چند دانشور کہتے ہیں کہ حماس کو کیا ضرورت تھی کہ اسرائیل پر چڑھائی کر دی؟اسرائیل کے پیچھے امریکا ہے اور اس کے ساتھ یورپ کھڑا ہے۔حماس بظاہر ایسی قوت تو ہے نہیں کہ اس قدر بڑی طاقتوں کا مقابلہ کرسکے۔حماس کے پاس نہ جدید اسلحہ ہے نہ فوجی طاقت۔چالیس کلو میٹرلمبی اور دس کلو میٹر چوڑی پٹی پر بسنے والے فلسطینیوں نے سات اکتوبر کو ایک دم اسرائیل کو جا لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں کو ایک منصوبہ بندی کے ساتھ عرب نام نہاد اسلامی ملکوں کے بیچوں بیچ لا بسایا گیا تھا۔یہ بات اس وقت بھی دیکھی اور سمجھی جارہی تھی کہ یہ ایک ناجائز ریاست ہے جو عالم اسلام کے سینے میں ایک خنجرکی طرح پیوست کی گئی تھی۔عربوں نے مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کے قبضے سے چھڑایا تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مال و دولت کی فراوانی اور عیش وعشرت نے عربوں کو اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ اپنے ایمانی تقاضے پورا کرتے اور اس خنجر کو واپس یہودیوں کے سینے میں پیوست کر دیتے۔ان دانشوروں نے دیکھا ہو گا کہ گزشتہ پون صدی سے یہودیوں نے یہاں کی مسلم اکثریت کو امریکا کی پشت پناہی سے جینے کا حق چھین لیا،ان کی بستییاں تاراج کر دیں،فلسطینی ریاست کو غرب اردن اور محض غزہ کی پٹی تک محدود کردیا۔غزہ کی محصور آبادی پر روزانہ راکٹ پھینکے جاتے ہیں۔ہزاروں لوگ شہید،ہزاروں بچے تہہ تیغ کر دیے گئے۔کسی ’’دانشور‘‘ کے کان پر جوں نہیں رینگی۔کوئی نہیں پوچھتا کہ جو یہودی فرانس ،اٹلی اور جرمنی میں کتے کی موت مر رہے تھے انہیں فلسطینیوں کی زمینوں پر کیوں لا بسایا گیا؟کوئی نہیں بولتا کہ انہیں ہٹلر نے ان کے کرتوتوں کی وجہ سے موٹ کے گھاٹ اتار دیا تھا۔جب ان یہود نے فلسطینوں کو ایک ساحلی پٹی تک محدود کر دیا ،ان کے بچے بھوک اور پانی کی طلب مین بلبلاتے رہے،وہ ہر روز لاشے اٹھاتے اور مدد کے لیے پکارتے رہے،تب کسی دانشور کے پیٹ میں مروڑ کیوں نہ اٹھا، تب بھی کسی کو ندامت نہیں ہوئی کیوں؟ کیادنیا کا ضمیر مر گیا ؟مارتے ہیں اور آہ بھی نہیں کرنے دیتے۔ایک جانب مسلمان دانش فروش ہیں اور دوسری طرف مگربی دنیا جن کے ضمیر ابھی زندہ ہیں،لندن میں ہیومن رائٹس واچ کے قانونی مشیر کلائیو بالڈون نے اتوار کے روز مغربی ممالک کی اسرائیل کی اندھی طرف داری کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ رحمہ زین نامی ایک مصری خاتون صحافی نے CNN کی نامہ نگار کلریسا وارڈ سے بات کرتے ہوئے اسے اسرائیل کی اندھی حمایت پر ڈانٹ دیا۔ انہوں نے امریکی ٹی وی کی اینکر سے کہا کہ''آپ صرف ایک کٹھ پتلی ہیں کیونکہ آپ غزہ پر جنگ کی امریکی اور مغربی کوریج کو گمراہ کن انداز میں پیش کررہی ہیں‘‘۔زین اس وقت مصر اور غزہ کی پٹی کے درمیان رفح کراسنگ کے مصری جانب موجود تھی۔ اس نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مغربی میڈیا پر سخت تنقید کی۔ سی سی این کی نامہ نگار پر تنقید کا یہ ویڈیو سوشل میڈیا سائٹس پر نشر کیا گیا جو تیزی کے ساتھ وائرل ہوا۔ اس کی آواز سننے کے اصرار کے باوجود رپورٹر نے فیٹ کمپلی کے سامنے عرض کیا اور کہا: ''اگر آپ نے واقعی میری بات سنی تو آپ جس چینل کے ساتھ کام کرتی ہیں، اس سے استعفیٰ دے دیں گے، آپ کی انسانیت کہاں ہے؟'' آپ کے ملک نے اسرائیل کو ہری جھنڈی دی، اور وہ پوری اجازت کے ساتھ فلسطینیوں کو مارتے اور ذبح کرتے ہیں، ذرا تصور کریں کہ ان بچوں اور شیر خوار بچوں کو بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس بمباری کی آوازیں ہم یہاں سنتے ہیں‘‘۔ اس نے کہا کہ''آپ کا چینل کہاں ہے؟ کیا ہو رہا ہے رپورٹ کریں۔ سچ بتاؤ۔ میں سمجھتی ہوں کہ تم صرف ایک ملازم اور کٹھ پتلی ہو، آؤ مجھ سے بات کرو اور میرے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کرو، میں سمجھتی ہوں کہ تمہاری اپنی خارجہ پالیسی ہے اور جان لو کہ آپ اپنی حکومت کی طرف سے بول رہے ہیں۔ اس نے طنزیہ انداز میں مزید کہا کہ ''یہ کہا جاتا ہے کہ آپ ایک ایسا ملک ہیں جو اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں؟!آپ ہی ہیں جنہوں نے قبضے اور قتل عام کو ہم نے دیکھا ہے۔ یہ آپ کی خاموشی، جھوٹ اور گمراہ کن کا نتیجہ ہے۔ ''زین نے کہا کہ ''ہم فلسطینیوں اور عربوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آپ حقائق کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ آپ ان کے مالک ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی داستان آپ کے پاس ہے۔ آپ اقوام متحدہ اور ہالی ووڈ کو کنٹرول کرتے ہیں فلم انڈسٹری اور میڈیا کولیکن ہماری آوازیں کہاں ہیں؟'' ''ہماری آوازیں سنی جانی چاہئیں''۔ امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے کہا ہے کہ ''حساس قرار دی گئی ملاقاتوں کے دوران امریکی حکام نے اچانک طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد اسرائیلی رہ نماؤں کی کمزوری کو محسوس کیا۔'' اخبار نے حزب اللہ پر اسرائیلی حملے روکنے کے لیے سینیر امریکی حکام کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کا انکشاف کیا۔اس نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی جنگی منصوبہ بندی کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ کے خدشات کے بارے میں بات کی، یہاں تک کہ الجزیرہ نیٹ کے شائع کردہ کے مطابق دونوں حکومتیں ایک متحد اور مضبوط محاذ کے طور پر عوامی طور پر ظاہر ہونا چاہتی ہیں۔اس میں دونوں جماعتوں کے عہدیداروں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’’امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے سینیر معاون تل ابیب پر زور دے رہے ہیں کہ وہ حزب اللہ کے خلاف کوئی بڑا حملہ نہ کرے، تاکہ اسے جنگ میں نہ گھسیٹا جائے۔‘ہمارے اندھے دانشور جو ڈرائینگ روم بیٹھ کر حماس کو نشانہ بناتے ہیں۔کیا وہ بتا سکتے ہیںکہ حماس کو کیا کرنا چاہیے تھا؟