اسی ماہ کے وسط میں ترکیہ کے تاریخی شہر استنبول میں فلسطین پر ایک عالمی کانفرنس میں دنیا بھرسے آئے مندوبین جب صیہونیت کو مجرمانہ فعل قرار دینے اور مزاحمتی تحریکوں کو کو جواز بخشنے ، جیسے مسائل پر بحث کر رہے تھے، تو مندوبین میںروایتی یہودی لباس پہنے ایک یہودی عالم بھی نظر آئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ، 68 سالہ ربیً یسروئیل ڈووڈ ویس ہیں، جو امریکہ کے ایک اہم یہودی مذہبی لیڈر ہیں۔ کانفرنس میں لنچ کے وقفہ کے دوران ، میں نے ان سے پوچھا کہ ایک یہودی عالم ہوتے ہوئے آپ کیسے اسرائیل اور صیہونیت کی مخالفت کرتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ چند روز قبل بھارت کے اقتصادی دارالحکومت ممبئی میں تھے، اور وہ اس سوال کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیامیں چونکہ یہودی آبادی نہایت ہی قلیل رہی ہے اس لئے عوام میں خاصا ابہام ہے۔ میرے سوالوں کے جواب میں انہوں نے کہا، کہ اس سے قبل آپ انٹرویو شروع کریں، ’’ میں کہنا چاہتا ہوں کہ میرا دل غزہ کے لیے خون کے آنسو رو رہا ہے۔‘‘ اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے فلسطینیوں پر جو مصائب ٹوٹ رہے ہیں، وہ ان سے خاصے دلبرداشتہ ہیں اور زیادہ تکلیف دہ ہے، کہ یہ سب کچھ ہمارے مذہب کے نام پر ہو رہا ہے۔انہوں نے عالمی برادری اور بالخصوص مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ یہودیت اور صیہونیت کے درمیان فرق کو سمجھیں۔معلوم ہوا کہ دسمبر میں انہوں نے کئی دیگر یہودی لیڈروں کے ساتھ جنوبی افریقہ کا دورہ کیا تھا، تاکہ وہاں کی حکومت کو اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کیلئے اخلاقی مدد بہم فراہم کرائی جائے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ بار بار صیہونیت اور یہودیت میں فرق کرنے کیلئے کہہ رہے ہیں، آخر دونوں میں کیا فرق ہے؟ اسرائیل تو دنیا کا واحد یہودی ملک ہے، آپ اس کی کیوں مخالفت کرتے ہیں؟ تو ربی ڈووڈ ویس نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا کہ خدا وندجس نے ہمیں دانائی اور حکمت عطا کی ہے ، نے تین ہزار سال قبل کوہ طور پر ہمارے پیغمبر کو تورات کی صورت میں ایک پیغام دے دیا۔ ہم اس پیغام کے تابع ہیں۔ ’’تورات ہمیں بتاتی ہے کہ چوری نہ کرو، قتل نہ کرو اور نہ کسی کے مال و جائیداد پر قبضہ کرو۔‘‘ اس کے علاوہ ہم نے خدا وندسے وعدہ کیا ہے کہ ہم مقدس سرزمین کی طرف منہ کرکے عبادت کریںگے۔ تورات نے یہ بھی پیشن گوئی کی تھی کہ پیغمبر حضرت سلیمان کا تعمیر کردہ ہیکل تباہ ہوگا اور یہودی دنیا میں بکھر جائیں گے۔ ’’ہمارا خدا وندکے ساتھ معاہدہ ہے، کہ مسیح کے ظہور تک کوئی یہودی ریاست قائم نہیں ہوسکتی ہے، چاہے وہ کسی خالی زمیں پر ہی کیوں نہ ہو۔ کسی آبادی کو بے دخل کرکے ریاست تشکیل دینا تو دور کی بات ہے۔یہودیوں نے 2,000 سال تک یورپ میں عیسائی سلطنتوں کے انکوزیشن کا سامنا کیا، لیکن انہوں نے کبھی بھی یہودی ریاست کی بنیاد نہیں رکھی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ صیہونیت ایک قومی سیاسی تحریک ہے اور اس کا یہودیت اور اس کی تعلیمات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ’’یہ انتہائی قابل مذمت ہے کہ وہ مذہب کا استعمال کرتے ہیں ۔ انہو ں نے تورات تک کی غلط تشریحات کی ہیں اور نئی نسل کو گمراہ کر رہے ہیں۔ ‘‘میں نے پوچھا کہ اگر یہ سب سچ ہے، تویہودی مذہبی لیڈروں نے اسرائیل کے قیام کی مخالفت کیوں نہیں کی؟ تو ان کا جواب خاصا چونکا دینے والا تھا۔ ان نے شکوہ تھا کہ موجودہ دور میں لوگ تاریخ کا بہت کم مطالعہ کرتے ہیں۔ بس مفروضوں پر اپنے دلائل کی عمارت کھڑی کر دیتے ہیں۔ ــ’’ہم کیسے ایسی ریاست کی حمایت کرسکتے تھے، جس سے ہمیں قطعی طور پر منع کردیا گیا ہے۔ ہم خداوند سے کیسے جنگ کرتے۔ اور وہ بھی جس ریاست میں زمین وہاں کے باشندوں کیلئے تنگ کر دی گئی ہو اور یہودیوں کو بسانے کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم ہو۔ میں نے سوال کیا کہ عملاً یہودی مذہبی لیڈروں نے اسرائیل کے خلاف کیا اقدامات کئے؟ تو انہوں نے اپنے بیگ سے ایک البم اور دستاویزات کا ایک پلندہ نکال کر کہا کہ یروشلم کے چیف ربًی یوسف تزوی دوشینسکی نے جولائی 1947 میں اقوام متحدہ کو خط لکھ کر فلسطین کے کسی بھی حصے میں کسی یہودی ریاست کے قیام کی مخالفت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ خط اقوام متحدہ کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ ربًیوں نے اس وقت کی بڑی طاقتوں سے مدد کی درخواست بھی کی۔ دستاویزات اور پرانی تصویریں دکھا کر وہ بتا رہے تھے کہ ’’دنیا بھر کے یہودی علما نے اس ریاست کے قیام کی مخالفت کی ۔ جنہوں نے اسرائیل کی بنیاد رکھی وہ یہودیت کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بانیوں میں سے کوئی بھی مذہبی یہودی نہیں تھا۔ وہ سب ملحد اور سیکولر یہودی تھے اور ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘‘اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کی وجہ مذہب ی اختلاف نہیں ،صیہونیوں کا فلسطینی سرزمین پر ناجائز قبضہ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ صہیونیت کے آنے تک مسلمان اور یہودی اچھے پڑوسیوں کی طرح پرامن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ صیہونیت کو مجرمانہ نظریہ قرار دینے اور اسے نسل پرستی کے ساتھ نتھی کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ آپ حال ہی میں جنوبی افریقہ میں بھی تھے۔ اس نظریے کو مجرمانہ قرار دینے کی کیا ضرورت ہے؟ ۔ انہوں نے کہا کہ 1975میں تو اقوام متحدہ نے ہی ایک قرار داد پاس کرکے صہیونیت کو نسل پرستی کے ساتھ تعبیر کیا تھا۔ ’’آپ کو معلوم ہے کہ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کاپوری دنیا نے بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ آخر جب جنوبی افریقہ کی سابقہ حکومت کو نسل پرستی کی حمایت کرنے کا خمیازہ بھگتنا پڑا، تو آخر اسرائیل کو کیوں نہیں بھگتنا پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 1991میں جب فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ اوسلو میں ہموار ہو رہی تھی، تو اسرائیل کو رعایت دیکر اقوا م متحدہ نے صیہونیت سے متعلق قرار داد کو واپس لیا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس قرار داد کو فی الفور بحال کرایا جائے اور اسرائیل کے خلاف وہی پابندیاں لگائی جائیں، جو جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے خلاف لگائی گئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ صیہونیت مجرموں کی تخلیق ہے جو دوسرے لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں اور لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ وہ یہودیت کے نجات دہندہ کیسے ہو سکتے ہیں؟ کیا اسرائیل کے قیام سے دنیا میں یہودیوں کی سلامتی میں اضافہ ہوا ہے؟ ۔ میں نے بھی ان سے آخری سوال پوچھا کہ عیسائیوں کی نسبت یہودیوں کا مسلم حکمرانوں کے ساتھ کیسا تحربہ رہا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ جب کوئی انسانی حقوق کا ادارہ تھا نہ اقوام متحدہ تھی، تو یہودیوں کو اسلامی مملکتوں نے ہی سہارا دیا۔یہودیوں کو مسلمانوں کا شکر گزار ہونا چاہیے۔’’ پہلے عربوں اور پھر سلطنت عثمانیہ نے ہمیں بچایا۔ صیہونی انہیں دشمن یہود کیسے کہہ سکتے ہیں؟ ‘‘ انہوں نے بتایاکہ انکی اہلیہ کے دادا استنبول میں ہی دفن ہیں۔ وہ سلطنت عثمانیہ میں پروان چڑھے اور خاندان کو بتا تے رہے کہ یہودیت صرف مسلمان حکمرانوں کی وجہ سے باقی رہی، ورنہ اس کو تباہ برباد کرنے میں یورپ اور عیسائی حکومتوں نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ۔