کراچی میں ہونے والی پندرہویں عالمی اردو کانفرنس کا آج چوتھا دن ہے۔ دنیا بھر سے مندوبین کی ایک کثیر تعداد اس اہم ترین کانفرنس کا حصہ ہے ۔ کراچی کی یہ عالمی کانفرنس اب قومی تہوار کا درجہ اختیار کر چکی ہے ‘تمام زبانوں سے تعلق رکھنے والے قلم کار و دانش ور اس ادبی تہوار کا شدت سے انتظار کرتے ہیں۔اس کانفرنس کے منتظم اعلیٰ محمد احمد شاہ ہوتے ہیں جو کراچی آرٹس کونسل کے چیئرمین ہیں۔ اس کالم کے توسط سے احمد شاہ اور ان کی پوری ٹیم مبارک بادپیش کرتا ہوں کیونکہ یہ کانفرنس زبان و ادب سے محبت کرنے والوں کے لیے اہم ترین درجہ رکھتی ہے۔میں کبھی بھی اس کانفرنس کا حصہ نہیں رہا مگر میں گزشتہ چند سال سے اس کانفرنس کے کئی اہم سیشنز آن لائن سنتا ہوں‘دانشوروں کی گفتگو سے استفادہ کرتا ہوں اور منتظمین کوڈھیروں دعائیں دیتا ہوں۔میں اس کانفرنس کو صرف اردو کے ساتھ نہیں جوڑتا کیونکہ اس کانفرنس میں اردو سمیت پنجابی‘ سندھی‘ بلوچی‘ سرائیکی سمیت کئی اہم علاقائی زبانوں پہ بھی سیشن ہوتے ہیں اور ان تمام زبانوں کے اسکالرز بھی ان سیشنز میںموجود ہوتے ہیں‘لہٰذا اس کانفرنس میںاردو ہی نہیں پاکستان کی تمام زبانوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔ ایک زمانے میں ایسی کانفرنسیں لاہور میں بھی ہوا کرتی تھیں‘جب محترم عطاء الحق قاسمی الحمراء کے چیئرمین بنے‘انھوں نے سالانہ الحمراء عالمی ادبی و ثقافتی کانفرنس کا آغاز کیا۔یہ کانفرنس پانچ سال تواتر سے ہوتی رہی اور دنیا بھر سے مندوبین اس کانفرنس کا حصہ ہوتے تھے، پھر نہ جانے کیا ہوا کہ الحمراء کو کسی بد ذوق کی نظر لگ گئی اور قاسمی صاحب الحمراء سے پی ٹی وی منتقل ہو گئے ‘یوں یہ سلسلہ بھی بند ہو گیا۔میرے سمیت درجنوں نئے لکھنے والوں کو اس کانفرنس کے ذریعے متعارف ہونے کا موقع ملا‘ کانفرنس کے عالمی مشاعرے ہوں یا دیگر سیشنز‘قاسمی صاحب دنیا بھر سے چن چن کر نوجوانوں کو اس کانفرنس کا حصہ بناتے اور انھیں احساس دلاتے کہ ان کی سرپرستی کرنے والے موجود ہیں۔الحمراء کی مذکورہ کانفرنسوں کے بعد لاہور اجڑ گیا‘کانفرنسوں کی جگہ فیسٹیولز نے لے لی اور عالمی مشاعروں کی جگہ دھڑے بندی نے ‘لہٰذا اب لاہور میں برسوں سے کوئی عالمی سطح کی تقریب‘ سیمینار یا کانفرنس نہیں ہوئی۔برانڈڈ ادارے مختلف شہروں میں فیسٹیول کرواتے ہیں مگر وہ مخصوص ادیبوں کے لیے ہوتے ہیں،مشاعروں میں بھی ایسی ہی صورت حال دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے۔ کراچی اور لاہور کے بعد تیسرا اہم ادارہ اکادمی ادبیات پاکستان ہے‘اکادمی کی سالانہ اہل قلم کانفرنس بھی انتہائی یادگار ہوتی ہے۔چیئرمین اکادمی ڈاکٹر یوسف خشک نے اس دفعہ ادبِ اطفال پہ بھی ایک عالمی کانفرنس کروا کے دنیا بھر میں اکادمی کا ایک منفرد تعارف پیش کیا۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے درجنوں ادیب مدعو تھے‘بچوں کے ادب پر تیس سے زائد سیشنز تھے جس میں زیادہ تعداد نئے اسکالرز کی تھی۔