ایران سعودیہ ڈیل پر پہلا کالم لکھ چکا تھا کہ ایک پیشرفت کی خبر ملی۔سعودی عرب اور ایران کے وزرائے خارجہ کے درمیان 7برس کے بعد ملاقات ہو گئی۔ اس ملاقات کا اہتمام بھی چین نے کیا اور چند ماہ پہلے تک ایک دوسرے کے سخت مخالف سمجھے جانے والے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کو بیجنگ میں ایک میز پر بیٹھنے کا موقع دیا گیا۔ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں ایرانی وزیر خارجہ حسین عامر اور شہزادہ فیصل بن فرحان السعود ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔اس ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے جس میں اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ آئندہ دو ماہ کے اندر دونوں ممالک اپنے سفارت خانے فعال کر دیں گے۔یہ بھی طے پایا کہ ایک دوسرے کے ہاں جانے والی پروازوں کو بحال کیا جا رہا ہے۔ہفتہ کے روز سعودی حکام ایران پہنچ گئے جہاں ان کا گرم جوشی سے استقبال ہوا ۔مغربی تجزیہ کار اس پیشرفت کو امریکہ کے لئے خسارے کا سودا قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کے سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں لیکن امریکہ کے سعودی عرب کے ساتھ حالیہ عرصے میں تعلقات میں دراڑ آئی ہے۔ دوسری طرف پچھلے چالیس سال سے امریکہ اور ایران کے تعلقات کشیدگی کا شکار چلے آ رہے تھے۔حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دو طرفہ تعلقات کی بحالی اس طریقے سے ہو کہ باہمی تعاون سکیورٹی‘ استحکام اور ترقی کی صورت میں نتیجہ خیز ثابت ہو۔ بی بی سی کے سکیورٹی کارسپونڈنٹ فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ چین نے مشرق وسطیٰ کے دو حریفوں کو ملا کر ترپ کا سفارت پتہ پھینکا ہے۔ایران کو وسط ایشیا کی کئی ریاستوں، لبنان‘ یمن اور عراق میں سٹریٹجک گہرائی کی حامل طاقت حاصل ہے۔سعودی عرب عالم اسلام میں ایک محترم حیثیت کا مالک ہے۔دونوں کے درمیان ڈیل سفارتی تعلقات کو بہت جلد نئے معاشی نظام میں شراکت داری تک لا سکتی ہے۔یہ سارا عمل خاموشی مگر برق رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔23مارچ 2023ء کو دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ٹیلی فون پر بات ہوئی‘ دونوں نے جلد ملاقات پر اتفاق کیا اور 6اپریل کو وہ بیجنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملا رہے تھے۔ امریکہ کے بعض سکیورٹی تجزیہ کار مشرق وسطیٰ میں نئی سفارتی صف بندی کو ملحوظ خاطر رکھ کر روس یوکرین جنگ کا نقشہ بنا رہے ہیں۔ ان تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین اور ایران روس کے اتحادی ہیں۔سعودی عرب کی پالیسی اگرچہ کسی ملک کے مسلح تنازع سے دور رہنے کی بتائی جاتی ہے لیکن سعودی عرب کی سیاسی پیروی کرنے والے درجنوں مسلم ممالک میں یوکرین جنگ کے حوالے سے امریکہ مخالف دلائل پر غور ہو سکتا ہے۔ الجزیرہ 16مارچ کو اپنی رپورٹ میں بتا رہا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں بڑی برق رفتاری سے تبدیلیاں ظاہر ہو رہی ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین ٹھوس رابطوں سے چند ہفتے پہلے تک بتایا جا رہا تھا کہ اسرائیل سعودی عرب کے قریب ہو رہا ہے۔ پھر یہ بتایا جانے لگا کہ چونکہ عرب ممالک بھی اسرائیل کی طرح ایران کو خطے کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں اس لئے عرب ریاستوں نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کئے ہیں۔تجزیہ کاروں کی یہ رائے مناسب معلوم ہوتی ہے کہ ایران سعودیہ چپقلش نے خطے میں کشیدگی اور تقسیم کی جو دراڑیں پیدا کی تھیں اب وہ ختم ہو سکتی ہیں۔ایک اہم تبدیلی کی توقع مسلسل خانہ جنگی کے شکار شام کے حالات میں بہتری ہے کہ صدر بشار الاسد کے متعلق عرب ممالک میں سوچ تبدیل ہونے کے امکانات کو تولا جا رہا ہے۔سعودی عرب نے اس ڈیل کے بعد ہی یمن میں جنگ بندی پر سوچ بچار شروع کی ہے ۔اندازہ کیا جا رہا ہے کہ حزب اللہ کی حمایت والے لبنان میں سعودی سرمایہ کاری بڑھ جائے گی۔ سعودی عرب اپنی سکیورٹی کو تسلی بخش جان کر یمن جنگ کے خاتمہ میں دلچسپی لے سکتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا سعودی عرب کے ساتھ ڈیل کے بعد ایران جس علاقائی تنہائی کا شکار ہو چکا تھا وہ اب ختم ہونے جا رہی ہے۔ بیجنگ کی بیک وقت ایران اور اس کی متعدد حریف عرب ریاستوں کو BRI میں شامل کرنے کی کوشش ایک اہم عنصر ہو سکتا ہے جس نے مشرق وسطیٰ میں کانٹے دار دشمنوں میں ثالثی کے لیے چین کو قدم اٹھانے کے لئے آمادہکیا۔ خلیجی خطے اور اس سے باہر کے دیگر مسلم ممالک، جیسے کہ متحدہ عرب امارات، ترکی اور پاکستان نے چین کی سفارتی کوششوںکو سراہا ہے۔ پاکستان کے لیے سعودی ایران اختلافات میں کمی نہ صرف دیرینہ داخلی فرقہ وارانہ تصادم کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے بلکہ پاکستانی فیصلہ سازوں پر مسلم دنیا کے دیگر علاقوں میں پراکسی جھگڑوں میں شامل ہونے کے لیے دباؤ کو بھی کم کر سکتی ہے، جیسا کہ یمن جنگ کے معاملے میں ہوا تھا۔ اگرچہ سعودی ایران تعلقات اب بھی نازک ہیں، لیکن پاکستان کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ دونوں برادر ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کی خاطر چین کی معاونت کر سکے ۔ پاکستان کی مشرق وسطیٰ میں تعمیری کردار ادا کرنے کی ایک تاریخ ہے اور اس نے خطے کے ممالک کے درمیان اختلافاتکو ختم کرنے کی کوششوں کی مسلسل حمایت اور تعاون کیا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی حالیہ بحالی کی روشنی میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اس کردار کو جاری رکھے اور مثبت رفتار کو برقرار رکھنے میں مدد کرے ، ایک زیادہ مستحکم اور پرامن مشرق وسطیٰ میں اپنا کردار ادا کرے، ساتھ ہی ساتھ علاقائی طور پر اپنی پوزیشن کو بھی مستحکم کرے۔ پاکستان کو باریک بینی کی ضرورت ہوگی جس میں تمام فریقین کے مفادات اور خدشات کو مدنظر رکھا جائے، پاکستان کے لیے ممکنہ وسیع فوائد سفارتی تعلقات کے بعد معاشی تعاون کے مواقع میں پوشیدہ ہیں۔