عمران خان کوئی انقلابی لیڈر تو نہیں ہیں‘ یہ خمینی اور نیلسن منڈیلا بھی نہیں ہیں۔ لوگوں نے انہیں آزما لیا ہے۔ ان کی صلاحیت کی کئی پرتیں لوگوں کے سامنے عیاں ہوگئی ہیں۔ اس کے باوجود کہ انہوں نے اپنے سپورٹرز کو ایک جذبات کی اٹھتی ہوئی لہروں میں دھکیل دیا ہے۔ 2014ء میں جبکہ اسٹیبلشمنٹ ان کے پیچھے تھی وہ نواز شریف کو پیچھے نہیں دھکیل سکے تھے۔ اس وقت ان کے خوشنما دعوؤں کا بہاؤ زیادہ توانا تھا کیونکہ وہ اس وقت آزمائے نہیں گئے تھے۔ وہ وعدوں پر وعدے کررہے تھے۔ اس کے باوجود انہیں حکومت بنانے کیلئے کتنے کندھے استعمال کرنے پڑے۔ 4 سال بعد وہ جیسے تیسے کرکے اقتدار میں تو آگئے لیکن جاتے جاتے عام لوگوں کے تمام سہانے خوابوں کو مہنگائی اور بیروزگاری کے بھاری بوجھ تلے دبا گئے۔ وہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر حزب مخالف پر دباؤ تو نہیں ڈال سکے تھے۔ کیونکہ ان کی کارکردگی کی فلم فلاپ ہوچکی تھی۔ انہوں نے پھر پینترا بدلا اور اپنی سیاست کا رخ جذباتی انداز سے ایک خط کی طرف موڑ دیا۔ اپنی حب الوطنی کا پرچار اور مخالفین کے گلے میں غداری کے تمغے ڈالنے شروع کردیئے۔ اس طرح کے بیانیے مقبول تو ہوجاتے ہیں لیکن وہ دیرپا نہیں ہوتے۔ پھر عمران خان کے حمایتیوں کا ایک خاص طبقہ ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ وہ عمران سے محبت بھی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عمران بہت بہادر‘ نڈر‘ خود دار اور مثالی محب وطن ہے‘ لیکن کبھی آپ نے غور کیا کہ ان کے مخالفین کی تعداد بھی کم نہیں۔ یہی سوچنا عمران خان کا امتحان ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اگر عمران سسٹم میں آکر مقدمے کو آگے بڑھاتے ہیں تو ان کیلئے نئے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں‘لیکن اگر انہوں نے ہر ایک سے ٹکر لینے کی کوشش کی اور خود کو ہرکولیس سمجھا تو وہ پہلے ہی گھائل ہیں مزید زخمی ہوجائیں گے اور ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ عمران کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کیا وہ ان جلسوں کو اپنی انتخابی فتح میں ٹرانسلیٹ کرسکیں گے؟ پاکستان کی تاریخ اور سیاست پر نظر ڈالیں تو پھر یہ انہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ سسٹم میں رہ کر حکمت عملی بنائیں۔ محض اپنی تلوار کو دائیں بائیں لہرانے سے وہ نتائج ہرگز نہیں آئیں گے جو وہ سمجھ رہے ہیں۔ ان کا کھیل بگڑتا چلا جائے گا۔ مجھے عمران خان کی حکومت کی رخصتی پر کبھی خوشی نہیں ہوئی‘ کاش وہ اپنی مدت پوری کرتے۔ لیکن انہوں نے جس طرح اپنے اتحادیوں‘ حلیفوں اور سرپرستوں کو ناراض کیا ہے اس کا نتیجہ سامنے آگیا ہے۔ اب عمران خود تجزیہ کریں کہ 2018ء کے انتخابات میں انہوں نے 32 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے اور ان کے مخالفین نے جو آج حکومت میں ہیں 68 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ ایک طاقت ضرور ہیں لیکن دوسری طاقت نہیں ہے کا تصور انہیں جھٹکنا پڑے گا۔ ان کے مخالف بہت توانا لوگ کھڑے ہیں جن کے پاس اقتدار آچکا ہے۔ دائیں بائیں ان کیلئے معاونت اور تعاون موجود ہے۔ ایسی صورت میں آپ ان معروضی حالات کو کیسے بدل سکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست کا موجودہ ڈھانچہ اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ایک دوسرے کو تسلیم کیا جائے۔زندہ رہنے اور جیو اور جینے دو کا فن اور گُر سیکھا جائے۔ اس طرح آپ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ لڑنے بھڑنے سے تو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔چار سال تک وہ اپوزیشن کے خلاف مہم جوئی کرتے رہے اس کا کیا نتیجہ نکلا۔انہیں ایک بار پھر مڑ کر دیکھنا چاہئے اپنی صفیں درست کرنی چاہئیں۔ان میں تنظیم پیدا کرنی چاہئے اور اپنے لئے زیادہ موافق حالات پیدا کرکے اپنا راستہ کشادہ کرنا چاہئے۔ ورنہ یہ بات سمجھ لیں کہ آپ جو کچھ کرنا چاہ رہے ہیں اور جس طرح کرنا چاہ رہے ہیں اس میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ آج کی حقیقت کل کیا روپ دھارے گی، ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہاں چہرے بدلنے سے نہ جانے کیا کچھ بدلتا رہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کتنے صفحے پھٹے ہیں‘ کتنی حقیقتیں تبدیل ہوئی ہیں‘ کتنی پسند اور ناپسند میں تبدیلی آئی ہے۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن سچ مچ حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب کو اس بیانیے سے پرہیز کرنا چاہئے جو ریاست اور ریاستی اداروں کو خوفزدہ کردے۔ ریاست کو کسی دلدل میں پھنسا دے۔ وہ جس راہ پر چل پڑے ہیں اس سے سلجھاؤ نہیں الجھاؤ پیدا ہوتے چلے جائیں گے۔ خان صاحب یہ موٹی سی بات سمجھ لیں کہ آپ جو بھی ہیں اور جتنے طاقتور بھی ہیں خواہ آپ خود کو جتنا طاقتور سمجھتے ہوں لیکن آپ ویٹو پاور نہیں ہیں۔ ان کے مخالفین کے پاس بھی ویٹو نہیں ہے۔ یہ بات دونوں فریقوں کو سمجھنا چاہئے۔ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ گزارا کرنا ہوگا۔ پاکستان افغانستان‘ لیبیا اور شام نہیں ہے۔ یہ ایک آئینی ریاست ہے۔ اس میں ادارے ہیں‘ ان کے دستور ہیں‘ ان کے طریقہ کار اور اختیارات ہیں۔ ہم اسی سسٹم کے تحت رہ کر زندہ ہیں۔ یہ ادارے کہیں نہ کہیں اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ادارے پاکستان کی بقا کی ضمانت ہیں۔ ہمیں انہیں مستحکم کرنا ہوگا۔ ان سے لڑنا انہیں کمزور کرنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ اگر آپ انہی کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے تو یہ آپ کو کبھی آب حیات نہیں پینے دے گا۔ (ختم شد)