ساگ اور مکئی کی روٹی کا فیشن ہے، اصل ڈش مکھن میں گندھے باجرے کے آٹے کی روٹی اور ساگ تھا۔ایک انگریز پنجاب میں آیا اور ساگ کی سوغات کا ارمان لیے اندرون پنجاب کی جانب رخ کیا۔پنجاب کا اندرون لاہور کا اندرون تو تھا نہیں کہ الف لیلہ کی طرح کوئی شہرزاد ہو گی اور ہر رات ایک نئی کہانی ہو گی اور نیا طلسم ہو گا۔بس ایک کھلا میدان تھا سرسبز علاقہ تھا، تا حد ِنظر ایک زمردی تھان پھیلا پڑا تھا۔انگریز پہلے تو یہ رنگ ڈھنگ دیکھ کر خوش ہوا اور پوچھا کہ چہار طرف لپیٹتی یہ کیا چشم آگیں شے ہے تو جواب ملا ساگ ہے صاحب بہادر ساگ۔کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی شروع ہوتی ہے۔ انگریز نے مزید دریافت کیا تو بتایا گیا کہ یہ ایک سبزی ہے جو دیس پنجاب کے سردیوں کے موسم کی سوغات ہے۔اس کی دلچسپی دیکھ کر اس کو باجرے کی روٹی اور ساگ کی سبزی کی دعوت دی گئی جو اس کی طرف سے بخوشی قبول ہوئی۔اس نے ساتھ ہی فرمائش کر دی کہ ہم اس سبزی کو پکتا ہوا بھی دیکھنا چاہیں گے۔ اہل دیہہ اور میزبان تو جیسے خوشی سے جھوم اٹھے۔انگریز بھی اتنا ہی جذباتی ہو رہا تھا جتنا ہم اندرون شہر جا کر ہوتے ہیں۔یہ فصیل ِشہر کے ساتھ ساتھ سڑک جاتی ہے ۔یہ دلّی دروازے کے باہر سے شروع ہوتی ہے۔یہ وزیر خان حمام ہے جس کا فرش جزوی طور پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔اس کمرے کے فرش کے نیچے خشتی سرنگیں ہیں۔پانی کو گرم کرنے والی بھٹیوں کا دھواں ان سرنگوں سے گزر کر کمرے کے کونوں میں بنی چمنیوں سے نکل جاتا ہے۔ گرم پانی زیرِ فرش بنی نالی میں چبوترے کے درمیان بنے فوارے سے آتا ہے۔ چبوترا جسم کی رگڑائی اور مالش کے لیے استعمال ہوتا ہے۔انگریز ساگ کے کھلے میدان میں حیران کھڑا تھا جیسے ہم جسم کی رگڑائی اور مالش والے چبوترے پر کھڑے حیران ہو رہے ہیں۔اس کمرے کے مغل بادشاہ کے بنے ہوئے روشندانوں میں سے ایک روش دان سلامت رہ گیا ہے۔گرم پانی زیر ِفرش نالیوں کے ذریعے کمروں میں پہنچتا ہے۔یہ چوک وزیر خان ہے اور یہ کنواں دینا ناتھ ہے۔شاہ جہان کے دور کے مغلیہ صوبے دار حکیم علم الدین معروف بہ وزیر خان نے آج سے ٹھیک تین سو اٹھاسی سال پہلے یعنی 1635 میں تعمیر کیا تھا۔نہ صرف تعمیر کروایا تھا وقف بھی کر دیا۔ اس چوک میں داخلے کے بھی چار دروازے تھے مغربی دروازہ اسی صوبے دار کی مسجد وزیر خان کا حصہ ہے۔ مشرقی دروازہ جو چٹا دروازہ کے نام سے موسوم ہے اب بھی موجود ہے۔دلّی دروازے سے آگے یکی گیٹ کے اندر مسجد حافظ عبدالعزیز ہے جو گلی گھنگھرو سازاں میں واقع ہے۔اس گلی سے باہر شہر کی فصیل کے ساتھ ساتھ چلتی اور تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم سڑک پر مسجد بیگماں ہے جو شاہی بیگمات کے لیے تعمیر کی گئی تھی۔ اب یہ سڑک سے بہت نیچے ہے سیڑھیوں کے ذریعے مسجد کے صحن میں جایا جاتا ہے۔یہاں سے شاہی قلعہ دور نہیں عین ممکن ہے ان شاہی بیبیوں کے لیے کوئی زیر ِزمین راستہ بھی ہو جو اس مسجد کو قلعے سے ملاتا ہو۔لگتا ہے یہ مسجد دریا کنارے بنائی گئی تھی۔