خوشبو بھی کتنی عجیب اور دل کش چیز ہے۔ ہواؤں اور فضاؤں میں اْڑتی ہوئی ایک دوسرے تک پہنچ جاتی ہے۔ آپ اداس بیٹھے ہوں یا مغموم ہوں قریب سے کوئی خوشبو سے بھرا ہوا جھونکا گزرے تو طبیعت سرشار ہو جاتی ہے۔ خوشبوؤں کے ساتھ بہت سے جذبات جڑے ہوتے ہیں۔ خوشبو کے آنچل سے یادوں کی ایک بارات نکلتی ہے۔ خوشبو وہ مسافر ہے جو محبت کی راہ پر پیدل چلتی ہے۔ خوشبو کے مختلف رنگ ہوتے ہیں مگر اس کا دل ایک ہی الگ ہوتا ہے۔ خوشبو تو بند دروازوں میں سے بھی داخل ہو جاتی ہے۔ بس آپ کے پاس سْونگھنے کی حِس ہونی چاہیئے۔ خوشبو تو ان خود رَو پْھولوں کی طرح ہے کسی میدان، کسی وادی یا کسی پہاڑ کی چوٹی پر کھلتے ہیں۔ خوشبو کا بھی شجرہ ہوتا ہے۔ یہ ایک سائنس بھی ہے اور ایک آرٹ بھی۔ اچھی خوشبو نتھنوں میں بس جاتی ہے اور سانسوں کے ذریعے دل میں اْتر کر ٹھنڈک پہنچاتی ہے۔ یہ ساری باتیں مجھے آج۔۔۔ آج نہیں بلکہ ہمیشہ ایک نہانے کے صابن سے جب بھی استعمال کرتی ہوں، یاد آتی ہیں۔ جی ہاں! میری ماں کو امپیریل لیدر صابن بہت پسند تھا۔ آج بھی جب میں یہ صابن استعمال کرتی ہوں تو اس کی خوشبو مجھے بے چین کر دیتی ہے۔ امپیریل لیدر مجھے سیدھا ریل کے اس سلیپر کے ڈبے میں لے جاتی ہے جس میں ہم کراچی جایا کرتے تھے۔ میرے بچپن میں بذریعہ ریل گاڑی لاہور سے لگ بھگ چوبیس گھنٹے لگتے تھے کراچی پہنچنے میں۔ عجیب سا رومانوی سفر ہوا کرتا تھا۔ ہفتہ پہلے ہی سے ہماری آنکھوں کی نیندیں غائب ہو جایا کرتی تھیں۔ نیند کی جگہ ریل گاڑی کی سیٹی، سٹیشن کی رونق اور آوازیں اور مزے مزے کی کھانے ذہن میں آتے رہتے۔ سامان کی پیکنگ چار دن پہلے ہی سے شروع ہو جاتی۔ میرے چپس، چاکلیٹ، بسکٹ اور کہانیوں کی ڈھیر ساری کتابیں سامان کا ضروری حصّہ ہوتیں۔ بستر بند، کھانا، تولیے سب ہمراہ ہوتے۔ اسی ضروری سامان میں امپیریل لیدر صابن بھی ہوتا۔ پاپا چونکہ ریلوے میں سرکاری عہدے پر تھے تو سلیپر کا پورا ڈبہ ہمیں فری پاس پر میسر ہوتا تھا۔ مجھے کھڑکی والی سیٹ لینا ہوتی تھی۔ چونکہ ہم اکلوتے تھے لہذا بہت لاڈلے بھی تھے۔ یوں بھی کھڑکی والی سیٹ کو ہمارے ساتھ بانٹنے والا تو کوئی تھا بھی نہیں۔ ایک ٹائم یعنی دوپہر کا کھانا ماں زیادہ تر بْھنا ہوا قیمہ مٹر یا آلو قیمہ اور سینڈوچز وغیرہ بنا کر رکھتی تھیں۔ رات کا کھانا ہم ریل کی ڈائننگ کار سے لیا کرتے تھے۔ مجھے شدت سے اس کا انتظارہوتا تھا۔ سفید کڑک لباس پہنے ہوئے سر پر ایک کْلّا اور ہاتھ میں عام سائز سے بڑی سی سٹیل کی ٹرے میں لیے ایک بیرا آتا اس میں کھانا ہوتا جو مرغی کا قورمہ، پلاؤ، چپاتیاں، رائتہ، سلاد اور ننھی سی سٹیل کی رکابی میں فرنی پر مشتمل ہوتا۔ میں پاپا سے فرمائش کرتی کہ مجھے وہ جگہ دکھائیں جہاں یہ کھانا تیار ہوتا ہے۔ پاپا مجھے ساتھ لیے لمبی پتلی سی راہداری سے گزارتے ہوئے ڈائننگ کار تک لے جاتے۔ کیا خوب صورت دن تھے۔ بات ہو رہی تھی یادوں میں بسی خوشبو کے سفر کی۔ اب تو دہائیاں بیت گئیں ریل سے سفر کیے ہوئے۔ پاپا کے چلے جانے کے بعد ریل کے دروازے بھی شاید کہیں بند ہو گئے۔ امپریل لیدر کی خوشبو میں بسی یادیں مجھے ریل کی اس کھڑکی والی سیٹ میں بٹھا دیتی جہاں سے میں دھان کے کھیت، جوہڑ اور تالاب دیکھا کرتی تھی۔ جھٹ سے منظر بدل جاتا۔ کھیتوں میں کہیں دْور کچے مکانوں کی بستیاں نظر آتیں۔ ڈھلتی ہوئی شام میں ہوا میں اْڑتی ہوئی مٹی کی خوشبو بھی شامل ہوتی۔ کسی کسی مکان سے اْٹھتے دھوئیں سے معلوم پڑتا کہ رات کا کھانا لوگ جلد کھانے کے عادی ہیں۔ ملتان کے ریلوے اسٹیشن پر وہاں کے نیلے رنگ کے روغنی برتن ریڑھیوں سے سجے خریداروں کو دعوت دے رہے ہوتے تھے۔ مجھے ہمیشہ سے خوانچہ فروشوں سے بکتی ہوئی چیزیں جیسے سموسے پکوڑے وغیرہ کھانے کا بہت چسکا ہوتا تھا۔ پر ماں کی محتاط طبیعت اور گھْورتی ہوئی آنکھیں مجھے خوفزدہ کر دیتیں۔ ایسے میں مَیں للچائی ہوئی نگاہوں سے پاپا کی طرف دیکھتی۔ پاپا میرے دل کی زباں آنکھوں سے سمجھ جاتے۔ امپیریل لیدر کی مہکتی خوشبو کا ذکر اس لیے کیا کہ ہمارے ڈبے سے ملحقہ باتھ روم میں ہاتھ منہ دھونے کے لیے ماں یہ صابن لے جاتی تھیں۔ آج بھی لاہور میں اپنے غسل خانے میں مَیں اس صابن سے ہاتھ دھوؤں تو مجھے ہر سال کراچی جانے کا ریل کا سفر یاد آ جاتا ہے۔ ہم تقریباً ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں سیر کرنے کراچی جایا کرتے تھے۔ ریل کی تبدیل ہوتی پٹڑیوں کی آواز، سگنل کے اَپ اور ڈاؤن ہونے کامنظر کھڑکی سے باہر بہت بھلا معلوم ہوتا تھا۔ خوشبو میں بسی یادیں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ جب رات ہوتی تو ٹھنڈی ہوائیں آآکر چہرے سے ٹکراتیں تو ایک روح افزا سا احساس ہوتا۔ سر کنڈوں کی جھاڑیوں کے جْھنڈ کے پاس سے ریل گڑی گزرتی تو جْگنوں کے جتھے راہ میں روشنی کر دیتے۔ انہی یادوں کے سفر سے پتہ چلتا ہے کہ خوشبو کا وطن بھی ہوتا ہے اور عشق بھی۔ امپیریل لیدر صابن کا لفظ میں نے اس کالم میں اتنی بار لکھا کہ لو سمجھ رہے ہوں گے میں اس کی برانڈ ایمبسڈر ہوں۔ نہیں! دراصل یہ ماں کی وہ کمی ہے جو ہر لمحہ میرے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ پاپا بھی اسی برانڈ کا آفٹر شیو استعمال کرتے تھے اور ٹالکم پاؤڈر بھی۔ خوشبوئیں تو اور بھی بہت سی میری یادوں کے آسمان پر ستاروں کی طرح جھلملاتی ہیں۔ جس طرح اروی کی بھاجی بناتے ہوئے ماں آخر میں اپنے نرم خوب صورت ہاتھوں میں رگڑ کر قصوری میتھی ملایا کرتی تھیں وہ خوشبو بھی آج تک میرے نتھنوں میں مہکتی ہے۔ اب کبھی کبھی ماں کو یاد کرتے ہوئے میں بھی اسی طرح اروی کی بھاجی بناتی ہوں۔ خوشبو بھی پنچھیوں کی طرح اْڑان بھرتی ہے۔ خوشبو میں بسی یادیں میرا وہ خزانہ ہیں جو مجھے کئی بیماریوں سے بچاتی ہے۔ میرا بچپن پھر سے میری انگلی پکڑے مجھے معصومیت کی خوشیوں بھری راہ پرلے جاتی ہے۔