خانوادۂ گولڑہ شریف کے سرخیل ، پیر معین الحق گیلانی کی ہمراہی وہمرکابی میں، طویل عرصے کے بعد،پاکپتن شریف کا سفرِ سعادت میسر ہوا ۔ آپ کی معیت وصحبت بہت سے معارف وحجابات کی عقدہ کُشائی کا ذریعہ بنتی ہے ، حضر ت پیر مہر علی شاہؒ کی مسند کے وارث، حضرت لالہ جی صاحب کی محبتوں و عنایتوں کے امین اورحسینی فکر اور اسلوب کے علمبردار ہیں ۔ مخدوم سیّد محمدحسینی گیسودراز کے افادات والتفات کے بیان پر طبیعت رواں ہوئی ، تو سفر نورٌ علی نور ہوگیا۔ آپ کا اصل نام محمد لیکن تاریخ میں گیسودراز ، بندہ نواز کے نام سے ایسے معروف ہوئے کہ آپ کا اصل نام ہی بندہ نواز گیسودراز شہرت پا گیا۔ کثیر ا لتصانیف ۔۔۔ عوارف المعارف ،رسالہ قشیریہ ، تمہیدات عین القضاۃ ،قوت القلوب جیسی اُمہات کتب تصوف پہ حاشیے چڑھائے ،قرآن پاک کی تفسیر صوفیانہ رنگ میں لکھی،مشارق الانوار کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا۔ تزکیہ اور تربیت کاکام ایسا زوردار کہ آ پ کی خانقاہ جنوبی ہندوستان کے مسلمانوں کی دینی اصلاح وتربیت کا مرکز بنیں ۔ شاہ وگدا سب جمع ہوتے ،چشتی سلسلے کے آثار ومعارف کے ساتھ جب دکن وارد ہوئے تو سلطان فیروز شاہ بہمنی ---علماء ومشائخ اورعظیم لشکر شاہی کے ساتھ خیر مقدم اورپیشوائی کے لیے باہر آیا۔ گلبرگہ میں آپؒ کی خانقاہ چشتیہ سلسلے کا عظیم مرکز بنا۔ بہمنی سلطنت ، جس نے دکن کو سیاسی ،تمدنی اور سماجی ترقی اور عروج بخشا ، کی بنیاد علاء الدین بہمن شاہ کی کوششوں اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کی دُعائوں کا ثمر تھا۔ برصغیر کی تاریخ تصوّف کا یہ واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے کہ جب علاء الدین بہمن شاہ کو ابھی عروج اور اقتدار میسر نہیں آیا تھا تو وہ ایک دن حضرت محبوب الٰہی کی خانقاہ میں دُعا کے لیے حاضر ہوا، محمدبن تغلق ،جو ابھی شہزادہ تھا ،شیخ کی خدمت میں حاضری کی سعادت پاکر ، واپس جارہا تھا، یعنی علاء الدین حسن داخل ہورہا تھا اورمحمدبن تغلق واپس تو حضرت سلطان المشائخ نے فرمایا: سلطانے رفت وسلطانے آمدـ یعنی ایک سلطان حجرئہ درویش سے رخصت پارہا ہے اور ایک سلطان حُجرئہ میں داخل ہورہا ہے ۔ اورپھر علاء الدین حسن پر خاص التفات فرمایا ، اور ایک روٹی جو اپنے افطار کے لیے رکھی تھی ،اُنگلی پررکھ کر اس کو اس بشارت کے ساتھ دی ۔ چنانچہ سلطان المشائخ کی دُعا سے --- علاء الدین حسن بہمنی جب تخت اقتدار پر براجمان ہوا، تو اس نے سب سے پہلا حکم یہ دیا کہ پانچ مَن سونا اور دس من چاندی ،حضرت خواجہ نظام کی خانقاہ میںپیش کرتے ہوئے ، آپ کے ایصالِ ثواب کے لیے فقراء و مساکین میں تقسیم ہو۔عجب اتفاق ،حضرت خواجہ نظام کی توجہات سے اقتدار پانے والا محمد بن تغلق ایک مطلق العنان بادشاہ کے روپ میںوارد ہوا اور دہلی اس کے بدلتے ہوئے افکار وتصورات کابازیچہ بن گیا ۔سلطان محمد تغلق صاحبِ فکر و فن تھا، اس کا تابناک تخیل نت نئی منصوبے بناتا اور بسرعت ان کو عملی شکل دینے کا خواہاں ہوتا ، اس نے ہندو ستان کے اُن علاقوں میں سیاسی نظام کی بنیادوں کو کمزور محسوس کیا ، جہاں مسلمانوں کی آبادی قدرے کم تھی، بالخصوص دکن کے حالات میں بھی یہی عنصر نمایاں نظر آیا۔ اسکے پیشر و بے پناہ طاقت وقوت کے باوجود ، دکن پر محض اس لئے براہِ راست حکومت نہ کر سکے کہ وہاں مسلمانوں کی آباد ی نہ ہونے کے برابر تھی،چنانچہ اس نے دکن میں اسلامی تہذیب وتمدن پھیلائو اور مسلم کمیونٹی کی آبیاری کو لازم جانتے ہوئے ، وہاں کیلئے ایک مضبوط سیاسی نظام تیار کیا، اور دھلی میں مقیم مشائخ اور بالخصو ص حضرت خواجہ نظام کی خانقاہ کے متعلقین خواجہ نصیر الدین چراغ دھلی ، مولانا فخر الدین زرادی اور مولانا شمس الدین یحییٰ وغیرہ کیساتھ خصوصی میٹنگ میں اپنے اس پروگرام کو پیش کیا۔ نظامی خانقاہ سلطان کے اس مطالبے کو پورا کرنے کیلئے اس بنا پر تیار نہ ہوئی کہ ان کے نزد یک حکومتِ وقت سے تعلق روحانی موت کے مترادف تھا اور دوسرا یہ کہ سلسلۂ فقر کے متوسلین کا دائرہ عمل اور جائے قیام ، انکے شیخ کا طے کر دہ ہوتا نہ کہ بادشاہ اور حکومت وقت کا۔ اس سے تغلق اور تصوف کے درمیان بُعد بلکہ تصادم پیدا ہوا، جس سے فریقین کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔یہ شہر ،جو سلطنت دہلی کا ہی مرکز نہ تھا ،بلکہ ’’کل ہندروحانی نظام ‘‘کا بھی محور ومدار تھا ، اس کو سلطان محمدبن تغلق نے برباد وویران کردیا۔ چشتیہ سلسلے کی وہ عظیم تاریخ جس کا آغاز حضرت خواجہ معین الدین چشتی سے ہوا تھا ، خواجہ نصیر الدین چراغ ؒ دہلی یہ اس وقت ہوا جب آپ 15رمضان 757ھ ،بیماری اورمرض الموت میں مبتلا ہوئے تو عرض کیا گیا کہ مشائخ چشت اپنے وصال کے وقت اپنے خلفا میں سے کسی ایک کو ممتاز قرار دیکر اپنا جانشین مقرر فرماتے ، اگر اس طریقہ کوجاری رکھا جائے تو مرکزیت کا اہتمام کسی نہ کسی صورت باقی رہیگا۔ حضرت خواجہ چراغ ؒ دہلی نے فرمایا تو اہل حضرات کی فہرست پیش کردو۔ مولانا زین الدین نے باہمی مشورے کے بعد ایک فہرست پیش کردی ۔ جس میں حضرت خواجہ گیسودراز کا نام شامل نہیں تھا۔ حضرت خواجہ نے فرمایا تم کن لوگوں کے نام لکھ لائے ہو، ان سے کہد و ،اس مرکزی نظا م کا بوجھ اور جانشینی ان کے بس کا کام نہیں ، اپنے اپنے ایمان کی فکر کرو ۔ مولانا زین الدین نے فہرست کو دوبارہ مرتب کرکے پیش کیا۔ اس میں بھی حضرت خواجہ گیسودراز کا نام نہ تھا ۔حضرت شیخ الاسلام خواجہ نصیر الدین چراغ دہلی کی طبیعت پر جلال کے آثار نمایاں ہوئے ، انہوں نے فرمایا کہ تم نے سیّد محمد کا نام نہیں لکھا---؟ یہ سن کر سب حضرات تھر تھر کانپنے لگے ۔ یہ لمحہ برصغیر کی تاریخ تصوّف وسطوت وجہانداری میں ’’ٹرننگ پوائنٹ‘‘ثابت ہوا ،حضرت چراغ دہلی نے محسوس کر لیا تھا کہ ان حالات گردوپیش میں ، پیش کردہ اسماء میں کوئی ایک شخص کل ہند نظام کا بارِگراں سنبھالنے کی استعداد کا حامل نہ ہے ۔ چنانچہ انہوں نے وصیت فرمائی کہ مشائخ سلسلہ کے تبرکات ان کے ساتھ ہی دفن کردیئے جائیں ۔ اسلامی ہند کی تاریخ کا یہ ایک عجیب واقعہ ہے کہ جس وقت چشتیہ سلسلے کا یہ ’’دورِ اوّل‘‘ختم ہوا ،تو اسی وقت سلطنتِ دہلی نے بھی دم توڑا ، اگر ایک طرف حضرت چراغِ دہلی کے وصال کے بعد چشتیہ سلسلہ کا مرکزی نظام نئی راہ پر گامزن ہونے کو تھا تو دوسری طرف فیروز شاہ کے انتقال (1388ئ)کے بعد سلطنتِ دہلی ، کی مرکزی حیثیت بھی فنا ہوگئی۔ صوبوں میں خود مختار حکومتیں قائم ہوگئیں اور دہلی کی امتیازی شان جاتی رہی ۔جس طرح فیروز شاہ کے بعد ،ہماری سیاسی توجہ کا مرکز جون پور، گجرات ،دکن ،بنگال…کی حکومتیں قرار پائیں ۔ اسی طرح ہماری مذہبی تاریخ کی دلچسپیاں دہلی سے ہٹ کر دیگر صوبوں کی طرف منتقل ہوگئیں ۔ اگرایک طرف سیاسی دنیا میں محمدبن تغلق کا یہ اعلان معتبر ہوا کہ : ملک ماہر مریض گشت کہ میرا ملک بیمار ہوگیا توروحانی حلقوں میں شیخ نصیر الدین چراغ دہلی کے یہ حسر ناک الفاظ بھی کانوں میں سنائی دینے لگے ۔ امروز خود ایں کار( شیخی) بازی بچگان شُد پھر ایک طرف اگر خانقاہ کا مرکزی نظام اور مشائخ چشت کے تبرکات قبرمیں دفن ہو ئے ، تو وہ دوسری طرف تاریخ میں محفوظ ہوگیا کہ فیروز شاہ کے آخری زمانے میں ایک بزرگ نے فجر کی نماز کے وقت وضو کرتے ہوئے یک لخت بادشاہ کی طرف نظر اُٹھائی اور بے اختیار پکارا اُٹھا: ’’دُنیا کی تمام بلائیں اس کے پائوں کے نیچے ہیں ، جب وہ دنیا سے چلا جائیگا،تو دنیا والوں کو معلوم ہوگا۔‘‘