آخر کوئی تو وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر اپنا رزق تنگ کر دیا ہے جس سے ملو وہ بے سکون بدحال غیر مطمئن اور ٹینشن میں دکھائی دیتا ہے۔اگر ہم اس احساس اور منطق کو مان لیں کہ اللہ پاک ہم سے ناراض ہیاس لئے اس نے ہم پر ان نعمتوں کو سکیڑ دیا۔ جس کے سبب ملک کی اکثریت پریشانیوں‘ مصائب و الم اور آنسوئوں میں ڈوبتی جا رہی ہے۔ میںسوچ رہا ہوں کہ کہیں عوام کے یہ دکھ‘ آنسو اور آہیں اس ملک کے تمام مسائل کی بنیاد تو نہیں۔ نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ معاشرے میں ہونے والی ناانصافیاں‘ محرومیاں‘ حکمرانوں کے جابرانہ اور ظالمانہ فیصلے عدم تحفظ کی فضا پوری قوم کی مایوسیاں اور محرومیاں شاید اسی غیر منصفانہ نظام کے سبب ہیں اور قدرت ہم سے ناراض ہے۔ میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میرا یہ تھیسس سوفیصد درست ہے لیکن اس کے باوجود ہم اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو مسترد تو نہیں کر سکتے۔ چنانچہ میرا خیال ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے فوراً معافی مانگنی چاہیے ہمیں کم از کم یہ تو تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم تاریخ اور معاشرے کے ساتھ انصاف نہ کر سکے 23 مارچ کو جس طور پر ایوارڈ کی تقسیم ہوئی اور گزشتہ کئی سال میں ہوتی رہی اس میں عموماً ناموں پر حیرانگی ہوتی ہے۔ ان کی شخصیت اور کارکردگی پر تبصرہ ہرگز نہیں کروں گا۔ سب کچھ بہت سے لوگوں کو پتہ ہے کہ ان کی ناقابل فراموش خدمات کیا ہیں۔ جب معلوم ہوا کہ یہ اعزاز کس طرح تقسیم کئے جاتے ہیں اور اس کا criteriaکیا ہے۔اس کے بعد یہی کہسکتا ہوں کہ اعزازات کم از کم اس انداز سے دیں کہ ان کی بے قیری نہ ہو۔ پاکستان کے 24کروڑ افراد میں سے 829 ایسی سول شخصیات تھیں جو شائننگ اسٹار قرار پائیں جبکہ بھارت میں اس سال ڈیڑھ ارب کی آبادی میں سے صرف 132افراد سول ایوارڈ کے حقدار ٹھہرے۔ یہاں یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ اگر پاکستان میں اتنے ہی ذہین ترین افراہیں تو ملک کیوں کامیابی سے آگے کا سفر نہیں طے کر پا رہا۔ اگر ہم عقل ‘مطالعے ‘تجربے‘ مشاہدے ‘ میچورٹی اور ذہانت میں بہت آگے ہیں تو پھر ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کیوں کھسک رہے ہیں۔25مارچ آئی تو میں نے سوچا یہ بھی ایک دن تھا جب 32سال قبل ہم نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں جہاں عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت کا ہاتھ تھا وہاں ان کی ٹیم میں ایسے شہرت یافتہ اور عظیم کھلاڑی موجود تھے جنہوںنے مقدر کی پہلی تھپکی کے ساتھ ہی کھیل کا نقشہ پلٹ دیا جاوید میانداد‘ وسیم اکرم اور انضمام الحق جیسے باکمال کھلاڑیوں نے اپنا جادو دکھایا۔پوری ٹیم اس حوصلے اور جذبے سے لڑی جیسے فتح اس کا مقدر ہو۔پھر مجھے وہ 25مارچ بھی یاد آ یا جب بقول ذوالفقار علی بھٹو کے وہ اس دن ڈھاکہ کے انٹر کانٹی نینٹل کے ساتویں منزل پر قیام پذیر تھے ’’میں نے کھڑکی سے دیکھا مجھے ڈھاکہ کی سڑکوں پر اندھیرے میں فوجی گاڑیاں اور ٹینک گشت کرتے دکھائی دیئے۔ جوانوں کے ہاتھوں میں اسٹین گن اور خود کار ہتھیار تھے۔مجھے انجانے اندیشوں نے گھیر لیا‘‘ اسی دن تاریخ نے نیا باب رقم کرنا شروع کر دیا۔