کشمیریوں نے دل وجان کے ساتھ پاکستان کے لیے ہر وہ قربانی دی جو ان کے بس میں تھی۔پاکستان میںکوئی بھی حادثہ رونما ہو جائے، اس کی پہلی چوٹ کشمیر پر پڑتی ہے۔ پاکستان کے لیے کوئی موہوم سا خطرہ بھی کشمیریوں کو بے کل کر دیتا ہے ۔بھارت اور پاکستان کے بیچ مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے ڈیڑھ سو سے زائد ادوار ہو چکے ہیں۔بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بار بارمذاکرات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا،کشمیریوں کو مایوسیوں سے دوچار کیا جاتا رہا،لیکن ان کی آس ہمیشہ اس بنا پر زندہ رہی ۔ہر کشمیری کی دلی تمنّا یہ رہتی ہے کہ ان کے محبوب ملک کے حالات بہتر ہوں، یہاں استحکام پیدا ہو اورکشمیر سے محبت کرنے والی حکومت یہاں بر سر اقتدار آئے۔ پاکستان کرکٹ میچ بھی ہار جائے،توکشمیری کھانا نہیں کھاتے۔پاکستان میں سیاسی استحکام خطرے میں پڑ جائے تو کشمیری بے چین ہو جاتے ہیں۔یہ بھی پاکستان سے ان کی محبت کا اعجاز ہے کہ پیہم مایوسیوں کے باوجود کشمیری پاکستان سے اپنے آپ کو الگ نہیں کر پا ئے۔ یہ امید باقی ہے کہ جس دن بھی پاکستان کو اپنے حالات سے نجات مل گئی، کشمیری’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کہتے ہوئے باہر نکل آئیں گے اور ایک بار پھر پاکستان ہی ان کے خوابوں کی منزل ہوگا۔ آج بھی یہ حال ہے کہ مساجد میںپاکستان کے لیے ہی خیر مانگی جاتی ہے۔ڈیڑھ کروڑ کشمیری دن رات اس بات کا انتظار کر رہے ہیں،کب پاکستان کے حالات بہتر ہوں، کب وہاں استحکام پیدا ہو اور کب وہاں کے رہنما کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے لیے مستعد ہوں۔بلا شبہ بھارت کو امریکا اور اسرائیل اور مغربی طاقتوں کی حمایت اور دوستی حاصل ہے،ہندوستان کی اقتصادی حالت اورسیاسی نظام قابل رشک حد تک مضبو ط ہے،مگر عام کشمیری بیساکھیوں کے سہارے کھڑے پاکستان سے ہی قلبی،ذہنی اور روحانی طور پر جڑا ہوا ہے۔امریکا اور ہندوستان نے کشمیر کاز کو دہشت گرد ی سے جوڑنے کی سازش بھی کی مگر وہ اہل کشمیر کو پاکستان سے متنفّر کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ قائداعظمؒ نے کشمیر کوپاکستان کی شہ رگ کہاتھا ،اس لیے کہ ان کی بصیرت پر یہ راز فاش تھا کہ پاکستان کی نظریاتی تکمیل اس روز ہو گی جب مسلم اکثریت کی یہ ریاست پاکستان کا حصہ بن جائے گی۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ سرزمین کشمیر نظریاتی اور جغرافیائی پہلوکے ساتھ ساتھ اقتصادی طور پر بھی پاکستان کے لیے رگ حیات کی حیثیت رکھتی ہے۔انہیں یہ بھی معلوم تھا کشمیر سے آنے والے دریا پاکستان کی اقتصادی بقا کے ضامن ہیں‘ مگر قائدؒ کے بعد آنے والے نالائق ثابت ہوئے۔جنرل ایوب خان نے سندھ طاس معاہدہ کرکے کشمیر کی اقتصادی شہ رگ کاٹ کے رکھ دی ‘تو دوسرے سول مارشل لا ایڈ منسٹریٹر ذوالفقارعلی بھٹو نے شملہ معاہدے کی صورت میں کشمیر کی شہ رگ پر دوسرا وار کیا اور اسے ایک بین الاقوامی تنازعے کے بجائے محض دو طرفہ علاقائی جھگڑے میں بدل دیا۔ بھٹو اور ان کے بعد جنرل ضیاء الحق کشمیریوں کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حق خود ارادیت کا تذکرہ ہی بھول گئے ۔انہوں نے کسی عالمی ادارے میں اس مسئلے کو نہیں اٹھایا۔ضیاء الحق دور میں بھارت نے سیاچن میںپاکستانی علاقے پر قبضہ کرلیا۔ پاکستان میں ایک شور مچ گیا کہ جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کی حفاظت میںغفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ۔جنرل مشرف کے دور میںکشمیر پالیسی کو یو ٹرن سے متعارف کرایا گیا۔ حقیقت یہ ہے حکمرانوں نے مسئلہ کشمیرکونہا یت بھونڈے طریقے سے ہینڈل کیا ۔ نائن الیون کے بعد کشمیر کی شہ رگ کی حفاظت کا ایک باب بین الا قوامی سازش کے ذریعے بند کرنے کی کوشش کی گئی۔امریکی حکم پرہی مشرف اوربے نظیردونوںنے امریکی اور بھارتی موقف اپنالیا۔پاکستان کو کشمیر کی تحریک آزادی سے الگ تھلگ کرنے کے لیے جامع مذاکرات (Composit Dialogue)کاڈول ڈالا گیا۔امریکا نے ہی پاکستان کو حکم دیا اور بھارت کو صلاح دی کہ بات چیت کاسلسلہ شروع کریں۔ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ بھارت سے جنگ کی جائے لیکن کشمیر کی مسلح تحریک بھارت کے سر پر لٹکتی مستقل تلوار کو ہٹا کر اسے موقع دیا گیا کہ کشمیریوں کو بہلانے کے لیے مسئلہ کشمیر بھی ایجنڈے پر موجود رکھا گیا۔ بھارت نے دنیا کو دکھانے کے لیے یہ ایجنڈا قبول تو کرلیا لیکن کئی برس گزر گئے ایک بار بھی اصل مسئلے پر بات کرنے کے لیے بھارت آمادہ نہ ہوا۔کشمیر پر بھارت کا موقف آج بھی ایک گلیشیئر کی طرح منجمد ہے۔مشرف نے دعویٰ کیاتھا کہ محبت اور دوستی کی گرمی سے اس برف کو پگھلایا جا سکتاہے،مگر یہ برف پگھلنے کے بجائے اور بھی سخت ہو گئی ہے۔افواج پاکستان کی تشکیل دنیا کی ہر فوج کی طرح وطن عزیز کے دفاع کے لیے ہوئی تھی ۔ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کا کام افواج پاکستان کے بنیادی فرائض میں شامل تھا۔کشمیر پاکستان کی نظریاتی سرحدوں میں شامل ہے اور اس پر دشمن کا قبضہ پاکستان کی جغرافیائی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔کشمیر کی آزادی افواج پاکستان کے مقاصد میں سب سے بڑا مقصد رہاہے۔۱۹۴۸ئ‘۱۹۶۵ئ‘ ۱۹۷۱ئ‘ اور کارگل کی جنگیں اس کا ثبوت ہیں ۔بد قسمتی سے پاک فوج کوملکی داخلی معاملات میں مشغول کر کے نصب العین بھلا دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے،ورنہ ایک مشرک ملک کی بزدل فوجوں کی کیا مجال تھی کہ وہ اسلامی سرزمین پرقبضہ جما کر بیٹھ جائے ۔یہ وقت ہے پاک فوج کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلانے کا۔وقت آ گیا ہے کہ پوری قوم کی عام لام بندی کی جائے۔پاک فوج کا وقار بحال کیا جائے اور جن جن کارنرز سے فوج کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے وہ راستے بند کیے جائیں۔اس ملک کی تکمیل اور تحفظ کے لیے اگر آج کوشش نہ کی گئی تو پھر یہ وقت کبھی ہاتھ نہیں آئے گا۔ ٭٭٭٭٭