سالوں سے ایڈہاک پر چلتا ہوا پاکستان کا نظام اب جگہ جگہ سے پریشر ککر کی طرح پھٹنے لگا ہے۔آئے روز کے سانحات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے کرتا دھرتا اہل اختیار اور اہل اقتدار نے کبھی اس ملک کے 95 فیصد عوام کے لیے سوچا ہی نہیں۔ نظام کو اس نہج پر نہیں بنایا گیا، جس میں پاکستان کا عام آدمی بھی عزت کی زندگی جی سکے ،معاشی اور سماجی طور پر آسودگی محسوس کرے۔ چند دن نہیں گزرتے کہ ایک نیا سانحہ برپا ہوتا ہے۔ اور پاکستان میں کہیں نہ کہیں عام آدمی پر گویا قیامت بیت جاتی ہے۔ تکلیف سے دو چار عام آدمی کی زندگی کے مظاہر پاکستان میں ہر طرف بکھرے پڑے ہیں۔ موٹروے پر سفر کرتا ہوا جل کر مرتا ہے تو عام آدمی ٹرین کے حادثے کا شکار ہو تا ہے تو عام آدمی۔عدالتوں تھانوں سرکاری دفتروں میں اپنے جائز کاموں کے لیے ذلیل و خوار ہوتا ہے تو عام آدمی!ہسپتال میں دوا نہ ملنے سے مرتا ہے تو عام آدمی!آئے روز کے حادثوں اور سانحات میں کبھی کسی مقتدر اشرافیہ کے مرنے یا اذیت سے دوچار ہونے کی خبرنہیں ملتی۔ طبقہ اشرافیہ ہر حالات میں محفوظ و مسرور رہتا ہے۔ اس لیے کہ وہ مسائل سے ابلتے اسی پاکستان کے اندر۔ایک الگ منطقے پر زندگی گزارتے ہیں۔اور اس منطقے پر موجود نظام ان کی حفاظت پر مامور ہے اس نظام کا ایک ایک پرزہ ان کی عیاشی اور آسودگی کے لیے مصروف عمل ہے۔ ایک ہی پاکستان میں پاکستانی عوام اذیت اور خواری کے صحراؤں میں زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹتے ہیں جبکہ ان پر حکمرانی کرنے والا طبقہ انکی اذیت سے بے خبر چین کی بانسری بجاتا ہے۔ ہم عجیب بدقسمت قوم ہیں ہر دفعہ ایک نیا سانحہ جنم لیتا ہے اس حادثے کے ساتھ ہی عوامی مسائل حکمرانوں کی نااہلی اور بے حسی کا ایک نیا دبستان کھل جاتا ہے۔ بٹ گرام میں چیئر لفٹ کے کیبل ٹوٹنے کا سانحہ بھی اپنے نوعیت کا منفرد حادثہ تھا جو شکر ہے کسی بہت بڑے خوفناک سانحے میں تبدیل نہیں ہوا لیکن یہ سچ ہے کہ اس سے پہلے بٹ گرام اور الائی اور اس نوع کے دوسرے دور دراز پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی مشکل اور سہولیات سے نابلد زندگی کبھی اس طرح لائم لائٹ میں نہیں آئی تھی کہ پاکستان کے تمام ٹی وی چینلوں پر پرائم ٹائم میں خبروں کا حصہ بن جائے۔جیسی زندگیاں دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں رہنے والے غریب پہاڑی لوگ گزار رہے ہیں، دنیا سے ان کا مقابلہ کیا جائے یا پاکستان کے بہتر علاقوں سے ان کا موازنہ کیا جائے تو صدیاں پیچھے نظر آتے ہیں۔ یہاں سے منتخب نمائندے اسمبلیوں میں جاتے ہیں۔ سیاست میں حصہ لیتے ہیں اور ایوانوں میں آ کر عوام کی تقدیر بدلنے کے دعوے بھی کرتے ہیں۔ کے پی کے میں تحریک انصاف کی 10 سالہ حکومت کا تذکرہ کیا کرنا ،باقی سیاستدان بھی جو یہاں کے عوامی نمائندے ہیں وہ جن کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں ان کے دکھوں کی چارہ گری کرنے سے ہر ممکن گریز کرتے ہیں۔ان کے خیال میں یہ لوگ ایسی زندگیوں کے عادی ہیں اس لیے وہ ان کی تکلیف اور ان کی اذیت کا احساس نہیں کرتے۔ شاید آج بھی ہم اس ایشو پر بات نہ کر رہے ہوتے کہ اگر 22 اگست کو اپنے سکول کے لیے جانے والے سات طالب علم اپنے ایک استاد کے ہمراہ معمول کے مطابق موت کے پل صراط سے لٹکتے ہوئے باحفاظت اپنے سکول پہنچ جاتے۔ لیکن اس روز ابھی سفر کا آغاز ہی ہوا کہ تین میں سے دو کیبلز ٹوٹ گئیں اور وہ چئیر لفٹ میں 600فٹ کی بلندی پر ہوا میں معلق ہو گئے۔ یوں 15 گھنٹے تک موت کے پل صراط سے لٹکے رہے۔اس کے بعد کی کہانی پورے پاکستان کو ازبر ہے کہ کس طرح خبر پرائم ٹائم میڈیا تک پہنچی اگلے کئی گھنٹوں اعصاب شکن اذیت میں گزرے۔ پاکستانی قوم سراپا دعاہوگئی، لوگ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے گویا تکلیف اور اذیت کی سولی پر لٹکے رہے۔ پاک فوج اور پاکستان فضائیہ کے کمانڈوز نے کئی گھنٹے آپریشن میں حصہ لیا بار بار یہی بتایا جاتا رہا کہ آپریشن بہت مشکل ہے ادھر ڈولی میں لٹکے ہوئے افراد کی زندگیاں ایک تار سے بندھی ہوئی تھیں۔ اور نیچے ہزاروں میٹر کی کھائیاں تھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے گھر والے کس اذیت سے دوچار ہوں گے، خود ہماری حالت یہ تھی کہ دیکھا نہیں جا رہا تھا میں خود آیت کریمہ کی تسبیحات کر کے اور رو کر ان کے لیے دعائیں مانگتی رہی اور میں نے اپنا موبائل اور ٹی وی آف کر دیا کیونکہ میں مزید نہیں دیکھ پا رہی تھی پھر پتہ چلا کہ پاک فوج کے ساتھ وہاں کے مقامی نوجوانوں نے انتہائی جرات اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان مصیبت زدوں کی زندگیوں کو بچایا ،یہ دو بہادر نوجوان ہیں جنہوں نے اپنی زندگی داؤ پر لگا کر کسی خاص تربیت کے بغیر اپنے گاؤں کے باسیوں کی زندگیاں بچائیں۔ ان کے لیے تمغہ شجاعت کا اعلان ضرور ہونا چاہیے لیکن سب سے بڑا اعلان اور انعام یہ ہوگا کہ ایسے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں رہنے والوں کی زندگیاں آسان کی جائیں۔ ان کے گاؤں میں سکول تعمیر کیے جائیں آمد و رفت کے لیے ایک گاؤں کو دوسرے گاؤں سے ملانے کے لیے سڑکیں بنائی جائیں۔خود ساختہ چیئر لفٹوں پر آمد و رفت کرنے والے ان لوگوں کی زندگیاں موت کے کنویں میں چکر لگانے کے مترادف ہیں ۔ ان کے بچے روزانہ موت کے پل صراط سے گزرتے ہیں۔ یہ لوگ بھی ٹیکس دہندگان ہیں، آ ٹے سے لے کر گھی چاول چینی ماچس تک ہر چیز پر ٹیکس دیتے ہیں اور ان کو اس ٹیکس کے بدلے میں کیا ملتا ہے موت کی کیبل سے لٹکی ہوئی زندگی۔۔!