یونان کے سمندر میں ہونے والا سانحہ کوئی نیا سانحہ نہیں ۔ اس سے پہلے بھی ایسے واقعات ہو چکے ہیں۔یونان کا یہ واقعہ ہر حساس انسان کا دل چیر گیا۔اس حادثے میں میرے اپنے گائوں کے دو درجن بچے جان کی بازی ہار گئے۔ان میں تین میرے انتہائی قریبی عزیز اورکئی ایک میرے قریبی دوستوں کے بچے شامل ہیں ۔یہ بچے میری آنکھوں کے سامنے پل کر جوان ہوئے تھے۔ وادی بناہ کے یہ سپوت جہاں جری ،دلیر تھے وہاں اپنے اجداد کی روایات کے امین بھی تھے۔کسی مشکل گھڑی میں یہ چٹان کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔یہ وہ نوجوان تھے جو اپنی دلبری اور بہادری میں اپنی مثال آپ تھے۔ایسا ہر گز بھی نہیں ہے کہ یہ بچے کم پڑھے لکھے یا انتہائی مفلس گھرانوں سے تعلق رکھتے ہوں۔ ان میں سے بیشتر کھاتے پیتے گھرانوں کے بچے تھے۔سوال یہ ہے کہ پھر اتنی بڑی ٹریجدی نے کیوں جنم لیا؟ دو اڑھائی برس قبل گوجرانوالہ سے میرے ایک عزیز کایتیم بچہ ان انسانی سمگلروں کو ایک بڑی رقم دے کر ایک گروپ کے ساتھ تافتان بارڈر کے ذریعے ایران میں داخل ہوا۔ایرانی بارڈر سیکیورٹی فورس نے اس گروپ کو دیکھتے ہی فائرنگ شروع کر دی ۔کئی روز کے بھوکے پیاسے یہ بچے شدید گرمی میں میلوں کا سفر طے کر کے یہاں تک پہنچے تھے۔اسی اثنا میں متذکرہ بچہ ڈر گیا ،اسے دل کا دورہ پڑا اور موقع پر فوت ہوگیا۔باقی گروپ پکڑا گیا۔ان کے ساتھ ایرانی پولیس نے جو کچھ کیا یہ الگ دردناک داستان ہے لیکن اس بچے کی نعش کے حصول کے لیے جو مشکلات پیش آئیں اس میںایران میں پاکستان کے سفارت کار بھی بے بس پائے گئے۔دو ہفتے کی جدوجہد کے بعد بالآخر بچے کی لاش تافتان بارڈر سے وصول کی گئی۔اس موقعے پر یہ بات ہضم کرنا مشکل تھا کہ یہ بچہ اگر پچیس لاکھ ایک انسانی ا سمگلر کو دے کر اندھے راستوں پر چلا گیا ہے تو اسے کسی عزیز نے یہ مشورہ کیوں نہیں دیا کہ کہ اتنی رقم میں ایک مناسب کاروبار بھی کیا جاسکتا تھا؟اس کے بعد بھی لاتعداد نوجوان میرے پاس آتے رہے،کبھی ترکی جانے اور کبھی ایران جانے اور کے بارے میں تفصیل پوچھتے رہے۔میں نے ان کی حوصلہ شکنی کی۔ان نوجوانوں کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے یہاں کوئی روز گار ہے نہ کوئی سفارش،نہ کاروبار کے مواقع۔کئی بچوں سے ان کی ذاتی تفصیلات بھی معلوم کیں۔سچی بات یہ ہے کہ ان میں سے بہت کم ایسے تھے جن کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ ملک سے باہر جائیں تو ان کے مسائل واقعی حل ہو سکتے ہیں۔ میں نے ان کو یاد دلایا کہ جو سہولتیں آج ان کو حاصل ہیں ہم نے اپنی جوانی تک ان کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ میںملک سے باہر جانے والوں کی دوڑ میں شامل اپنے علاقے کے بچوں کو ہمیشہ یاد لاتا رہا کہ آپ مفلس نہیں ہیں۔ آپ کے پاس زمین ہے۔دو وقت کی روٹی مل جاتی ہے،یورپ ایک سہانا خواب ہے۔ اس خواب کی تعبیر میں میرے ان بچوں کا حصہ زیادہ ہے جو خود وہاں جیسے تیسے وہاں پہنچ گئے اور ان کے ساتھ جو اصل واردات ہوئی اس کا تذکرہ نہیں کرپاتے۔وہان پہنچ جانے والے مہینوں کیمپوں میں خوار ہوتے رہے۔بھوک پیاس برداشت کرتے رہے۔مجھے یقین ہے کہ اگر میری وادی کی کوئی ماں اپنے بچے کی یہ خستہ حالی دیکھ لیتی تو قیامت تک یورپ کا نام نہ لینے دیتی۔الحمدللہ پاکستان کے حالات اتنے برے نہیں ہیں جتنے سوشل میڈیا پر برے ہیں۔پچھلے کئی برسوں سے ان بچوں کو کروڑوں نوکریوں اور سہانے مستقبل کے خواب دکھلائے گئے۔ان کی امیدیں جوان رہیں لیکن جب خواب بکھرنے لگے یہ ایک ان جانی منزل کی طرف چل نکلے ۔