دس کا نمبر بڑا زبردست ثابت ہوا۔ وہ خود بخود ان 10 نشستوں کے ساتھ فاتح کے طور پر ابھرے۔ چوہدری پرویز الٰہی کے ان 10 نمبروں کا کمال یہ تھا کہ وہ جس طرف جا تے فاتح بن سکتے تھے۔ اس کو کہتے ہیں ''مقدر''۔ پہلے حمزہ شہباز بھی ان منحرف اراکین کی مدد سے وزیراعلیٰ بنے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ابتدا سے ہی اس پورے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں ٹرانسپیرنسی کا فقدان تھا۔ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نے جو فیصلہ دیا ظاہر ہے اس پر من و عن عملدرآمد کیا جائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگر فل بنچ کی درخواست قبول کرلی جاتی تب بھی فیصلہ یہی ہوتا۔' لیکن ایک فریق کے بائیکاٹ نے نہ صرف اس پورے عمل کا ذائقہ کرکرا کیا' بلکہ بہت سے لوگوں کو بہت کچھ کہنے کا موقع بھی ہاتھ آگیا۔ اس فیصلے سے ظاہر ہے عمران خان اور پی ٹی آئی بہت خوش ہوں گے اور اتحادی یقیناً اپ سیٹ ہوں گے۔ عدالت کے معزز جج صاحبان نے کیس کے پہلے دن جو آبزرویشن دی تھی اس سے لگ رہا تھا کہ پی ٹی آئی اس کیس کو جیتے گی' (ن) لیگ اور اتحادی یہ کیس ہار جائیں گے۔ اب بنیادی بات دیکھنے کی یہ ہے کہ عمران خان اور پرویز الٰہی کی آنے والے دنوں میں کیمسٹری کس طرح کی چلتی ہے۔ کیونکہ عمران خان کے پاس اب یہ مرحلہ ہے کہ وہ وفاقی حکومت یعنی شہباز شریف سے اسمبلیاں تحلیل کرکے انتخابات کرانے کا مطالبہ کریں۔ ایسی صورت میں انہیں کے پی اور پنجاب کی حکومتوں کو بھی تحلیل کرنا ہوگا۔ اگر یہ دونوں صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کردی گئیں تو پھر یقیناً نئے انتخابات کیلئے فضا ہموار ہوجائے گی۔ لیکن کیا اب پرویز الٰہی عمران خان کے کہنے پر اسمبلیاں تحلیل کردیں گے۔ وہ پہلے کہہ چکے ہیں کہ وہ عمران کے کہنے پر دو سیکنڈ میں ایسا کردیں گے' لیکن اب وہ چیف منسٹر بن چکے ہیں ۔ پوری ملکی سیاست پر نظر ڈالیں تو یہ جوڑ اور توڑ پر چلتی رہی ہے۔ بزدار صاحب کے دور میں پنجاب پر صرف عمران خان کا حکم چلتا تھا' لیکن اب یہ دیکھنا ہوگا کہ عمران اور پرویز الٰہی میں ایسی کیمسٹری بن جائے گی کہ پنجاب گورنمنٹ میں وہی سب کچھ ہو جو عمران چاہتے ہوں۔ اب عمران بھی سمجھتے ہیں کہ اگر وہ آئندہ چند ماہ میں الیکشن کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کا انہیں ایک بڑا فائدہ مل سکتا ہے۔ دوسری صورت میں ان کا یہ بیانیہ تحلیل بھی ہوسکتا ہے یا اس کا زور کم ہوسکتا ہے۔ اس لئے عمران یہ موقع ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ اتحادی قومی اسمبلی کے الیکشن پر رضا مند ہوجائیں اور صوبوں میں عمران خان کی حکومت رہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پرویز الٰہی کی یہ کامیابی کتنی دیرپا ثابت ہوتی ہے۔ عمران کے پاس دو راستے ہیں۔ وہ دونوں صوبوں یعنی کے پی اور پنجاب کی حکومتیں برقرار رکھ کر وفاقی حکومت پر نئے الیکشن کا دباؤ ڈالیں یا پھر دونوں اسمبلیوں کو تحلیل کرکے وفاقی حکومت کو بیک فٹ پر دھکیلنے کی کوشش کریں۔ عمران خان بہت مضبوط پوزیشن میں آگئے ہیں۔ اگر عمران خان اپنی صوبائی حکومتیں برقرار رکھ کر وفاقی حکومت کو گرانے کی کوشش کرینگے تو پھر ان سے یہ سوال ضرور کیا جائے گا کہ وہ اپنا اقتدار بچانے کیلئے یہ کررہے ہیں یا دوسرے یہ کہ وہ نئے انتخابات میں اتنے سنجیدہ نہیں اور غیر یقینی سیاسی صورتحال پیدا کرکے وہ ملک کی معیشت کو خراب کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔ لگ یہی رہا ہے کہ اس وقت کھیلنے کیلئے سیاسی کارڈ اتحادیوں کے مقابلے میں عمران کے پاس بہت زیادہ ہیں۔ اگر 9 اپریل اور 26 کی راتوں کا موازنہ کریں تو 9 اپریل کو عمران خان کے ہاتھ خالی تھے اور وہ ایک ڈائری لیکر نکل آئے تھے۔ اس وقت دو بڑے صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے' جبکہ وفاق میں اتحادی براجمان ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ صورتحال دونوں کیلئے Win--Win صورتحال ہے' لیکن شاید ایسا نہیں۔ 9 اپریل کو پی ٹی آئی کی حکومت بہت غیر مقبول تھی۔ مہنگائی' بیروزگاری اور عمومی خراب صورتحال کا بوجھ اس کے کندھوں پر تھا۔ حالات بہت برے تھے۔ بے شمار سوالات ان کے سامنے ناچ رہے تھے' لیکن اتحادیوں کی100 دن کی حکومت کے بعد ایسا لگتا ہے کہ وہ گزشتہ چار سال کا پورا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ عام تاثر یہ تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف ایک سپر جینئس اور کام میں نہ تھکنے والے انسان ہیں۔ معاملات کو سمجھتے ہیں اور بہت جلد انتظامی امور نمٹانے میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔ اس لئے حکومت ان کے ہاتھ میں آتے ہی کچھ روشن اور مثبت آثار نظر آنے لگیں گے' لیکن بظاہر ہوا سب کچھ اس کے برخلاف ہوا۔ اس وقت ملک کی معاشی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر' پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ' بجلی گیس کے نرخوں میں تیزی سے بڑھتا اضافہ' اشیاء خورو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ اس ساری صورتحال میں اتحادیوں خاص کر مسلم لیگ (ن) کا ووٹر اور سپورٹر سخت مایوسی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ پھر پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج معاملات کو سمجھنے کیلئے کافی ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت انتخابات کیلئے جاتی ہے تو وہ اتنا بوجھ اٹھاکر پوری توانائی اور جوش و خروش سے انتخابی معرکہ لڑنے کیلئے یقینا تیار نہیں ہوگی۔ اسی لئے اتحادیوں خصوصاً مسلم لیگ (ن) کو اس پوری صورتحال کا جائزہ لینا ہوگا۔ خواہ مخواہ کے خواب دیکھنے کے بجائے حقیقت پسندی سے ساری صورتحال کا جائزہ لینا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ وقت اور حالات انسان کو بہت کچھ سکھادیتے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ غلطیاں انسان کی سب سے بڑی استاد ہوتی ہیں' لیکن معاملہ یہ ہے کہ وفاق میں اتحادی جماعتیں اپنی غلطیوں سے کیا کچھ سیکھ رہی ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ عمران کو ہٹاکر غلطی کی گئی اور جس حکمران کی ساکھ اور وقار ڈوبتا نظر آرہا تھا اس وقت کی حزب مخالف نے اسے بے وقت ہٹاکر نا صرف مظلوم بنایا بلکہ وہ ہیرو بن گیا۔ پھر یہ عمران خان تھے جن کو موافق حالات ملے۔ انہوںنے عوام کی خواہشات اور امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے امریکن مخالف بیانیہ بنایا۔ وہ سچ تھا یا جھوٹ لیکن یہ حقیقت ہے کہ عام لوگوں میں اسے پذیرائی ملی۔ (جاری ہے)