لاہور ایک تاریخی شہر ہے جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ رہتے ہیں یکتائے روزگار یہاں ۔ اسے ادیبوں ، شاعروں اور فنکاروں کا شہر بھی کہا جاتا تھا ۔ لیکن وقت ایک جیسا نہیں رہتا ، حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ آج کے لاہور میں رہنے والے ایک عذاب سے گزر رہے ہیں ۔ آپ سب کو معلوم ہے کہ آج کے لاہور کا شمار دنیا کے پہلے پانچ آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ اس شہر میں رہنے والے آلودگی سے منسلک مختلف انواع کی بیماریوں کا عذاب بھگتتے رہتے ہیں ۔اس شہر میں عوام کے لیے کسی پبلک ٹرانسپورٹ کا بندوبست نہیں ہے ۔ چنگچیوں اور موٹر سائیکلوں کا ایک ریلا ہر وقت اس شہر کی سڑکوں پر رواں رہتا ہے جو اس تاریخی اور خوبصورت شہر کی فضاوں کو زہر آلود کرتا رہتا ہے ۔ یہ شہر صوبہ پنجاب کا دارالخلافہ ہے ۔ اسی شہر میں ایک خاندان بستا ہے جسے ’’ شریف خاندان ‘‘ کہتے ہیں۔ اس خاندان کے کئی افراد صوبہ پنجاب کی مسند وزارت اعلیٰ پر براجمان رہ چکے ہیں ۔ اس خاندان کو حکمرانی سے روشناس کرانے والے اس خاندان کے سپوت جناب نواز شریف ہیں۔ جناب نواز شریف اپنے اس صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں اور اپنے ملک پاکستان کے تین دفعہ وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں ۔ اب جب موجودہ الیکشن سے پہلے وہ پاکستان واپس آئے اور الیکشن میں حصہ لیا تو لوگوں کا خیال تھا کہ اگر مسلم لیگ (ن) زیادہ سیٹوں پر کامیاب ہو گئی تو وہی اس ملک کے اگلے وزیر اعظم ہونگے ۔الیکشن کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) ہی کے پاس زیادہ سیٹیں آئیں ( اگرچہ کچھ لوگوں کے مطابق اس میں زیادہ کردار فارم نمبر 47 کا ہے ) مگر میاں نواز شریف اس ملک کے وزیراعظم نہ بن سکے اور قرعہ فال جناب شہباز شریف کے نام نکلا۔اب کسے نہیں معلوم کہ کچھ لوگ میاں نواز شریف کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتے ۔ ہاں البتہ ، میاں شہباز شریف اپنی راہ نکال لیتے ہیں ، سو وہ آج کل اپنے ملک کے وزیراعظم ہیں۔ میاں نواز شریف کی تسلی اور دل جوئی کی خاطر ان کی بیٹی کو صوبہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ سونپ دی گئی ہے اور اب میاں نواز شریف صاحب بھی اپنا وقت اپنی پیاری بیٹی کے ساتھ گزارتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے یہ خبر چل رہی تھی کہ میاں نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب کے ساتھ جاتی عمرہ کے قریب واقع اڈہ پلاٹ کے تندوروں پر روٹی کی قیمت چیک کر رہے تھے ۔ اس سے پیشتر بھی میاں نواز شریف اپنی دختر جنابہ مریم نواز شریف کے ساتھ فیصل آباد تشریف لے گئے تھے جب وہ ایک لڑکے کی تیمارداری کے لیے گئی تھیں جس کی گردن پتنگ کی ڈور پھر جانے سے زخمی ہو گئی تھی ۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف اپنے ملک اور اس کے باسیوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ بھی کسے معلوم نہیں کہ میاں نواز شریف ایک تجربہ کار اور جہاندیدہ انسان ہیں۔ مریم نواز شریف صاحبہ کو چاہیے کہ وہ اس موقع کو غنیمت جانیں جب ان کے والد اُن کے پاس موجود ہیں ۔ ان کے والد اس صوبہ کے دو مرتبہ وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں ۔ ان کے ادوار میں صوبہ پنجاب نے خوب ترقی کی اور خصوصاً لاہور شہر کے تو کئی رنگ نکل آئے تھے ، یہ سچ ہے کہ ان کے دور میں دیکھنے والی آنکھیں لاہور کی چمک دمک دیکھ کر متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتی تھیں ۔ جنابہ مریم نواز شریف کسی دن بنا کسی اعلان کے ایک پرائیویٹ کار میں بغیر کسی پروٹوکول کے اپنے والد محترم کے ساتھ لاہور شہر کی سیر کو نکلیں اور وہ تمام علاقے اپنے والد صاحب کو پھر سے دکھائیں جہاں کبھی وہ گھوما کرتے تھے ۔ ہم نے خود میاں نواز شریف کو لاہور کی سڑکوں پر گھومتے دیکھا ہے ۔کسی زمانے میں وہ اپنے ایک دوست بٹ صاحب کے ساتھ جو کسی بنک میں ملازم تھے ، لاہور کی لبرٹی مارکیٹ میں گھوما کرتے تھے اور ’’ بھولی ‘‘ کی جوس شاپ سے جوس پیا کرتے تھے ۔ ویسے ’’ بھولی ‘‘ نے اب بھی اپنی دکان کے بورڈ پر یہ لکھوایا ہوا ہے کہ یہاں سے میاں نواز شریف جوس پیا کرتے تھے۔میاں نواز شریف نئے نئے آئیڈیاز والا ذہن رکھتے ہیں۔ میرے بطور ڈائریکٹر جنرل وائلڈ لائف اینڈ پارکس چارج لینے سے پہلے میری اُن سے ایک مختصر سی ملاقات ہوئی تھی ۔ اس وقت اُن کے پاس کوئی عہدہ نہیں تھا اور میاں شہباز شریف اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب تھے ۔ میاں شہباز شریف نے کہا تھا کہ میں اُن سے مل لوں کیونکہ وہ وائلڈ لائف کا شوق رکھتے ہیں ۔ خیر ، اس مختصر سی ملاقات میں انھوں نے مجھے ’’ کلر کہار ‘‘ کے آغاز میں کچھ نئے پارکس اور سٹنگ ایریازکے آئیڈیاز دئیے تھے جو واقعی متاثر کن تھے ۔ بد قسمتی سے اُن پر آج تک عمل نہ کیا جا سکا ، جس کی وجوہات اب کیا بتاوں۔ میاں نواز شریف صاحب نے ـ’’ جاتی عمرہ ‘‘ میں ایک وائلڈ لائف فارم ‘‘ بھی بنا رکھا تھا جس میں مختلف پرندے اور ہرن وغیرہ رکھے ہوئے تھے ، وہ ان سب کا خیال ذاتی طور پر رکھتے تھے۔ نہ جانے اب وہ وہاں ہیں یا نہیں کیونکہ میاں صاحب بڑے عرصہ سے انگلینڈ میں رہ رہے تھے ۔ موجودہ حالات کے پیش نظر اور خصوصاً اپنی صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے میاں نواز شریف شاید واپس انگلینڈ جانا پسند کریں لیکن جنابہ مریم نوازشریف کو چاہیے کہ وہ انھیں لاہور میں کچھ عرصہ اپنے پاس رکھیں ۔اس طرح ایک تو وہ ان کا بطور بیٹی خیال رکھ سکیں گی اور سب سے اہم کہ وہ ان سے بہت سیکھ سکیں گی ۔ سچ پوچھیں اگر میاں صاحب ایک سال بھی اپنے صوبہ پنجاب کو توجہ دے دیں تو اس کے حالات کچھ یوں بدل جائیں گے کہ یہ ایک مثالی اور قابل تقلید صوبہ بن جائیگا ۔ سب سے اہم دو مسائل یہ ہیں کہ ان کی توجہ اس شہر کی ٹریفک اور آلودگی کی طرف دلائی جائے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس شہر کا سب سے بڑا مسئلہ عوام کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا ہے ۔ نتیجتاً ، اس شہر میں موٹر سائیکلوں اور چنگ چیوں کا سمندر ہے جو ہر سیکنڈ آلودگی پھیلاتے پھرتے ہیں۔ اس شہر کی ٹریفک پولیس بھی اس شہر کے لوگوں پر بوجھ ہے اور حکومت فی دن ایک کروڑ روپے ان پر خرچ کر رہی ہے ۔ خدا کے لیے اس سے بھی جان چھڑائیں اور کچھ دبئی شہر جیسا مکینیکل نظام متعارف کرائیں۔