امریکہ نے پاکستان کے میزائل پروگرام کی تیاری میں تعاون کرنے کے الزام میں چین کی تین اور بیلاروس کی ایک کمپنی پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو مِلر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’امریکہ ان چار کمپنیوں کو قصور وار قرار دے رہا ہے جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل میں ملوث رہی ہیں۔ امریکہ تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خلاف کارروائی کرتا رہے گا۔‘‘دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ اب تک خود امریکہ نے اسرائیل کو غزہ میں جنگ کے لیے تین ارب ڈالر سے زیادہ کے ہتھیار مہیا کیے ہیں۔امریکہ نے دو دن پہلے ہی اسرائیل کو پچیس ارب ڈالر کی ہنگامی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔پاکستان کے دفتر خارجہ نے امریکہ کے اس فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان امریکہ کے حالیہ اقدامات کے حوالے سے آگاہ نہیں۔ وزارتِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ کی جانب سے اس حوالے سے دیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر الزامات بے بنیاد ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے کئے گئے حالیہ اقدامات کی مخصوص تفصیلات کا علم نہیں ہے لیکن ماضی میں ایسے متعدد مواقع پر دیکھنے کو ملا ہے کہ جب مذکورہ اشیا کسی کنٹرول لسٹ کا حصہ نہیں تھیں لیکن انھیں حساس نوعیت کا سمجھ کر پابندیاں لگائی جاتی رہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ پاکستان برآمدات پر پابندیوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے معاملے کو مسترد کرتا ہے۔ ان کا یہ کہنا عالمی طاقتوں کے دوہرے معیار کو بے نقاب کرتا ہے کہ یہی ادارے، جو جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے والے قواعد کے کڑے استعمال کا دعویٰ کرتے ہیں، نے کچھ ممالک کی جدید فوجی ٹیکنالوجیز کی لائسنسنگ کی ضرورت کو ختم کر رکھا ہے۔اس کے باعث ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ، خطوں میں موجود ممالک کی طاقت میں عدم توازن اور جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے مقاصد اور دنیا بھر کا امن اور سلامتی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔بجا طور پر پاکستان نے متعدد مرتبہ اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ برآمدات پر پابندیاں امتیازی بنیاد پر نافذ نہ کی جائیں اور مذکورہ حکام کے درمیان طریقہ کار وضع کیا جائے تاکہ ایسی ٹیکنالوجی جو معاشی اور معاشرتی ترقی کے حصول کے لیے ضروری ہے اس پر بے بنیاد پابندیاں نہ لگائی جائیں۔ کچھ حلقے امریکہ کی جانب سے پاکستان کو دفاعی آلات و پرزے فراہم کرنے والی کمپنیوں پر پابندی کو ایک دباو کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ سے عین پہلے امریکہ کی جانب سے پاکستان کے میزائل پروگرام میں معاونت کرنے والی کمپنیوں پر پابندی ایک پیغام سمجھی جا رہی ہے ۔یہ پابندی اس لحاظ سے اہم ہے کہ امریکی سفیر نے حالیہ دنوں وزیرخارجہ اسحاق ڈار سے ملاقات کی ہے جبکہ امریکہ کے دورے پر گئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو سمیت متعدد امریکی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔پاکستان جغرافیائی اعتبار سے ایسے خطے میں واقع ہے جو تیل کی پیداوار، عالمی تجارت کا اہم روٹ اور تزویراتی جوڑ توڑ کا مرکز ہے۔اس خطے میں بھارت اور چین جیسی ایٹمی طاقتیں ہیں۔یہان امریکہ کے وہ تزویراتی مفادات ہیں جن کی حفاظت کے لئے وہ پچھلے پچاس سال سے کسی نہ کسی شکل میں افغانستان کو کنٹرول کرتا رہا ہے۔پاکستان زرعی ملک ہو کر زراعت میں ترقی نہیں کر سکا، اس کی نوجوان آبادی کارآمد افرادی قوت نہیں بن سکی،پاکستان میں توانائی کی قلت دور نہیں ہو رہی،یہاں وسائل کی فراوانی ہے لیکن لوگ غریب ہیں۔یہ سب کیوں ہے اس کی وجوہات کی فہرست طویل ہو سکتی ہے لیکن ایک نمایاں رکاوٹ یہ ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان کو کسی شعبے میں ابھرنے نہیں دیتیں۔پاکستان کو اپنے بد نیت ہمسائے کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے سکیورٹی نظام کی ضرورت ہے لیکن اس پر یکطرفہ پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ایران سے سستی گیس کا حصول پاکستان کا حق ہے۔بھارت ایران سے تیل سمیت کئی چیزوں کی تجارت کر رہا ہے لیکن پاکستان ہمسائے سے سستی توانائی نہیں خرید سکتا۔گزشتہ دنوں امریکی ترجمان سے اس بابت جب سوال کیا گیا تو انہوں نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ ایران سے گیس خریداری سے گریز کرے۔امریکہ اور اس کے اداروں کی دوغلی پالیسی دفاعی شعبے میں پاکستان اور اس کے ہمسائیہ بھارت کے ساتھ الگ الگ اصولوں پر معاملات طے کرنا ہے۔پاکستان کے خلاف بھارت ہر نوع کے ہتھیار جمع کر رہا ہے جبکہ پاکستان اور چین کا دفاعی تعاون اس کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کی گئی فیکٹ شیٹ کے مطابق امریکہ نے مذکورہ کمپنیوں پر پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کی تیاری کے لیے پرزے اور آلات فراہم کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ امریکہ کے مطابق یہ آلات سپیس لانچ وہیکل میں استعمال ہونے والے پروپیلینٹ ٹینکوں کی تیاری میں بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ امریکہ کے الزامات کی شیٹ ، ایرانی صدر کے دورے کو غیر موثر کرنے کی کوشش اور پاکستان پر دباو بڑھانا غیر دوستانہ فیصلے ہیں۔پاکستان نے ایٹمی صلاحیت رکھنے کے باوجود بھارت کی اشتعال انگیزیوں پر ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔پاکستان ایک امن پسند اور ذمہ دار ریاست ہے،امید ہے کہ امریکہ پاکستان کے عوام کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے حساس معاملات میں دباو ڈالنے کی پالیسی سے گریز کرے گا۔