ساحل سمندراور پہاڑو ں کے دامن سے غروب آفتاب کے دلکش نظارے کا لطف اٹھانے کے مواقع تو کئی بار نصیب ہوئے ہیں،مگر ابھی حال ہی میں متحدہ عرب امارات کی ریاست شارجہ میں جا کر معلوم ہوا کہ ریگستان میں بھی یہ نظارہ کچھ کم مسحور کن نہیں ہوتا ہے۔جب اس سنہری ریت اور صحرا کی یخ بستہ رات میں فلڈ لائٹس کے نیچے کرکٹ کا اسٹیج سجا ہو، تو کھیل کے علاوہ سیاسی ہم آہنگی، رابطوں اور تعامل کا ذریعہ بنے، تو اس کا لطف ہی دوبالا ہو جاتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی جب امارات کے ابو ظہبی کے نواح میں ابو موریخا کے مقام پر ہندوئوں کے سوامی نارائن فرقہ کے مندر کا افتتاح کررہے تھے، تو اسی ملک کے دوسرے سرے پر شارجہ میں کنٹرول لائن کے آر پار جموں و کشمیر سے وابستہ تارکین وطن نے چنار اسپورٹس فیسٹیول کا اہتمام کیا ہوا تھا ۔ اس کرکٹ لیگ کا افتتاح آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمدخان نے اور فائنل میں انعامات کی تقسیم کی صدارت ایک اور سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے کی۔ شارجہ ،جو بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ کے اعصاب شکن معرکوں کیلئے جانا جاتا ہے، میں اس کھیل نے ہزاروں شائقین کی موجودگی میں جموں و کشمیر کے منقسم حصوں اور خاندانوں کو جغرافیائی اور تاریخ کی بے رحم لکیروں سے پرے ایک غیر جانبدار جگہ پر نہ صرف ملنے کا موقع فراہم کیا، بلکہ ماحولیاتی بیداری اور سفارتی ہم آہنگی کا پیغام بھی دیا۔ اس فیسٹیول کا نام بھی کشمیرسے وابستہ بلند قامت اور وسیع درخت چنار کے نام پر رکھا گیا ہے جو اس خوبصورت زمین کی تزئین کی خصوصیت ہے ۔ یہ درخت ماحولیاتی ہم آہنگی کی اس وجہ سے بھی علامت ہے، کیونکہ اس کے پتوں کی ہیئت کچھ ایسی ہے، کہ نباتات میں یہ سب سے زیادہ آکسیجن اور بخارات ریلیز کرتا ہے۔ اگلے زمانے میں کڑی دھوپ میں سفر کرتے ہوئے مسافروں کو اس کی چھاوٗں میں ایسی ٹھنڈک ملتی تھی ، جیسے آج کے دور میں کئی ایر کنڈیشنڈ ز کو آن کردیا گیا ہو۔ سرینگر میں کشمیر یونیورسٹی کا نسیم باغ کیمپس ، جہاں چناروں کی بہتات ہے، کا درجہ حرارت ہمیشہ باقی شہر سے کئی ڈگری نیچے ہوتا ہے اور ان کے طفیل ٹھنڈی ہوا چلتی رہتی ہے۔ ایک ہزار سے زیادہ تماشائیوں نے، صحرا میں چلنے والی تیز ہوا کے درمیان نہ صرف ایک کھیل بلکہ خطے کی بدقسمت تاریخ کا بھی ادراک کیا۔ جہاں سیاست ان خطوں کو الگ کرنے اورمنقسم کرنے پر مصر ہے، وہیں کھیل نے ان کو متحد کرنے کا کام کیا۔ ہونا تو چاہئے تھا کہ اس لیگ کے میچز سری نگر ،مظفر آباد، بارہمولہ ،راولاکوٹ، اننت ناگ یا سوپور میں منعقد ہوتے، مگر یہ بھی غنیمت ہے کہ سمند پار ایک غیر جانبدار جگہ پر بھی کھلاڑیوں کو کھیلنے اور شائقین کو اس کا لطف لینے کا موقعہ فراہم ہوا۔ منتظمین کا کہنا تھا کہ یہ اسپورٹس فیسٹیول متحدہ عرب امارات کی قیادت کے وژن سے مطابقت رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شیخ محمد بن زید النہیان اور شیخ محمد بن راشد آل مکتوم کی سفار تکاری مفاہمت کے فلسفہ پر مرکوز ہے اور اس سلسلے میں وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بھی مفاہمت چاہتے ہیں، جس کا راستہ کشمیر سے ہو کر جاتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کی تاریخ کے اتار و چڑھائوکرکٹ سفارت کاری کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ جنگوں کو ٹالنے سے لے کر امن مذاکرات شروع کرنے تک، ان دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ مقابلے بسا اوقات کشیدگی کو کم کرنے اور بات چیت کو فروغ دینے کا اایک اہم ذریعہ رہے ہیں۔ چاہے وہ پاکستان کے صدر محمد ضیاء الحق کا 1987میںجے پور میں ہونے والے میچ کو دیکھنے کیلئے غیر متوقع دورہ ہو یا بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا لاہور کا تاریخی بس سفر، جس کا اختتام لاہور کے اعلامیہ پر ہوا، یہ دونوں دورے کرکٹ کے مرہون منت ہیں۔ فروری 1987 کو بھارت نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقیں''آپریشن براس ٹیکس'' مغربی ریاست راجستھان کے صحراؤں میں، سرحد سے صرف چند سو کلومیٹر دور منعقد کی تھیں، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی اپنی آرمرڈ ڈویژن کو سرحدوں پر منتقل کر دیاتھا۔ امریکہ ابھی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سفارتی کاوشوں کر بروئے کار لینے پر غور کر رہا تھا کہ پاکستانی فضائیہ کا ایک طیارہ نئی دہلی کے پالم ہوائی اڈے پر اترا۔اس میں پاکستانی صدر محمد ضیاء الحق سوار تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ جے پور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹیسٹ میچ دیکھنے آئے ہیں۔ اب پروٹوکول کے مطابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کو ان کو خیر مقدم کرنے کیلئے ایر پورٹ آنا پڑا۔ بعد میں راجیو گاندھی کے معروف مشیر بہرا مینن نے 2015 میں لکھا کہ ضیاء الحق نے ائیرپورٹ پر ہی خبر دار کیا کہ پاکستان کے پاس معتبر جوہری ہتھیارموجود ہے، اور وہ اس کو استعمال کرنے کافیصلہ کرنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگائے گا، اگر اس کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوجائیگا۔ دونوں ممالک نے سرحدوں سے 80,000 فوجیوں کو واپس بلانے پر اتفاق کرکے بات چیت کے سلسلے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اسی طرح مئی 1998 میں، جوہری تجربات کے انعقاد پر جنوبی ایشیائی حریفوں کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے بعد، اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے کرکٹ ٹیم کو بھارت جانے کی اجازت دی ۔ یہ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے لاہور کے دورے کا محرک بنا۔ دونوں ممالک نے لاہور اعلامیہ پر دستخط کیے جس میں کشمیر کے علاوہ جوہری اور روایتی فوجی شعبوں میں اعتماد سازی کے اقدامات کے معاہدے شامل تھے۔2005 میں بھی پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کرکٹ میچ دیکھنے بھارت آئے۔ اس سفر کے نتیجے میں ان کی بھارت نے نئے وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ ملاقات ہوئی اور اس میں جموں و کشمیر کے مسئلے کا غیر روایتی حل تلاش کرنے اور باہمی اعتماد کے تاریخی موقع سے فائدہ اٹھانے کا وعدہ کیا گیا۔ 2011 میں بھی کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران، وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اپنے پاکستانی ہم منصب یوسف رضا گیلانی کو صوبہ پنجاب کے موہالی میں اپنے ساتھ میچ دیکھنے کی دعوت دی۔ اس سے تعلقات میں نسبتاً بہتری آئی، جو 2008 میں ممبئی میں ہونے والے حملوں کے بعد نچلی سطح پر آگئے تھے۔ سفارتی آلے کے طور کرکٹ کے استعمال کی تاریخ تو ویسے 1952 سے ہی شروع ہوئی۔ تقسیم کے فسادات اور کشمیر پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے بعد دونوں ممالک کے رہنماؤں نے محسوس کیا کہ کھیل سے عوام کے درمیان رابطہ بحال ہو جائے گا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم 1952 میں ایک ٹیسٹ میچ کی سیریز کھیلنے کے لیے بھارت آئی تھی، جس میں کچھ ایسے کھلاڑی شامل تھے جو غیر منقسم بھارت کے لیے کھیل چکے تھے۔(جاری ہے)