بالخصوص آزاد جموں کشمیر کی پچھتر لاکھ آبادی میں ایک فی صد لوگ بھی ایسے نہیں جو بغیر چھت کے سوتے ہوں یاکسی کی رات بھوکے پیٹ گزرتی ہو۔آزادکشمیر (میرپور ڈویژن )کے زیادہ تر لوگ یوکے، امریکا اور اندرون یورپ مقیم ہیں اور ان کی چمک دمک اس علاقے میںبھی دیکھی جاسکتی ہے۔وہ آزادکشمیر آتے ہیں اور کئی کئی کروڑ کی کوٹھیاں بنا کر،بڑی بڑی گاڑیاں خرید کر پورچ میں بند کر کے خود واپس جا کر دو بیڈ کے مکانوں میں رہ کر جاب میں جُت جاتے ہیں۔ دوسری جانب ہمارے سیاست دان ہیں ،جن کے بچے ہمیشہ سے محفوظ اور پر تعیش زندگی گزارتے ہیں۔اقتدار کرنا صرف انہی کاکام ہے،غریب یا متوسط طبقے کے بچے بے شک اعلیٰ تعلیم یافتہ کیوں نہ ہوں ان پر روز گار کے مواقع بند ہیں۔ ان کو ملازمت اسی صورت مل سکتی ہے کہ وہ صاحب اقتدار قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں۔آزادکشمیرجس کی کل آبادی دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ریاست ناروے سے بھی کم ہے، اس کے وسائل ناروے سے زیادہ ہیں،جہاں کے لوگ پاکستان بھر سے تعلیم میں آگے ہیں۔ان کی بے بسی سیاست کاروں کی وجہ سے ہے جو پون صدی گزرنے کے بعد بھی نسل نو کو سمت فراہم نہیں کر سکے۔اعلیٰ تعلیم یافتہ بچے ڈگریاں تھامے سفارشیں کراتے اور سیاست دانوں کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں۔آزادکشمیر کی زرخیز زمینیں کاشتکاری کے لیے ترس رہی ہیں۔ریاستی معدنیات ،جنگلات اور پانی کے ذخائرکسی وژنری قیادت کے منتظر ہیں۔قیادت کے نام پر قبیلوں کے صاحب حیثیت لوگ پیسے کے زور پر اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں۔یہ جنگ ہم بچپن سے دیکھتے آئے ہیں۔اس لشکر کشی میں کمی نہیںآئی۔یہاں تک کہ ہمارامتحرک،تعلیم یافتہ نوجوان سرمایہ یورپ اور امریکا کا رخ کرتا چلا گیا جس کے بعد لائف سٹائل میں تبدیل آتی گئی۔اس لائف سٹائل کی دوڑ کے بعد آج ہم خون کے آنسو رو رہے ہیں۔یہ سچ ہے کہ اتنی سیونگ اس مہنگائی کے دور میں کسی کے پاس نہیں ہوتی کہ بھاری رقم انسانی سمگلروں کو دے کر اپنے جگر گوشے ان کے حوالے کردیں۔میںچند ایک نوجوانوں کو جانتا ہوں جن کے ورثاء نے اپنی زمینیں گروی رکھ کر ،قرض لے کر اپنے بچوں کو سہانے خوابوں کی تعبیر پانے کی کوشش کی۔کاش! ہم میں سے کوئی ان والدین کو روک پاتا۔ایک طرف اس والدین کی بے بسی ہے اور دوسری طرف ہماری حکومتوںکی بے حسی ہے کہ اس مافیا کو پکڑ کر سزا دے سکیں۔جب ہمارے ائیر پورٹوں سے اکھٹے بیس بیس تیس بچے لیبیا روانہ ہوتے ہیں تو ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا کیا؟کون لے کر جا رہا ہے؟ کیوں جا رہے ہیں؟اس کامطلب شاید یہ ہے کہ اس مافیا کا ہاتھ بہت لمباہے؟ خدشہ ہے کہ اب ایک اور المیہ ہو گا کہ یہ مافیا قانون کی گرفت سے بچ نکلے گا ۔کیوں کہ جن لوگوں نے بھاری رقوم ادا کیں ہیں، ان سے رقم کیش لی گئی ہے اور مافیا لیبیا تک کے’’ قانونی ویزے‘‘ کی آڑ میںبچ سکتا ہے۔ اب یہ حکومت کا کام ہے کہ ان کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ یورپ امریکا یا کسی بھی ملک میں جانے کے قانونی طریقے موجود ہیں۔ہمارے شہریوں کو غیر قانونی ذرائع تلاش کرنے کی بجائے ان قانونی طریقوں کو استعمال کرنا چاہیے۔ جائز راستے میں برکت بھی ہے اور امکانات بھی زیادہ ہیں۔بہر حا ل پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتیں مرنے والے نوجوانوں کے لواحقین کے لیے ایک معقول فنڈ کا اعلان کریں۔گرچہ پہاڑ برابر سونا بھی ان قیمتی جانوں کا ازالہ نہیںکر سکتا پھر بھی مقروض والدین کو فوری ریلیف مل جائے گا۔