بھٹو چاہتا تھا کہ وہ کسی طرح اپنے مخالفین کو انتخابی سیاست سے بھی باہر کر دے، اور وہ اس سلسلے میں کسی نہ کسی بہانے کی تلاش میں تھا۔ حیات محمد شیر پائو اس کا بااعتماد ساتھی تھا، جو دسمبر 1967ء سے پیپلز پارٹی صوبہ سرحد کا صدر چلا آ رہا تھا۔ شیر پائو 8 فروری 1975ء کو پشاور یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کی ایک تقریب میں بم دھماکہ میں ہلاک ہو گیا۔ اس سانحے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے، بھٹو دو دن بعد ہی قومی اسمبلی میں ایک آئینی ترمیمی بل لے کر آ گیا، جس کے تحت حکومت کو یہ اختیار دے دیا گیا تھا کہ وہ کسی بھی ایسی سیاسی پارٹی کو خلافِ قانون قرار دے سکتی تھی،جو ملک کی سلامتی اور خود مختاری کے خلاف کارروائیوں میں ملوث پائی گئی ہو۔ اس ترمیم کے منظور ہونے کے فوراً بعد نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔ پارٹی کے تمام دفاتر قبضے میں لے لئے گئے اور ولی خان، ارباب سکندر خلیل، بزنجو، عطاء اللہ مینگل اور خیر بخش مری سمیت سینکڑوں افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ قانوناً اس پابندی کے فیصلے کی عدالت سے توثیق ضروری تھی۔ جون 1975ء میں اٹارنی جنرل پاکستان یحییٰ بختیار یہ مقدمہ لے کر سپریم کورٹ پہنچے۔ حیران کن بات یہ تھی کہ نیشنل عوامی پارٹی کے وکیل محمود علی قصوری تھے، جو کبھی بھٹو کے وزیر قانون ہوا کرتے تھے، مگر بھٹو کے آمرانہ روّیوں کی وجہ سے وہ اسے چھوڑ گئے تھے۔16 جون 1975ء سے 17 ستمبر 1975ء تک تین ماہ سماعت ہوتی رہی۔ غدّاری کی گونج عدل کے ایوانوں میں گونجتی رہی اور بالآخر 30 اکتوبر 1975ء کو سپریم کورٹ نے ایک ایسی سیاسی پارٹی کو کالعدم قرار دے دیا جس کے ساتھ پاکستان کے چھوٹے صوبوں کے لاکھوں افراد کے دل دھڑکتے تھے۔ تاریخ نے ان عالی مقام ججوں کے نام بھی محفوظ کر رکھے ہیں کہ جن کی عزت و ناموس کی آج بھی دہائی دی جاتی ہے۔ چیف جسٹس حمود الرحمن تھے اور دیگر میں جسٹس یعقوب علی اور جسٹس افضل چیمہ بھی تھے۔ حمود الرحمن تو اپنی مشہورِ عام رپورٹ کی وجہ سے آج بھی جانے جاتے ہیں، جو انہوں نے 1971ء کے سانحے پر مرتب کی تھی۔ یعقوب علی کو عزت اس لئے ملی کہ اسے ضیاء الحق نے نکالا تھا اور جسٹس افضل چیمہ تو وہ ہیں کہ جب ایوب خان کو اپنی صدارت بچانے کے لئے، آئینی ترمیم کی ضرورت پڑی تو جن دو اپوزیشن اراکین اسمبلی نے ووٹ دیا تھا، وہ افضل چیمہ اور مولانا مفتی محمود تھے۔ اسی ووٹ انعام میں تو انہیں جج بنایا گیا تھا۔ نیشنل عوامی پارٹی کو کالعدم قرار دینے، حیدر آباد ٹربیونل میں سیاسی مخالفین کے خلاف بغاوت کا مقدمہ شروع کروانے اور اپوزیشن سے اُٹھنے والی آوازوں کو جیل میں بدترین تشدد سے خوفزدہ کرنے اور ’’ناقابل اصلاح لیڈران‘‘ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے بعد یوں لگتا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی اس آندھی کو اب شاید کوئی نہیں روک سکے گا۔ بلوچستان میں آرمی ایکشن شروع تھا اور صوبہ سرحد میں دھماکے جاری تھے۔ ہزاروں لوگ ہجرت کر کے افغانستان جا چکے تھے۔ ایک ایسی مایوسی کی فضا تھی کہ جیسے اب بھٹو کو موت ہی اقتدار سے علیحدہ کر سکتی ہے۔ سول سروسز کے بارے میں بھٹو نے آئین میں موجود تمام تحفظات ختم کر دیئے تھے اور اب تمام سول آفیسران اس کے ایک اشارۂ ابرو پر نوکری سے نکالے جا سکتے تھے۔ دوسری آئینی ترمیم سے عدلیہ کے اختیارات کو کنٹرول کر لیا گیا تھا۔ یوں لگتا تھا اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ بھٹو کے اپنے ساتھی اس کے عتاب کا شکار ہو رہے تھے۔ اس روّیے کا آغاز اس دن سے ہی ہو گیا تھا جب پارٹی کے نظریاتی رہنما اور سیکرٹری جنرل جے اے رحیم کے گھر کچھ ’’نامعلوم افراد‘‘ کو بھیج کر زدوکوب کروایا گیا، خوفزدہ کیا گیا اور پھر وہ شریف انسان مکمل طور پر خاموش ہو کر رہ گیا۔ بھٹو کے لئے ’’شٹل کاک‘‘ کہلانے والا غلام مصطفی کھر، بھٹو کے جذبۂ نفرت کی زد میں آیا تو اس کے ساتھیوں افتخار تاری وغیرہ کو ’’لاپتہ‘‘ کر دیا گیا۔ یہ پاکستان میں لاپتہ کرنے کا آغاز تھا۔ عطاء اللہ مینگل کا صاحبزادہ اسد مینگل 6 فروری 1976ء کو کراچی میں بلخ شیر مزاری سے ملنے جا رہا تھا کہ چند ’’نامعلوم افراد‘‘ نے اس کی گاڑی کو روکا اور پھر اسے بھی ’’لاپتہ‘‘ کر دیا گیا جو آج تک ’’لاپتہ‘‘ ہی ہے۔ نازک مزاج مصور حنیف رامے پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ وہ کبھی بھٹو کے جلسوں کو اپنی تقریروں سے گرمایا کرتا تھا۔ اچانک بھٹو کی ناراضگی کا نشانہ بن گیا۔ ایک دَم وزارتِ اعلیٰ کی کرسی سے سیدھا تھانے کے حوالات پہنچا دیا گیا۔ اس کی بیوی شاہین حنیف رامے کبھی اِس تھانے اور کبھی اُس تھانے اپنے میاں سے ملاقات کے لئے دربدر پھرا کرتی، مگر کوئی ملنے تک نہ دیتا۔ یہ تھے وہ حالات جن میں یوں لگتا تھا، اب اس ملک میں سیاسی سطح پر سانس تک لینا بھی دشوار ہو چکا ہے۔ لیکن قضا و قدر کی اپنی تکوین ہے۔ اس کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں جس کے لئے وہ کسی فرد یا واقعے کی بھی محتاج نہیں۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اللہ نے ہمیشہ ہر اس شخص کو بدترین انجام سے دوچار کیا، جس نے استکبار کیا۔ فرعون کے بارے میں بھی جب یہ فیصلہ ہوا کہ اسے غرق کیا جائے تو اللہ فرماتا ہے کہ وہ زمین پر ’’بڑا‘‘ بن بیٹھا تھا۔ بھٹو کے آخری دو سال بھی ایسے ہی تھے۔ مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن کا کردار اور بلوچستان کا قصاب جنرل ٹکا خان اس کا ہم رکاب تھا۔ اس دَور میں اس کی خدمات اس قدر تھیں کہ بعد میں پیپلز پارٹی نے اسے نہ صرف اپنا سیکرٹری جنرل بنایا، بلکہ گورنر پنجاب بھی لگایا۔ ٹکا خان نے ریٹائرمنٹ سے پہلے تحریری طور پر لیفٹیننٹ جنرل محمد اکبر خان کا نام آرمی چیف کے لئے تجویز کیا۔ بھٹو نے اسے اپنے لئے ایک ایسا مشورہ خیال کیا جو ایک ماتحت نے دیا ہے اور جو اس کی انّا پر ایک بوجھ تھا۔ اس کے ذہن میں ٹکا خان کو ایکسٹیشن دینے کا خیال بھی نہ آیا اور یوں 29 فروری 1976ء کو ضیاء الحق کو سات جرنیلوں پر فوقیت دے کر چیف آف آرمی سٹاف بنا دیا گیا۔ بھٹو اس قدر پُر اعتماد تھا کہ اب اس کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ اسی ناقابلِ تسخیر اعتماد کی وجہ سے اس نے 7 جنوری 1977ء کو ایک سال قبل ہی انتخابات کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب تاریخ ہے۔ اس تاریخ میں ایک سبق چھپا ہوا ہے، کہ وقت ہمیشہ اسی وقت بدلتا ہے جب کسی ملک کی واضح اکثریت پر مایوسی، بددلی اور بے یقینی چھا جائے اور کوئی راستہ سجھائی نہ دے۔ ایسے میں لوگ وہ سب کچھ پھر کر گزرنے پر تیار ہوتے ہیں جیسا انہوں نے 1977ء میں کر دکھایا تھا۔ یہ 45 سال پرانی بات ہے۔ اس وقت پاکستان کی آبادی صرف نو کروڑ تھی اور آج بائیس کروڑ ہے۔ اس وقت نوجوانوں کی تعداد صرف بیس فیصد تھی اور آج 63 فیصد ہے۔ لیکن عوام کے اس جم غفیر کے مقابلے میں قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کی نہ تو تعداد میں کچھ خاص اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی ان کی صلاحیت بہتر ہوئی ہے۔ اس وقت ملک میں صرف تیس کے قریب بڑے شہر تھے اور آج ان کی تعداد ڈیڑھ سو ہو چکی ہے۔ اس وقت صرف اخبار ہی تھے اور آج ٹیلی ویژن چینلوں کے علاوہ سترہ کروڑ افراد کے پاس موبائل ہیں جو ایک جیتا جاگتا چینل ہے۔ صرف تیس شہروں میں مسلسل احتجاج نے بھٹو حکومت کو بے بس کر دیا تھا۔ جبکہ آج ایسے دو سو سے زیادہ قصبات اور شہر ہیں جہاں احتجاج حکومت کو دیوار سے لگا سکتا ہے۔ کچھ بدلا تو پھر وہ 1977ء کی طرح نہیں ہو گا بلکہ شاید اب کہ سب کچھ ہی بدل جائے۔ آج جس کسی کو بھی اپنی طاقت پر جتنا بھی گھمنڈ ہے وہ اتنا ہی خاک میں مل سکتا ہے۔ (ختم شد)