غیر جانبدار ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے‘ اس کے لئے عقل‘ ضمیر اور اندر سے انسانیت کو نکال دینا پڑتا ہے۔کوئی شخص بقائمی ہوش و حواس‘ اچھے برے‘ ظالم مظلوم‘ چور ‘سعد کے درمیان غیر جانبدار کس طرح رہ سکتا ہے‘ لٹنے والا اور لوٹنے والے برابر کیسے کہلائے جا سکتے ہیں‘ قاتل اور مقتول کو ایک آنکھ دیکھنا کیا ممکن ہے‘ ضمیر سسک بھی رہا ہو تو وہ کمزور آواز میں ہی صحیح اپنا فیصلہ ضرور سناتا ہے‘ کوئی سنے یا نہ سنے یہ اس کی سماعت کی صحت پر منحصر ہے۔ہاں البتہ حالات و واقعات تجزیہ کرتے وقت غیر جانبدار نہیں مگر حقیقت پسند ہونا ضروری ہے۔ذاتی مفاد‘ نفرت و محبت یا حسد و رشک کی بنیاد پر اور خوف بھی کئے گئے تجزیے کئے گئے فیصلے‘ بنائی گئی منصوبہ بندی‘ طے کی گئی حکمت عملی کے ایسے ہی نتائج ہوتے ہیں جنہیں ہم اپنی کھلی آنکھوں پاکستان میں دیکھتے ہوئے بھگت بھی رہے ہیں۔ ہمارے عظیم جنگ جو سالار جناب قمر جاوید باجوہ کو خیال گزرا کہ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خاں کی مقبولیت سات فیصد (7) تک گر چکی ہے‘ ان کی حکومت ختم کر کے اپنی مرضی اور مفادات کی حفاظت کرنے والی نئی حکومت بنائی جائے‘ اس لئے جو پاپڑ بیلنے پڑے۔ جس طرح ریاستی اداروں کو راہ پر لایا گیا وہ سب ہمارے سامنے ہے’9اپریل 2022ء حکومت کو چلتا کیا گیا‘ چند گھنٹوں میں اس کے خلاف جو ردعمل دیکھنے میں آیا ‘ اس سے پہلے انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی‘ رمضان المبارک کے دن‘ عبادت کی راتیں ملک بھر میں تین کروڑ سے زیادہ لوگوں نے گھروں سے نکل کر احتجاج کیا یہیں پر بات ختم نہیں ہوئی دنیا بھر میں ایک سو سے زیادہ دارالحکومتوں اور بڑے بڑے شہروں میں لاکھوں لوگوں نے اس غیر قانونی‘ غیر اخلاقی حرکت پر پاکستانی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا‘ معزول وزیر اعظم کی مقبولیت 80فیصد کا ہندسہ عبور کر رہی تھی تو ہمیں مقبو ل ومشہور تجزیہ کار قومی ذرائع ابلاغ پر بتا رہے تھے کہ مقبولیت کوئی چیز نہیں اصل شے کارکردگی ہے‘ عمران خاں کی مقبولیت شہباز شریف کی کارکردگی کے پہاڑ سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گی۔بات زیادہ دنوں زبانی جھگڑوں اور سفارشی تجزیوں پر نہ رہی‘ قومی اور صوبائی اسمبلی کے 37ضمنی انتخابات کا سامنا ہوا۔مقبولیت کارکردگی کے مقابلے میں 81فیصد انتخابی حلقوں میں کامیاب ہو گئی‘ کارکردگی تنہا نہیں تھی‘ پورے ملک کی ساری سیاسی جماعتیں‘ الیکشن کمیشن کی چالاکیاں‘ اسٹیبلشمنٹ کی دھاندلی کا تجربہ‘ پولیس گردی کا پورا دھاوا کارکردگی کے پلڑے میں ڈالا گیا‘ تب 19فیصد پر کامیابی مل سکی تھی‘گزرتے دنوں کے ساتھ کارکردگی کی ناکارہ کارکردگی بڑھتی گئی اور مقبولیت میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔کارکردگی کے بوجھ نے صدا جوان دکھائی دینے والی اسٹیبلشمنٹ کے کندھے جھکا دیے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ کی صدا بہار جوانی کے سر پر چاندنی چمکنے لگی ہے اور قدموں میں لڑکھڑاہٹ ہر کوئی دیکھ سکتا ہے کہتے ہیں مچھلی پتھر چاٹ کر ہی واپس آئے گی مگر ہماری مچھلی ہے کہ ایک برس سے پتھر ہی چاٹتی جا رہی ہے واپسی کی راہ نہیں ملتی‘ سوسو وسوسے اور انجانے خدشے نامعلوم خطرے ان کے سرراہ بنے ہوئے ہیں۔کارکردگی منوں مٹی تلے پڑی سوتی ہے: بر مزار ما غریباں نے چراغ نے گلے نے پر پروانہ سوزد نے صدائے بلبلے اور مقبولیت ہے کہ بڑھتے بڑھتے 90(نوے) کا ہندسہ کس کی عبور کر چکی‘ دوست اب بھی سوال کرتے ہیں کہ آئندہ انتخابات کا احوال بتائیے؟ آپ نے 37حلقوں میں انتخابات کے نتائج دیکھ لئے اور عوام کا ردعمل بھی‘ مقبولیت نے ہر حد عبور کر لی اور مقبول رہنما نے عزم و عزیمت ‘ صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ میدان میں کھڑے رہ کر سب کو للکارا ہے‘ کوئی میدان میں مقابل ہونے کو تیار نہیں اور آپ کہتے ہیں آئندہ انتخابات کا حال بتائیے‘ بتانے کو رہ کیا گیا ہے؟ ہم ایسے بے بساط ہیں کہ ہر بساط پر کھیلنے بغیر ہار گئے مات ہو گئی‘ اس میں کوئی شک نہیں کارکردگی نے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا نہ ہی اس میں کوئی مبالغہ ہے کہ عمران خاں کا کھمبا بھی مقبول ترین سیاسی رہنما سے زیادہ مضبوط ہے۔دو نئے عنصر(فیکٹر) باقی ہیں۔ کون سے دو عنصر باقی ہیں؟ 1۔ نواز شریف۔ 2۔ دھاندلی‘ دھاندلی میں بعض ضمنی عنصر بھی ہیں آئیے پہلے نواز شریف کو دیکھتے ہیں‘ نواز شریف واپس آئے گا؟ اس کے واپس آنے کو رہ کیا گیا ہے‘ پورے ملک میں اس کے بھائی کی حکومت‘ ریاستی ادارے اشارہ ابرو کے منتظر’ انصاف بلائیں لینے کو تیار‘ پھر کون سا خوف ہے جو آنے نہیں دیتا؟ وہ ہے عمران خان‘ نہیں دراصل وہ ہیں پاکستان کے عوام‘ عمران خان ان کی ضد بن چکا ہے نواز شریف پاکستان آ کر کیا کرے گا؟ کیا وہ مینار پاکستان کے پہلو میں عمران خاں کی طرح جلسہ کر سکتا ہے؟کیا وہ عمران خاں کے مقابلے میں الیکشن میں اترنے کو تیار ہے؟ کیا اس کی سزائیں عدالت ختم کر دے گی؟ کیا آپ جانتے ہیں نواز شریف کے پہلے جلسے میں کیا ہو گا’ نواز شریف کے جلسے میں زیادہ سے زیادہ دس ہزار لوگ مسلم لیگی لیڈروں کی طرف سے ہانک کر لائے جائیں گے اور کم از کم پچاس ہزار تحریک انصاف کے کارکن وہاں پہنچ چکے ہونگے‘ کوئی مار کٹائی نہیں ہو گی صرف عمران خاں اور تحریک انصاف کے نعرے‘ یہی ان کا پہلا اور آخری جلسہ ہو گا۔اس کی نوبت بھی اس وقت آئے گی جب وہ پاکستان آ چکے، اس کی واپسی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے جس ملک میں نواز شریف مخالف لیڈر کی مقبولیت 90(نوے) کا ہندسہ عبور کر رہی ہو وہاں ایک بھگوڑا ‘بزدل عدالتوں کو مطلوب مجرم کیا رنگ جمائے گا؟ خاں کی 80فیصد ووٹر کی حمایت ضمنی انتخابات میں بروئے کار آ چکی اگر 80فیصد پر ہی فرض کر لیا جائے تو باقی 20فیصد عوام بچتی ہے‘ یہ 20فیصد پورے ملک کی چالیس‘ پچاس جماعتوں میں تقسیم ہے جن میں دو نئی گود لی جماعتیں بھی شامل ہو چکی ہیں تحریک انصاف کو چھوڑ کر ملک بھر میں ساری کی ساری سیاسی پارٹیوں کا انحصار ووٹر پر تو ہے نہیں سب کی نظریں سرکاری اداروں کی حمایت اور ان کی طرف سے کی جانے والی دھاندلی کی اہلیت پر ہے‘ سارے کا سارا بوجھ الیکشن کمیشن اور سرکاری اداروں کے کاندھوں پر ڈال دیا گیا ہے‘ سرکاری اداروں میں کیا تحریک انصاف کے ہمدرد سارے کے سارے کی کایا کلپ کر دی گئی ہے؟ جو سیاسی حکومتوں کی موجودگی میں پنجاب کے بیس حلقوں میں دھاندلی کے باوجود عشروں حکمرانی کرنے والے امیدواروں کو نہیں جتا سکی وہ پورے ملک کے تقریب ایک ہزار انتخابی حلقوں میں کیا کر سکے گی؟دھاندلی کے عنصر سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن دھاندلی کی بھی ایک حد ہے اور حدسے آگے بڑھنا ممکن نہیں گزشتہ برس منعقد ہونے والے انتخابی معرکے میں وہ حد آزمائی جا چکی ہے‘ اگست میں اسمبلی ٹوٹنے کا انتظار کریں‘ اندرون سندھ پیپلز پارٹی کے سوا کوئی اپنے قدموں پر کھڑا دکھائی نہیں دے گا‘ رہے سرکاری ادارے انہیں کیا؟وہ کسی وقت خاموشی سے اپنا قبلہ بدل سکتے ہیں۔