وطن عزیز کی سیاست میں عجیب و غریب غیر یقینی کی صورت حال ہے۔ اپوزیشن کی تمام جماعتیں متحد ہیں اور یقین رکھتی ہیں کہ حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں، دوسری طرف عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی بھی بلند حوصلہ نظر آتے ہیں اور قوم کو یقین دلا رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گی۔حکومت کے اتحادی دنوں نہیں گھنٹوں کے حساب سے اپنے بیانات بدلتے ہیں اور دونوں اطراف کو امید وبیم کی کیفیت سے دوچار کئے ہوئے ہیں۔ وہ جس پارٹی سے ملاقات کرتے ہیں اسے دلاسہ دے دیتے ہیں اور آخر میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا اور حتمی فیصلہ ضروری مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔مشاورت مسلسل جاری ہے اور امید ہے کہ قومی اسمبلی کے حتمی اجلاس سے پہلے مکمل ہو جائے گی۔یہ تصور بھی پاکستان میں عام ہے کہ اتحادی مقتدرہ قوتوں کے اشارے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔اداروں کے نیوٹرل ہونے کے باوجود اتحادی منتظر ہیں کہ کوئی نہ کوئی اشارہ موصول ہو تو حتمی فیصلہ کریں۔ یہ خبر بھی عام ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان میں Regime changeکے درپے ہیں کیونکہ وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ کی مداخلت کے سوال پر Absolutely notکہہ کر امریکہ کے غضب کو دعوت دی ہے۔ وزیر اعظم کے کامیاب دورہ روس کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ امریکہ کی خواہش کے خلاف کیا گیا ۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یورپین سفیروں نے پاکستان پر دبائو ڈالنا چاہا کہ روس کے یوکرائن پرحملے کی مذمت میں وہ امریکہ اور یورپ کا ساتھ دے۔ ان کی یہ حرکت یقینا سفارتی آداب کے منافی تھی اور وزیر اعظم نے نہ صرف یہ دبائو ماننے سے انکار کیا بلکہ اس کا جواب ایک عوامی اجتماع میں دیا جس سے اجتناب کرنا چاہیے تھا۔اس کا جواب اگر سفارتی سطح پر ہی دیا جاتا تو بہت بہتر ہوتا لیکن جس طرح جناب شہباز شریف نے Absolutely not والے بیان پر تنقید کی ہے اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ بیرونی طاقتوں کو اپنی وفاداری اور مستقبل میں فرمانبرداری کا یقین دلا رہے ہیں۔انہوں نے غیر ملکی صحافی کے سوال پر بھی غور کرنا مناسب نہیں سمجھا جس کے جواب میں یہ بیان دیا گیا تھا۔سوال یہ تھا کہ کیا پاکستانی حکومت امریکی ایجنسیوں اور افواج کو پاکستان کے راستے آپریشن کرنے کی اجازت دی گئی۔اس کا جواب تو کسی بھی پاکستان محب وطن لیڈر کی طرف سے یہی ہونا چاہیے تھا۔اس جواب کے ساتھ یہ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم امن کی کوششوں میں امریکہ کے ساتھ ہیں لیکن ہم کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے ہم پہلے ہی امریکی جنگ کا حصہ بن کر اسی ہزار جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔پتہ نہیں شہباز شریف کس جواب کی توقع رکھتے تھے۔اگر وزیر اعظم پاکستان میں اڈے دینے کی حامی بھر لیتے تو پورا ملک ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا اور یہی اپوزیشن رہنما وزیر اعظم کے لتے لے رہے ہوتے۔ حمزہ شہباز بھی اپنے والد سے پیچھے نہیں رہے اور یورپی سفیروں کو جواب دینے پر وہ بھی وزیر اعظم پر معترض ہیں۔انہی باتوں سے بو آتی ہے کہ ہو نہ ہو کوئی غیر ملکی سازش ضرور بروئے کار ہے، جس نے متضاد نظریے کی حامل ساری جماعتوں کو عمران خان کے خلاف متحد کر دیا ہے۔ عمران خان نے اپنے جلسوں میں بھی قوم کا خون خوب گرمایا ہے اور پاکستان کے عام لوگ جو کہ اگرچہ پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں ہیں لیکن غیر ملکی مداخلت کے خلاف عمران خان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ بعض مبصرین کے مطابق عمران خان کی عوامی مقبولیت کا گراف یقینا اس وقت ایک بلند سطح پر ہے۔ آئی ایس پی آر کی مسلسل یقین دہانیوں کے باوجود سیاسی جماعتیں فوج کو سیاست میں گھسیٹنے سے باز نہیں آ رہیں۔ہر سیاسی جماعت کی کوشش ہے کہ اپنے کارکنوں کو یقین دلا دے کہ فوج ان کے ساتھ ہے۔ وزیر اعظم کے نیوٹرل والے بیان نے بھی کافی بدمزگی پیدا کی ہے اور ہر شخص نے اسے اپنی مرضی کے معانی پہنائے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن کی کسی بھی جماعت نے اپنا مستقبل کا لائحہ عمل عوام کے سامنے پیش نہیں کیا کہ وہ کس طریقے سے مہنگائی پر قابو پائیں گے اور کیا بنیادی تبدیلیاں لائیں گے۔ شہباز شریف پے درپے انٹرویو دے رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ سوال اور جواب پہلے سے طے شدہ ہیں کیونکہ نہ کوئی ان سے اگلی حکومت کے طریقہ کار کا سوال پوچھتا ہے اور نہ وہ جواب دیتے ہیں۔اپنی تقریروں کے بعد بھی غیر جانبدار صحافیوں کے سوالوں کے جواب دینے سے وہ احتراز کرتے ہیں۔اپوزیشن کی سب جماعتیں بس ایک نکتے پر متفق ہیں کہ عمران خان کو نکالا جائے اس لئے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں بھی قوم کو یہ توقع رکھنی چاہیے کہ بحران ختم نہیں ہو گا بلکہ مزید بڑھ جائے گا۔ عمران خان اپنی تقریروںمیں دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی جیب میں ابھی کافی کارڈز باقی ہیں اور یہ کہ وہ اپوزیشن کو سرپرائز دیں گے۔عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ اسمبلی میں ووٹ کی جنگ کو ووٹ تک ہی محدود رکھیں Technical delaysکرنے کی بجائے میدان میں شکست کھا جانا کہیں بہتر ہے۔تحریک عدم اعتماد ایک دستوری حق ہے دونوں فریقین میں سے ایک جیتے گا۔ اسے زندگی اور موت کا مسئلہ نہ بنایا جائے جیتنے یا ہارنے دونوں صورت میں وزیر اعظم کو اپنے مخلص ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے تاکہ پتہ چلے کہ نوبت یہاں تک کیوں پہنچی ہے۔سوشل میڈیا پر لگائے گئے الزامات اب ٹیلی ویژن سکرینوں کی زینت ہیں۔صرف تقریر کے زور سے انہیں جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ وسیم اکرم پلس پرکرپشن الزامات ایک غیر جانبدار تحقیقات کے متقاضی ہیں۔ان کی جماعت کا ایک گروپ عثمان بزدار کو نکالے بغیر بات چیت پر ہی آمادہ نہیں ہے۔آنکھیں بند کر لینے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔غیر ملکی تحائف کا ذکر اب میڈیا پر بھی ہو رہا ہے۔ان معاملات کو چھپانے کی بجائے اب حل کرنے کی ضرورت ہے ۔مدینہ کی ریاست کی بات کرنے والوں کو حضرت عمر فاروقؓ کی سنت پر عمل کرنا پڑے گا جو اپنے بیٹے کو بھی نہیں بخشتے تھے۔مدینہ کی ریاست بنانے کا واحد طریقہ عمل کی سیاست ہے۔ تقریروں سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ہمارے ادارے بھی ملکی سیاست سے اتنے لاتعلق نہ ہو جائیں کہ غیر ملکی ایجنسیاں ہمارے ملک میں دندناتی پھریں۔ہمارے ملک کی سالمیت ہمارے قومی اداروں کی اولین ذمہ داری ہے اسے کسی طرح بھی آنکھوں سے اوجھل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس ذمہ داری سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ہمارے سپاہی ہر روز شہادتیں پیش کر رہے ہیں اور وطن کی آزادی کو اپنے لہو سے سینچ رہے ہیں۔بڑے عہدوں کی ذمہ داریاں بھی بڑی ہوتی ہیں ۔آزمائش کی گھڑی بار بار نہیں آتی۔وطن کی آزادی ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہے۔