مقامی تاریخ کو سمجھنے کے لئے چونکہ میرے سامنے تحقیقی مواد کی کمی در آئی ہے اس لئے مجھے ایک دوسرا اور غیر روایتی طریقہ اختیار کرنا پڑا ہے۔میں جاننا چاہتا تھا کہ پنجاب کے لوگوں کے قدیم نام کیا تھے۔ لوگ یہ نام کیوں رکھتے تھے۔ ان ناموں کا مطلب کیا تھا۔ہر شائع شدہ مواد تو کسی ایک انسان کو میسر نہیں ہوتا تاہم میں نے زیادہ سے زیادہ معلومات تک پہنچنے کی کوشش ضرور کی۔ جو محققین حیات ہیں ان سے رہنمائی لی۔تسلی نہ ہو سکی تو یہ طریقہ اختیار کیا۔ انٹر نیٹ کے ایک ریسورس سے اس سلسلے میں چار ہزار سال پہلے گندھارا کے ایک عظیم بادشاہ کا نام ملا۔ بادشاہ سُوبل کے نام سے مشہور تھا۔ اس کا مطلب انتہائی طاقتور ہے۔ میری خوئے جستجو ایسی ہے کہ معلوم سے نامعلوم اور نامعلوم سے پرے تک کے آفاق دیکھے بنا چین نہیں پڑتا۔ اس دوران کچھ چیزیں سمجھنے کی ضرورت پڑی۔ یہ چیزیں ‘عوامل یا میکنزم ہر علاقے میں ایک سا ہوتا ہے اس لئے انسان افریقہ میں ہو‘ایشیا میں ہو یا یورپ کا ہو، قدیم ترین الفاظ ایک جیسے معلوم ہوتے ہیں۔ پانی اور ماں کے لئے عموماً ملتے جلتے لفظ ہیں۔ آفت کی اطلاع دینے کے لئے الفاظ میں مشابہت نظر آتی ہے۔ایسے کائناتی سطح کے الفاظ کو جمع کر کے ان کی تاریخ پر کام کی ضرورت ہے۔ آواز کی پیدائش لفظ سے پہلے ہوئی ہے۔انسان پیدا ہوا تو فلسفی کہتے ہیں وہ ارد گرد کو دیکھ کر حیران رہ گیا،اس نے وسیع افق کو پینورما کہہ دیا۔ ماہرین کے مطابق پھیپھڑوں میں ہوا کے اخراج کی شکل میں شروع ہونے والا عمل آواز بنتا ہے۔ ہوا کی نالی کے مختلف حصوں سے جب یہ عمل آگے بڑھتا ہے تو قابل فہم آواز بن جاتی ہے۔ ہوا جب نرخرے میں پہنچتی ہے تو وہاں موٹی تانت (ووکل کارڈز) کے کبھی بند ہونے‘کبھی کھلنے ‘کبھی لرزنے اور کبھی کسی اور شکل کے اختیار کرنے کی وجہ سے آواز کی خاصیت بدلنے میں مدد ملتی ہے۔یہ حساب لگانا میرے لئے باقی ہے کہ حواس کی رسائی میں جو احساسات آتے ہیں ان کا اثر ووکل کارڈز پر کیسے پڑتا ہے اور پھر نکلنے والی آواز اس سے زیر اثر کیسے آتی ہے۔ہم نے دیکھا ہے کہ خوف سے انسان کی زبان سے لرزتے الفاظ برآمد ہوتے ہیں۔اچانک صدمہ یا خوشی اس کو گنگ کر دیتے ہیں۔ اوکسفرڈ کی شائع کتاب ’’لسانیات ایک جامع تعارف‘‘ کی ایک وضاحت کے مطابق آواز بننے کے بعد تشکیل تلفظ کا عمل شروع ہوتا ہے۔ قدیم ترین لفظوں کی ادائیگی پر خوف‘خوشی اور حیرت کے اثرات تھے۔ میری رائے میں قدیم انسان ان ہی تین کیفیات سے واقف تھا اس لئے ساری دنیا میں ملتے جلتے لفظ بنے۔ جوں جوں قبیلے بنتے گئے۔قبیلے مخصوص علاقوں میں آباد ہوئے اور ان کے مسائل دوسرے قبیلے سے الگ قدرتی ماحول میں تشکیل پائے تو ان کی آواز سے بننے والے لفظ بھی جدا جدا ہونے لگے۔ یو ٹیوب پر افریقی زبانیں سنتا ہوں۔وہاں بہت تیزی سے الفاظ ادا کئے جاتے ہیں۔ یہ خوف کی علامت ہے ،جنگلی زندگی پرخطر ہوتی ہے۔ ہر لحظہ بقا کا خطرہ ہے۔ افریقہ کو چھوڑیں یہاں پاکستان میں ہی دیکھ لیں جب آپ کو ہنگامی صورت حال کا سامنا ہو تو اکثرزبان سے الفاظ تیزی سے نکلتے ہیں۔ پنجاب کے لوگوں کی زبان کو تاریخ کے مختلف ادوار میں کئی نام دیے گئے۔کبھی سپت سندھو کے لوگ پراکرت زبانیں اور سنکرت بولتے تھے‘اس سے پہلے دراوڑی‘ پندرہ ہزار سال پہلے کے زمانے میں منڈی اور پالی۔ ان دس پندرہ ہزار سال سے پہلے بھی انسان پنجاب میں آباد تھے، کسی روز اس کے ٹھوس ثبوت ضرور دریافت کر لئے جائیں گے۔ میرا خیال ہے جس روز ہڑپہ سے ملنے والے تحریری نمونے پڑھ لئے گئے پنجاب کا لسانیاتی ورثہ ایک اہم موڑ لے گا، لوگوں کے نام سامنے آئیں گے، اشیا کے نام ملیں گے،کیفیات کے زیر اثر بنے والے ہی نہیں سماجی احوال کے لئے مستعمل الفاظ اور آوازوں کا بھی پتہ چلے گا۔ پنجابی افراد اور اشیاء کے نام جاننے کا ایک قابل قدر ذخیرہ مجھے ’’حکایات پنجاب‘‘ کی شکل میں ملا ہے۔1885ء میں ایک انگریز افسر آرسی ٹمپل نے یہ حکایات جمع کیں۔ ان حکایات کو مجلس ترقی ادب لاہو ر نے تین جلدوں میں شائع کیا ہے۔ قدیم عربی سماج‘افراد اور اشیاء کو تھوڑا بہت جاننے کے لئے جس طرح مجھے محمود آلوسی کی کتاب ’’بلوغ الارب‘‘ سے مدد ملی کچھ ایسا ہی حکایات پنجاب سے فائدہ ہوا۔ان حکایات کا تعلق چار ہزار سال سے لے کر ڈھائی سو سال قبل کے زمانے سے ہے۔ اس میں راجائوں‘ رانیوں‘ بھاٹوں ‘ پیشہ وروں ‘کسانوں اور عام مرد و خواتین کے بہت سے نام ہیں۔ حکایات کا تعلق جس زمانے سے ہوتا ہے نام اسی طرح مسلمان ‘ہندو‘ بدھ روایات کے بن جاتے ہیں۔ آرسی ٹمپل کہتے ہیں کہ ’’لوک کہانیاں بھی ایسے ہی مضامین میں شمار ہوتی ہیں جیسے ماہرین علم الابدان انسانی کھوپڑی، دانتوں یا بالوں وغیرہ کے گہرے اور صحیح مطالعے سے مختلف انسانی نسلوں میں فرق یا ان کا باہمی تعلق معلوم کر سکتے ہیں‘ اسی طرح لوک کہانیوں کے ماہرین کو بھی اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ ایسا قابل اعتماد مواد مہیا کر سکیں جس سے یہ اندازہ ہو سکے کہ بعض لوگ کیوں ایسے ہیں‘ جیسے کہ وہ پائے جاتے ہیں۔ ’’حکایات پنجاب‘‘ کی جلد اول کی پہلی کہانی ’’راجا رسالو کے کارنامے‘‘ ہے۔ یہ کہانی ایک پٹواری نے 1896ء میں مسٹر جے جی ڈلمیر ک ممبر پنجاب کمیشن کے لئے تحریر کی۔ کہانی منظوم شکل میں تھی جسے نثر میں ڈھالا گیا۔ راجا رسالو‘ سیالکوٹ کے راجا سالبھان کا بیٹا تھا۔ آر سی ٹمپل کے اندازے کے مطابق یہ دو ہزار سال قدیم کہانی ہے۔ ہمیں چونکہ قدیم ناموں کے حوالے تک خود کو محدود رکھنا ہے اس لئے ان حکایات کے متعلق باقی جائزے کسی اور وقت تک اٹھا رکھتے ہیں۔ راجہ سالبھان کی دو رانیاں تھیں‘ اچھراں اور لوناں۔ اچھراں کا بیٹا پورن بھگت کے نام سے مشہور ہوا۔ راجا رسالو پورن بھگت کا سوتیلا بھائی تھا اور اسی کی دعا سے پیدا ہوا۔ پورن کے گورو کا نام گورکھ ناتھ تھا۔ راجا رسالو پہلی بار زیر زمین مکان سے باہر نکلتا ہے۔ اسے پتہ چلتا ہے ‘دھوبی کپڑے دھوتا ہے‘دھوتی‘ پگ‘ چیچی ‘ گل لگنا جیسے الفاظ اس پنجابی حکایت میں برتے گئے ہیں۔ چیل کو دیکھ کر وہ اِل کہتا ہے‘ چندن لکڑی‘ چخا(چتا) سمیت کئی پنجابی الفاظ استعمال ہوئے۔ ’’اوہ جو رُکھ دسدے ‘ اوہی ماواںدے پنڈ‘‘ (وہ جو پیڑ نظر آتے ہیں وہی تمہاری ماں کا شہر ہے۔ (جاری ہے)