اس طرف دھیان نیچے اترتی سیڑھیوں کی وجہ سے جاتا ہے۔ انگریز نے دیکھا کہ گہرے سبز رنگ کے پتوں کو ایک برتن میں ابالا جا رہا ہے۔ ابالنے کے بعد اس کو ایک دیسی دَوری میں گھوٹا جا رہا ہے اور سبز رنگ کا مشروب دوبارہ چولہے پر چڑھا دیا گیا ہے۔ انگریز کے لیے تو یہ الف لیلہ ہی تھی۔یہ ریسیپی بھی اس کے لیے نئی تھی۔اندرون پنجاب میں ساگ کے میدان تو تھے اور سیدھا سادہ ساگ پکانے کا طریقہ تھا۔شاہی لوازمات اور شاہی ذائقوں سے ناواقف ساگ تیار ہو رہا تھا۔کسی بادشاہ کے یا اس کے کسی مصاحب کے دستر خوان پر ساگ جیسی نعمت ظہور ہی نہیں کر پائی تھی اگر ظہور کر پاتی تو استاد مولانا محمد حسین آزاد ضرور لکھتے کہ لال قلعہ میں ساگ کی سوغات تیار ہوئی تھی۔دال کا تو ذکر موجود ہے اسی لیے ایک ڈش شاہی دال کی بھی ہے۔خود ابوالمظفر نے شاہ غالب کو ایک عدد دال کا تھال بھجوایا تھا اور اردو ادب اس کی رسید بھی دیتا ہے اور سن بھی بتاتا ہے کہ غدر سے انیس سال پہلے یہ داد و دانش بھری دال تیار ہوئی تھی بھیجی ہے جو مجھ کو شاہ جمجاہ نے دال ہے لطف و عنایت شہنشاہ پہ دال یہ شاہ پسند دال بے بحث و جدال ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال غالب نے تو دولت و دین کو بھی اس میں شامل کر دیا۔مگر پنجاب کے باورچی کے پاس ساگ پکاتے ہوئے نہ دولت تھی نہ دانش۔دین کا ہم کچھ کہہ نہیں سکتے کہ زمانہ سخت کم آزار ہے بجان ِاسد وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں جب دیگ ذرا سوکھنے لگی تو نوبت بجی کہ ساگ تیار ہے۔انگریز حیران پریشان دیدے پھاڑے کھڑا تھا کہ یہ کون سی ڈش تیار ہو گئی ہے کہ اس قسم کی درجن بھر ڈشیں بھینسوں کے باڑے میں نظر آ رہی تھیں۔رنگ بھی وہی ڈھنگ بھی وہی اور ہلکا ہلکا سرمئی سا دھواں بھی مماثل لگ رہا تھا۔ضرور نظر کا دھوکا ہو گا۔ میزبان اب کہاں رکنے والا تھا اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ باجرے کے آٹے کو مکھن میں گھندوایا۔ایک اور گہرے سیاہ رنگ کا تھال سا تیار ہو گیا۔یہ ساگ سے بھی بڑی حیران کن شے تیار ہو گئی تھی۔میزبان نے ساگ کا ایک پیڑا اس سیاہ تھال کے اوپر رکھا اور انگریز کے سامنے رکھ دیا۔اب انگریز سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا کہ تھال کو دانتوں سے توڑنا ہے یا تھال کے اوپر پڑی شے کو سپرد حلق کرنا ہے۔ بادشاہی قلعے کا اکبری دروازہ دیکھ کر میں ہمیشہ دہشت زدہ ہو جاتا ہوں اتنے بڑے دروازے کے جہازی سائز سے بھی بڑے دروازے۔دروازے کے سامنے ایک لمبا چوڑا تھڑا جہاں نوجوان کرکٹ کھیل رہے تھے یہ ہاتھیوں کے رکنے کی جگہ ہو گی۔ یہ ایک اونچا اور بھاری بھرکم دروازہ ہے جو دو نیم ہشت پہلوی فصیل داریوں کے درمیان بنا ہوا ہے۔ اسے مزیدبْرج نما دیواروں سے مضبوط کیا گیا ہے۔بچپن میں میں نے ساگ کو اپنے گاؤں میں ایسی کثرت اور تواتر سے پکتے اور لوگوں کو کھاتے ہوئے دیکھا ہے کہ اس کی دہشت اب تک نہیں جاتی۔اکبری دروازے کی دہشت تو ساگ کے کھلے میدانوں کی دہشت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ ٭٭٭٭٭