قومیں بیرونی حملوں‘ ناگہانی آفتوں اور تباہی سے نہیں اندرونی خلفشار ،بدعنوانی اور سازشوں سے مٹتی ہیں۔ نامور ادیب اور فلسفی ریگوبرٹا مینچو نے کہا تھا کہ کڑے احتساب کے بغیر، استثنیٰ وہ بنیاد بن جاتا ہے جس پر بدعنوانی کا نظام قائم ہوتا ہے۔ اور اگر استثنیٰ کو ختم نہ کیا جائے تو کرپشن کے خاتمے کی تمام کوششیں رائیگاں جاتی ہیں۔ جیکب برونوسکی نے تو یہاںتک کہہ دیا’’ کسی سائنس یا سائنسدان کے پاس سیاست کے انفیکشن اور طاقتور اشرافیہ کی بدعنوانیوں کا کوئی علاج نہیں‘‘۔برونوسکی کی مایوسی کی وجہ یہ تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ جس باختیار اشرافیہ اور جن اداروں کی افسر شاہی کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ کرپشن کے سدباب کے لئے اقدامات کریں، وہی اشرافیہ اور افسر شاہی کرپشن کی پشت پناہ ہوتی ہے۔ بانی پاکستان اس سماجی کینسر کے مضمرات سے نہ صرف بخوبی آگاہ تھے بلکہ انہوں نے قوم سے اپنی تشویش کا اظہار ان الفاظ میں کیا بھی ۔’’کرپشن سب سے بڑی لعنت جسے ہندوستان بھگت رہا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ دوسرے ممالک اس سے آزاد ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہماری حالت ان سے کہیں زیادہ خراب ہے ،رشوت اور بدعنوانی زہر ہیں۔ تقسیم ہند سے پہلے افسر شاہی کا نظام ہی زہر آلودہ تھا، حکمران اشرافیہ ایک غلام قوم کو کنٹرول کرنے کے لئے دانستہ طور پر آنکھیں بند کئے ہوئی تھی۔ مگر آزادی کے بعد بدقسمتی سے کرپٹ ایلیٹ کی نرسریوں میں سیاستدانوں کی افزائش نے سیاستدان غلامی کے کرپٹ نظام اور افسر شاہی کے سرپرست اور حصہ دار بن گئے۔ افسر شاہی نے سیاستدانوں کو قومی وسائل کے لوٹ مار کے گر سکھانے شروع کئے بیشتر حصہ دار بن گئے جنہوں نے دامن صاف رکھنے کے کوشش کی ان کو فائلوں اور نوٹس ور رپورٹس کے دلدل میں دھکیل دیا گیا۔ ایسے ایسے منصوبے اور سکیمیں متعارف کراوئی جانے لگیں جو اسظ ذہن کے سیاستدانوں کے سر سے گزر جاتیں اور ایماندار ربڑ سٹیمپ بن کر رہ جاتا۔اس کھیل کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسٹیبلشمنٹ کو جب بھی سیاسی حکومت سے جان چھڑوانی ہوتی سیاستدانوں کے خلاف انہی فائلوں اور رپورٹس کو چارج شیٹ بنا دیا جاتا اور افسر شاہی مکھن میں سے بال کی طرف نکل جاتی۔ افسر شاہی کو جس منصوبے میں موٹا مال ملنے کی پیشکش ہو اس کے لئے کیسے واردات ڈالی جاتی ہے اس کی ایک چھوٹی سی مثال سرکاری ہسپتالوں میںمنگوائی جدید ترین مشینری اور تعمیراتی منصوبے ہیں ۔ ایک بار ایک سرکاری ہسپتال کے سینئر ڈاکٹر نے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ درآمد کی گئی ایک جدید مشین کئی ماہ تک بند پڑی رہی کیونکہ کسی نے اسے کھول کر دیکھا اور نہ ہی استعمال کیا۔ جب ایک ڈاکٹر نے وہی مشین منگوانے کی درخواست کی تو معلوم ہوا کہ مشین تو کئی ماہ سے منگوائی جا چکی ہے البتہ کسی کو علم ہی نہیں تھا کہ اس کا استعمال کیا ہے اور یہ یہاں کیوں بند پڑی ہے۔ کروڑوں روپے کی مشینری اور اربوں کے ٹھیکے صرف مال بنانے کئے لئے دیئے جاتے ہیں۔کسی کو یقین نہ ہو دیکھ لے کہ کس طرح لاہور کے بڑے ہسپتالوں میں عوام کے مفاد کے نام پر ایمرجنسی بلاکس کی توڑ پھوڑ کی جا رہی ہے۔ سرکاری ریکارڈ گواہ ہے کہ ابھی دو برس پہلے ہی میو ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ کو سٹیس آف دی آرٹ بنانے کے لئے اربوں روپے خرچ کئے گئے۔ سو روپے کے کام کے ہزار روپے کے بل منظور اور ادائیگی کر کے سیاسی اور بیورکریٹ ایلیٹ کے پیٹ بھے گئے پھر حکومت تبدیل ہوئی نئی حکومت کے ساتھ نئی افسر شاہی قوم کی خدمت میں متحرک ہوئی اور میوہسپتال کے سٹیٹ آف دی آرٹ ایمرجنسی بلاک کو مکمل ہوتے ہی پھرسے نئے سرے سے بنانے کے لئے توڑ دیا گیا ۔ محکمہ صحت کی افسر شاہی کی نظر صحت کے لئے مختص باقی بجٹ پر ٹکی تھی اس کو ہڑپنے کے لئے لاہور جنرل ہسپتا ل کے ایمرجنسی بلاک میں اتنی عجلت میں توڑپھوڑ شروع کی گئی کہ ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کے لئے متبادل بندوبست کو بھی ضروری نہ سمجھا گیا۔ اب کوئی پوچھے کہ نگران حکومت کے پیٹ میں عوام کے درد کے مروڑ اتنی شدت سے کیوں اٹھے ہیں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ حکومت اور افسرشاہی کو اپنے باقی بچے دنوں کا اچھی طرح ادارک ہے اس لئے لوٹنے کے لئے دو ہاتھ کم پڑ رہے ہیں۔اس کار خیرکے لئے بھلے ہی بنی بنائی عمارتوں کو دوبارہ ہی کیوں نہ بنانا پڑے۔ جنرل ہسپتال کی حالت یہ ہے کہ ایمرجنسی بند ہونے سے ہسپتال خالی ہو چکا اور پرائیویٹ ہسپتالوںمیں دھڑلے سے مریضوں کو ہانکا جا رہا ہے اس کام کے لئے مریضوں کے ہمدرد مامور کئے گئے ہیں یہاں تک کہ پرنسپل جنرل ہسپتال کے معتمد خاص پی اے سلیم مدد کے لئے آنے والے مریضوں کو چائے پوچھنے کے بعد ان سے اس قدر ہمدردی اور خلوص سے پیش آتے ہیں کہ مریض خود خوشی خوشی ذبح ہونے کے لئے پرائیویٹ مقتل جانے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ دو بول ہمدردی کے عوض دیہاڑی کے فن کا نظارہ کرنا ہو تو وہ جنرل ہسپتال کے پرنسپل کے پی اے سلیم کو جانفشانی سے فرائض انجام دیتے ہوئے دیکھ لے۔ نگران حکومت کی نگران افسر شاہی کو اقتدار ہاتھ سے نکل جانے کا اس قدراحساس ہے کہ نئے منصوبوں اور نئے ہسپتال بنائے کے بجائے بنے ہوئے پھر سے ہسپتال بنائے جا رہے ہیں تاکہ اقتدار کے خاتمے سے پہلے بجٹ ختم کیا جا سکے۔ افسر شاہی وزیراعلیٰ پنجا ب سے اس طرح کے منصوبوں کی دھڑا دھڑ منظوری اس لئے لے رہی ہے کیونکہ جانتی ہے کہ اقتدار کے خاتمہ کے بعد احتساب افسروںکا نہیں بلکہ حاکم اعلیٰ پنجاب اور ان کے وزیروں کا ہونا ہے۔ جیلیں وہ بھگتیں گے تو ’سرکاری مال اپنا ‘ میں حرج ہی کیا ہے۔ اگر اکسی افسر کا نام آیا بھی تو وہ وعدہ معاف گواہ بنا کر کرپشن کے مکھن سے بال کی طرح نکال لیا جائے گا ۔ شریک جرم بیوروکریسی کو چھوڑ کر یا وعدہ معاف گواہ بنا پر انصاف ہو سکتا ہے نا ہی مستقبل میں لوٹ مار کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ احتساب ہونا ہے تو سیاست دانوں کے ساتھ ان کے معاونین افسر شاہی کا بھی ہونا چاہیئے ورنہ احتساب کی مشق سیاسی انتقام اور پولٹیکل انجیئرنگ تو ہو سکتی ہے احتساب اور انصاف نہیں! وطن عزیز کی صورتحال اور ماضی کو دیکھ کر ہی شاید نے ابنِ مْنیب کہاہے ہوئے رشوت کے آگے سَرنِگوں سب مثالیں دے رہے تھے کربلا کی! دِکھائی مْحتسِب نے وہ کرپشن "مَرَض بڑھتا گیا جْوں جْوں دوا کی