جب کسی قوم کی سمت کھو جائے وہ کبھی یکجا نہیں رہ سکتی، حب الوطنی کیا ہے آج پاکستان میں کہیں نظر آرہی ہے، آج ہر کوئی ایک دوسرے پر شک اور تنقید کیوں کر رہا ہے امریکہ کی باون ریاستیں ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک دوسرے سے مختلف نہ ہوں مگر قابل رشک یکجہتی نظر آتی ہے۔ برصغیر کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ہزاروں سالوں سے کسی ایک نظریے پر کبھی بھی متفق نہیں ہوئے قبیلہ پروری برادری ازم مزہبی تقسیم کے اسیر پاکستان تو مختلف بن جانا چاہیے تھا کیونکہ یہ عرب سے آنے والے عالمگیر مذہب کو تسلیم کر چکے تھے اور اس ریاست کی بنیاد بھی اسی وجہ سے ممکن ہوئی، جس جس کے اختیار میں مذہب اقتدار آیا، اس نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا اگر کیا ہوتا تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی یہ ہم کس کو دھوکہ دے رہے ہیں، اپنے آپ کو اس سرزمین کو یا دنیا کو آج کسی کو فکر ہے دنیا ہمارے متعلق کیا سوچتی ہے یہاں آکر کوئی کاروبار کیوں نہیں کرتا کیا کوئی بتا سکتا ہے۔ پچھلے 30 برسوں میں اس ملک میں کتنا سرمایہ آیا وجہ یہ ہے کہ ہم خود ایک دوسرے کو نوچ رہے ہیں، دھوکہ دیتے ہیں جعلی خوراک ادویات ہم خود ہی بناتے ہیں اور خود ہی کھاتے ہیں ہمارے ملک میں عدل کا نظام کیسا ہے؟ جب ہمیں معلوم ہے تو دنیا کیسے بے خبر ہو سکتی ہے۔ میرے اکثر دوست بیرون ملک سے بتاتے ہیں کہ پاکستان سے مال اس لیے نہیں منگواتے کہ جب پیکنگ کھولتے ہیں تو اوپر سے اچھا مال درمیان میں ہلکا اور سب سے نیچے انتہائی گھٹیا معیار ڈالا ہوتا ہے، یہ کون چیک کرے گا؟ پہلے تو بھیجنے والے کو شرم آنی چاہیے کہ اس کی اس غلیظ حرکت سے پورے ملک کی بدنامی ہوگی ۔ایسے ہی ہمارا تعلیمی نظام کتنے حصوں میں منقسم ہو چکا ہے۔ گورنمنٹ کے تعلیمی ادارے پرائیویٹ تعلیمی ادارے اور مدرسہ جات کیا کوئی ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہے آج تک ہم جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب ترتیب نہیں دے سکے ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم پوری دنیا سے پیچھے ہیں صحت کا شعبہ ہی دیکھ لیں پورا کا پورا نظام مافیا نے سنبھالا ہوا ہے لوگ سرکاری ہسپتالوں میں نہیں جاتے کہ مریض لے کر جائیں گے اور میت لے کر ائیں گے مجبورا پرائیویٹ ہسپتالوں میں اپنی کھال اتروانے پر مجبور ہیں۔صاف نظر آرہا ہوتا ہے کہ تھری پیس میں ملبوس میڈیکل ریپ کے ہجوم ڈاکٹر صاحبان کو کیا آفرز لگا رہے ہوتے ہیں کبھی سنا ہے ان کے خلاف کا کارروائی ہوئی ہو ،سب سے زیادہ دو نمبر مال کاسمیٹیکس کے شعبے میں بن رہا ہے دو نمبر کریمز شیمپو صابن سرعام بن رہے ہیں اور فروخت بھی ہو رہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا ہی نہیں میرے اپنے شہر میں جعلی مصالحہ جات بنانے والی پچاس سے بھی زیادہ فیکٹریاں ہیں دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے یہ ایک نمبر ہے گارنٹی ہے اس لیے اس کا ریٹ زیادہ ہے یہ کم ریٹ ہے کیونکہ یہ ہلکی کوالٹی کا ہے یہ سب سے گھٹیا ہے آپ جتنے مرضی پیسے دے دیں حد تو یہ ہے کہ فصلوں سبزیوں کو سیورج کا پانی دھڑلے سے لگایا جا رہا ہے مردہ جانوروں کا گوشت سب سے بدتر صورتحال چکن کی ہے میرا دوست بتا رہا تھا کہ مرغی کی پھلاوٹ کے لیے نیلا تھوتھا دیا جا رہا ہے جو کہ زہر ہے پتہ سب کو ہے مگر کوئی ڈر ہی نہیں رہا ہم کوئی سیکولر ریاست نہیں ایک مذہبی ریاست ہیں آج نہ ہم ریاست سے ڈرتے ہیں نہ مذہب سے تو پیچھے بچتا کیا ہے اور امید کا یہ عالم ہے کہ کوئی آئے گا یا وہ آگیا تو سب کچھ ٹھیک کر لے گا؟ کیسے کر لے گا ؟سارے ہی تو آچکے ہیں بلکہ تین تین چار چار دفعہ آچکے ہیں۔ آج تک فیصلہ نہ ہو سکا ۔پہلے درست حکمرانوں نے ہونا ہے یا 24 کروڑ نے اگرعوام ٹھیک ہو جائیں تو حکمران بھی ٹھیک ہوجائیں یا حکمران ٹھیک ہوجائیں تو پھر عوام۔کیا ہم بند گلی میں نہیں ہیں ہر کوئی نکالنے کا دعویدار ہے پھر کچھ عرصہ بعد یہ شکوہ مجھے کام نہیں کرنے دیا اور یہ بات موصوف اقتدار کے دوران نہیں کریں گے ۔ مارک فشر کہتے ہیں سرمایہ دارانہ نظام افراد کو ذمہ دار ٹھہرانے اور انہیں یہ باور کرانے پر مبنی ہے کہ غربت اور بے روزگاری صرف ان کی غلطی ہے، اور اس طرح افراد سماجی ڈھانچے کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے خود کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ یہ افسردگی کا ایک اور چہرہ ہے جو ہمارے اندر پیوست اس یقین سے آتا ہے کہ ہم سب اپنی مصیبت کے ذمہ دار ہیں، اور اس لیے ہم اس کے مستحق ہیں۔ کیا ہم ایسی سطح تک نہیں آگئے کہ قسمت مقدر کا لکھا سمجھ کر خاموش بیٹھے ہیں کہ آخرت میں اسکا حساب بھی ہوگا اور اجر بھی کئی گنا زیادہ ملے گا کوئی قوم اس درجہ بھی اذیت برداشت کرنے کا قابل ہوسکتی ہے یہ تو اذیت پسندی خود کو بھی دینا اور دوسروں کے لیے بھی ایسا رویہ رکھنا ہمیں اس خول سے باہر آنا ہوگا، اگر سعودی عرب جیسا ملک معاشی ترقی کے لیے سب کچھ قربان کررہا ہے تو ہمیں کیا قباحت ہے نئی نسل کے لیے ہمیں بھی بہت کچھ بدلنا اور قربان کرناہوگا۔ ایسے تو غربت مہنگائی بیروزگاری ختم نہیں ہوگی، نئی نسل کے زرد پیلے چہرے دیکھ کر تمہارا کلیجہ کیوں نہیں پھٹتا قوم کو بتایے کہ کیا رکاوٹیں ہیں، کس وجہ سے آپ دنیا کے ساتھ چل نہیں سکتے ہیں اور کیا مضبوط ترین منصوبہ ہے آپکے پاس انرجی کا بحران کیسے حل ہوگا ؟انڈسٹری کیسے چلے گی ہمارے سیاحتی مقامات پر دنیا کیسے آئیگی؟ ہمارے ائیرپورٹ کیسے آباد ہونگے؟ جہاں ایک گھنٹے میں سینکڑوں فلائٹس اتریں کوئی ہے جو اس اندھیرے سے چوبیس کروڑ یبسوں لاچاروں تقدیر کا لکھا سمجھنے والوں کی حقیقی مسیحائی کرے خیبر سے کراچی تک خوشحالی ہی خوشحالی ہو کوئی ماوراتی طاقت نہیں آئیگی ہمیں بدلنا ہوگا چاہے اسکی کوئی بھی قیمت ادا کریں ۔