پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کو یہ توقعات تھیں مملکت خداداد میں ان کی زندگی اسلامی طریقوں کے ساتھ آسان تر ہو گی اور کسی قسم کا خوف اور مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں اِس ملک کی اصلی حکمرانی بیورو کریسی اور سیاست دانوں کے پاس ہے۔ جو بعد میں طاقت ور حلقوں کے سامنے سر نڈر کر کے عوام کے حقوق تباہ کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں بیورو کریسی بر سرا قتدار لوگوں کے ناک کا بال بن کر اْن کو انگریزوں سے ملنے والے سبق کے مطابق انداز حکمرانی سیکھاتی ہیں۔ آج بھی کسی ضلع کا اصل حکمران ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او ہی ہوتا ہے۔ سارے ضلع کی پولیس ڈی پی او کے لا محدود اختیارات ہی وجہ سے اْس کے سامنے بے بس ہوتی ہے۔ اِسی طرح سے پورے ضلع کی انتظامیہ ڈپٹی کمشنر کے ماتحت ہوتی ہے اور ضلع کے تمام محکموں کا چیئرمین بھی ڈی سی ہی ہوتا ہے تمام ترقیاتی کاموں کے اجلاس ڈی سی کی صدارت میں منعقد ہوتے ہیں اور اْسی کی منظور ی سے فنڈزوغیرہ ریلز کیے جاتے ہیں۔ بابائے قوم قائد اعظم کی رحلت کے بعد اِس ملک پر بیورو کریسی، جا گیرداروں اور سرمایہ داروں نے ایسا جال بچھایا کہ عوام اْسی دن سے لے کر آج تک غریب سے غریب تر ہو تے جا رہے ہیں اور اشرافیہ مزید طاقت ور اور دولت مند ہوتے جا رہے ہیں۔ اِن حالات میں آغا شورش کاشمیری کی طرف سے مولانا ابو الکلام آزاد سے لیا گیا وہ انٹرویو سامنے آتا ہے کہ جب مولانا ابو الکلام آزاد نے شورش کاشمیری کے ایک سوال کے جواب دیتے ہوئے ہوئے کہا تھا کہ شورش میری بات یاد رکر لو کہ پاکستان میں صرف جاگیرداروں، بیورو کریسی (افسر شاہی) اور سرمایہ داروں کی حکومت اور اجارہ داری ہو گی عوام کی قسمت ہر گز نہیں بدلے گی ’’بلکہ عوام پہلے سے زیادہ خوار ہو نگے‘‘ ۔ 76برس گزر چکے ہیں ملک کو معرض وجود میں آئے ہوئے لیکن عوام مزید ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اور کوئی ایسا ستم باقی نہیں بچا جو عوام پر نہ کیا گیا ہو۔ عوام کا اِن مشکل حالات میں جینا محال ہو چکا ہیۃ پی ڈی ایم کی 17 ماہ قائم رہنے والی حکومت نے عوام کو ماسوائے مہنگائی اور غربت کے اور کچھ نہیں دیا ۔شہباز شریف،مولانا فضل الرحمن اور آصف زرداری نے جو مہنگائی کا ایٹم بم عوام پر چلایا ہے وہی بم اب موجودہ عبوری حکومت چلا رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو تو ملک کے غریب عوام پر واپڈا کی طرف سے ڈھائے گئے ظلم کے خلاف بھی کوئی جان دار بیان دینا چاہیے۔ واپڈا والوں نے عوام کو ابسڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔بھاری بجلی بلوں نے عوام کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ حکمرانوں، بیورو کریسی اور اشرافیہ کی عیاشیوں کی سزا عوام کو دی جا رہی ہے۔ شہباز شریف 17ماہ تک وزیر اعظم رہے لیکن انہوں نے وزیر اعظم ہاؤس کروڑوں روپے کے اخراجات اور اپنے پروٹوکول میں کمی نہیں کی۔ اسحاق ڈار جو قوم کا مسیحا بن کر آیا تھا اْس نے بھی اپنے تمام بقایا جات اور مراعات وصول کیں اور عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے۔ چیئرمین سینیٹ صادق خان سنجرانی نے اپنی مراعات میں جو اضافہ منظور کرایا اْس پر تمام اراکین نے فوراً منظوری دے دی۔ سیاست دان الیکشن کے دنوں میں عوام کو بے وقوف بنا کر اِن سے ووٹ لے کر پھر ان ہی پر ستم شروع کر دیتے ہیں۔اب موجودہ عبوری حکومت نے آتے ہی پیٹرول کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ کر دیا ہے اسی طرح واپڈا کے ذریعے عوام کا جو حشر کیا گیا ہے اْس سے لوگ اب خودکشیوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔ واپڈا والوں کے اپنے یونٹ کیونکہ مفت ہیں اور پھر اِن ظالمو ں نے اپنے رشتہ داروں اور بہن بھائیوں کو بھی مفت بجلی دی ہوئی ہے ۔ اِس بڑا ظلم اور کیا ہو گا کہ یہی لوگ بجلی چوری کرانے میں ملوث ہیں۔ جتنا ظلم عوام پر کرنا ہے کر لو لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ ظلم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے لیکن حکمرانوں نے ساری حدیں پار کر لی ہیں عوام کا صبر اب جواب دے چکا ہے اور اب یہ ظلم ایک عوامی انقلاب کی صورت اختیار کر تا جا رہا ہے۔ عوام کے خون میں نہانے والوں اور بغیر بجلی کا بل ادا کئے 24,24 گھنٹوں تک اے سی چلانے والے افسران جان لیں کہ اب عوام بیدار ہو رہے ہیں ۔ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے یہ افسران عوام کو ملنا گوارہ نہیں کرتے حالانکہ یہ عوام کے خادم ہیں۔ ا نہی کے مسائل حل کرنے کے لیے اِن کو پانچ پانچ ایکٹر کی بڑی محل نما کوٹھیاں دی گئی ہیں اِن کی گاڑیوں کے اے سی ایک گھنٹہ پہلے آن ہو جاتے ہیں تا کہ صاحب بہادر جونہی گاڑی میں سوار ہوں تو گاڑی ٹھنڈی ہو چکی ہو اور اِن کو ٹیکس دینے والا مزدور جون اور جولائی کی شدید گرمی میں 12گھنٹے اپنی مزدوری کر کے اِن کو ٹیکس ادا کرتا ہے۔ وہ مزدور جو ریاست کو اپنے خون پسینے سے چلا رہا ہے وہ پچاس روپے کی روٹی پیاز کے ساتھ کھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے۔ تازہ ترین ظلم عوام پر 5.40 روپے فی یونٹ بجلی مزید مہنگی کر دی گئی ہے۔ عوام میں اب ان ظالمنہ بجی بلوں کی ادائیگی کی سکت باقی نہیں رہی کہ اب اگست کے بجلی بل ان پر کیا ظلم ڈھائیں گے۔