کسی بھی ثالثی سیاسی مصالحت اورسمجھوتے کی امید ختم ہو چکی تھی۔ ہمارے صاحب اختیار اور صاحب اقتدار یہ سمجھ ہی نہ سکے کہ ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور موجود ہوتا ہے۔ لیکن شاید مفادات ان کی فہم پر غالب آ گئے۔ مہم جوئی کے خبط نے درحقیقت ہماری قوت برداشت اور سوجھ بوجھ چرا لی ہے۔ آج کی سیاست میں بھی انکساری‘ رواداری اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی وصف ختم ہو کر رہ گئی ہے۔درحقیقت برداشت دنیا کی سب سے بڑی دوا ہے ہم نے اس وقت بھی حالات کا ادراک نہیں کیا تھا درحقیقت یہ لیڈر شپ ہی ہوتی ہے جو قوموں کو بحرانوں سے نکالتی ہے۔ آج کی جدید تاریخ میں نیلسن منڈیلا کی قائدانہ صلاحیتوں کا کون معترف نہ ہوگا؟ ۔ انہوں نے اپنی جماعت کے ایک حلقے کو ناراض کر کے سب کو معاف کر دیا۔انہوں نے کہا ’’ہم سیاہ فام ہوں سفید فام ہوں ہم اس سرزمین کی مٹی سے اٹھے ہیں ہم سب اس ملک کی تعمیر کریں گے کسی سفید فام سے انتقام نہیں لیا جائے گا اور کوئی سیاہ فام ماضی میں ہونے والے مظالم کا کھاتہ نہیں کھولے گا۔ سفید ایف ڈی کلارک کو اپوزیشن میں نہیں اپنے ساتھ بٹھایا۔ایک قومی حکومت تشکیل دی اور خود جنوبی افریقہ کی ایک نئی اور انوکھی تاریخ لکھنے میں مصروف ہو گئے جس کے بارے میں کسی کو وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ جنوبی افریقہ کی یہ تابندہ تاریخ اور منڈیلا کا یہ ویژن بتاتا ہے کہ جو کل تک ظالم آقا تھا انتخابی نتائج کے بعد ان کے رحم و کرم پر ہونے کے باوجود کسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی کسی فساد نے سر نہیں اٹھایا میں جب اپنے ملک کی قیادت اور اس شخص کو دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ کوئی منڈیلا ہمارے درمیان کیوں موجود نہیں۔ ہمارے رہنما درگزر سے کام کیوں نہیں لیتے سیاسی حریفوں کو انتقام کا نشانہ کیوں بناتے ہیں۔ جمہوری اصولوں کی پاسداری کیوں نہیں کرتے۔ مکالمے کے آغاز کو اپنی انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے آگے بڑھ کر اپنی بڑھائی کا ثبوت کیوں فراہم نہیں کرتے ۔اپنی چھوٹی چھوٹی رنجشیں بھلا کر توجہ عوام کے مسائل کی طرف کیوں نہیںکرتے۔ جو سیاستدانوں کی اس لڑائی میں روندے اور کچلے جا رہے ہیں۔ کیوں فیصلہ ساز اپنی خواہش کے مطابق ایک نئی پیکنگ میں پرانا سیاسی سرکس متعارف کروانے اور ترتیب دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں؟ پوری دنیا کی حکومتیں اپنے شہریوں کی زندگیاں بہتر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں مگر ہمارے ملک کا پورا ریاستی ڈھانچہ ایک مخصوص طبقے کے مفادات کے تحفظ میں مصروف ہے سرکاری ادارے چند افراد کے ہاتھوں کھلونا بن جاتے ہیں نظام انصاف سے لے کر آفسر شاہی کے تمام ریاستی ادارے اپنا اصل کام کرنے کی صلاحیت اور اہلیت کھو بیٹھتے ہیں الیکٹراک اور پرنٹ میڈیا اپنے سطحی پن کی وجہ سے اپنی اثر پذیری کھو رہا ہے۔ کرنٹ افیئرز کے پروگراموں کا مواد بہت سطحی نوعیت کا ہے اس لئے سوشل میڈیا ایک ایسی طاقت بن گیاہے جو سب کو نگل چکا ہے اب اس کے آگے کوئی کھڑا نہیں ہو پا رہا۔اس کو جس طور پر استعمال کیا گیا اس پر پہلے سب حیران ہوئے پھر پریشان اب خوفزدہ ہو کر انگلیوں کو ہونٹوں میں دبائے بیٹھے ہیں۔