا مطلب علم اور معرفت کے ساتھ عمل کا بجا لانا ہوتاہے اس لئے متقی کبھی گمانوں کا شکار نہیںہوتا۔ متقی اپنی نجات کے ساتھ ساتھ دوسروں کی نجات کا خواہاں بھی ہوتاہے۔ اس لئے تجسّس نہیں کرتا۔ جو اپنے لئے پسند نہیں کرتاہے وہ دوسروں کے لئے بھی پسند نہیں کرتا۔ وہ جانتاہے کہ ’’تین چیز یں خدا نے تین چیزوں میں پوشیدہ رکھی ہیں۔ (۱) اپنی رضااپنی اطاعت میں ۔ اس لئے کسی فرمانبرداری کو حقیر نا سمجھو۔ شاید اسی میںخدا کی رضاہو۔ (۲) اپنی ناراضی اپنی معصیت میں ۔اس لئے کسی گناہ کو معمولی نا جانو۔ شاید اسی سے ناراضی ہوجائے (۳) اپنی دوستی یا اپنے وَلی ، یعنی مخلوقات میں کسی کو حقیر نا سمجھو۔ شاید وہی ولی اللہ ہو‘‘ ۔ آج کے مسلمان کو سمجھنے کے لئے جو نہایت اہم بات امام محمد باقرؑ نے فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ ’’انسان کو جتنی عقل دی گئی ہے اس کے مطابق اس سے قیامت میںحساب کتاب ہوگا ’’یعنی ان پڑھ ، سادہ اور کم سجھ رکھنے والے کا حساب کتاب اُس کی عقل اورعالم فاضل کا حساب کتاب اس کی عقل اورسمجھ کے مطابق ہوگا ۔کیوں؟ اس لئے کہ اللہ اپنی مخلوق کی ساری کیفیتوں ، مجبوریوں اور کمزوریوں سے آگاہ رہتاہے۔ اسلئے کہ وہ دلوں کے بھید جاننے والا انہتائی مہربان اور رحیم ہے۔ زیادہ بدگمانیا ں سیاست ،عدالت ، صحافت ،نظامت ،رشتے ناطوں، کاروباری منڈیوں اور طرح طرح کے پیشہ وارانہ حلقوں میںایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے دن رات پید ا ہوتی رہتی ہیں۔اسی لئے چوتھے خلفیہ فرماتے ہیں ’’اگر تم لوگوں کو ایک دوسرے کے بارے میں ایک دوسرے کے خیالات کا علم ہوجائے تو تم ایک دوسرے کو دفنانا بھی پسند نا کرو‘‘ ۔ ہمارے ہاں شرح خواندگی چونکہ بہت کم ہے اس لئے ان کے کارخانے دھڑا دھڑ گھروں ، گلی محلوں، بستیوں اور شہروں تک دن رات بدگمانیاں پیدا کرکے فوراً چار سُو پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں نظام زندگی کا کوئی شعبہ بد گمانیوں سے پاک نہیں بلکہ اسکے برعکس ہمارا پورا ملک اورپوری قوم بدگمانیوںکی آما جگاہ بن چکے ہیں ۔ ہمارے طور طریقے اور لچھن دنیا میںہماری جگ ہنسائی کا باعث بن رہے ہیں جس کا ہمیں بالکل بھی احساس نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آگے بڑھنے کی بجائے ہم صرف تعداد میں بڑھ رہے ہیں ۔ہم چارکروڑ سے پچیس کروڑ ہوگئے ہیں ۔ بڑھ ضرور گئے ہیں لیکن بڑے نہیںہوئے بوڑھے ہوگئے ہیںلیکن بزرگ نہیں بن سکے۔ ایک بیگم نے اچانک شوہر کو دفتر میں فون کیا ۔ شوہر بولا ’’ خریت توہے‘‘ بیگم بولی ’’ہاں‘‘ ۔بس پڑوسن اپنے آشناکے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ میں نے سوچا دیکھ لوں کہ تم دفترمیںہی ہو‘‘ بعض رشتے جن میںساس بہو اور بھابھی نند کے رشتے سر فہرست ہوتے ہیں بد گمانیوں کی بنیاد پرہی پلتے بڑھتے ہیں۔ اللہ نے ہر رشتے کو پاک صاف اور پاکیزہ رکھا ہے لیکن شیطانی وسوسے بدگمانیاں پیدا کرکے اُن رشتوں کو پامال کردیتے ہیں۔غالب کا مشہور زمانہ شعر آرہی ہے چاہ یوسف سے صدا دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت جس معاشرے میںبھائی بھائی کا دشمن بن جائے تو سمجھ لیناچاہئے کہ اُس معاشرے میں بدگمانیوں کی بادشاہت قائم ہوچکی ہے۔ ٭٭٭٭٭