اسی طرح ساہیوال آرٹس کونسل کی سالانہ ادبی و ثقافتی کانفرنس بھی اب ایک تہوار بن چکی ہے جس کا پورا سال شدت سے انتظار کیا جاتا ہے۔ ہر سال گزشتہ سے منفرد اور شاندار تجربہ ہوتا ہے۔اس دفعہ بھی یہ کانفرنس ۱۷ تا ۱۸ دسمبر کو ہڑپہ فیسٹیول کے نام سے یہ ادبی کانفرنس ساہیوال میں ڈاکٹر ریاض ہمدانی کی سرپرستی میںمنعقد ہونے جا رہی ہے اور ہمیشہ کی طرح درجنوں ادیب اس اہم ترین ایونٹ کا حصہ ہوں گے۔اس کے علاوہ لٹریری فیسٹیولز کے نام پہ بھی لاہور‘کراچی‘فیصل آباد اور اسلام آباد میں ادبی میلے برسوں سے جاری ہیں ‘اکسفرڈ کے پلیٹ فارم سے منعقد ہونے والے یہ فیسٹیولز بھی زبان و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں میں گزشتہ کئی سال سے ان ادبی میلوں اور کانفرنسوں کا حصہ ہوں‘کہیں مشاعرو ں میں اور زیادہ تر بطور مقالہ نگار۔میں اکادمی اور ساہیوال کی کانفرنسوں کو اس لیے زیادہ اہمیت دیتا ہوں کہ ان کانفرنسوں میں شرکت کا طریقہ بہت منفرد ہے‘نئے اسکالرز اور مندوبین سے ملخص منگوائے جاتے ہیں یعنی وہ جس موضوع پر اپنا ریسرچ پیپر پیش کرنا چاہتے ہیں‘ان کا ملخص۔کانفرنس کمیٹی ان ابسٹریکٹس کا جائزہ لیتی ہے اور منتخب مندوبین کو پورے پروٹوکول کے ساتھ کانفرنس میں بلایا جاتا ہے۔یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں سے وابستہ اسکالرز ریسرچ پیپرز لکھتے ہیں‘کانفرنس کمیٹی کو پیش کر دیتے ہیں اور کانفرنس کمیٹی ان کو ہر سال شائع بھی کرتی ہے تاکہ یہ تحقیق ادبی تاریخ کا حصہ بن جائے۔اس طریقہ کار سے ایک تو یہ فائدہ ہوا کہ بہت سارے نئے لکھنے والے ان کانفرنسوں کا حصہ بننے لگے اور انھیں سینئرز کے سامنے اپنی بات کرنے اور تحقیق پیش کرنے کا موقع ملا ،دوسرا اہم فائدہ یہ ہوا کہ سال سے چند لوگوں کی مخصوص باتیں سننے کی بجائے بالکل نئے نظریات اور مقالہ جات عوام الناس تک پہنچنے لگے ‘اس سے کانفرنس میں جدت بھی پیدا ہوئی اور انفرادیت بھی۔ میں محترم احمد شاہ اور دیگر کانفرنسز و فیسٹیولز کے منتظمین سے بھی یہی گزارش کروں گا‘آپ کا کام یقیناً بہت اعلیٰ ہے اور اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں مگر ان کانفرنسوں میں تھوڑی جدت پیدا کریں۔پوری دنیا میں عالمی کانفرنسوں کا طریقہ کار یہی ہے‘ابسٹریکٹ منگوائیں اور ہر سال نئے لوگوں کو مدعو کریں‘ان کانفرنسوں اور ادبی میلوں پر ہر ادیب اور قلم کار کا اتنا ہی حق ہے جتنا پندرہ سال سے مدعو ہونے والوں کا۔کراچی ‘لاہور ‘اسلام آباد اور فیصل آباد کے علاوہ بھی پاکستان کے درجنوں شہر ہیں جہاں اچھا لکھنے والے موجود ہیں‘آپ انھیں سفارش کی بجائے اوپن میرٹ پہ بلائیں اور اس کا بہترین طریقہ یہی ہے جو پوری دنیا میں چل رہا ہے۔سٹیج پر ہوا میں باتیں کرنے والوں کے ساتھ ساتھ حقیقی ریسرچرز کو بھی بٹھائیں اور فرق خود محسوس کریں‘آپ نئے ریسرچرز سے بے شک پہلے ملخص اور مقالہ جات لکھوائیں‘انھیں کمیٹی میں رکھیں ۔جیسے میں نے الحمراء ادبی میلوں کا ذکر کیا‘اکادمی اور ساہیوال کی کانفرنس کا ذکر کیا‘یہ کانفرنسیں اسی لیے منفرد ہیں کہ یہاں عہدہ‘شہرت یا ڈگری دیکھ کر نہیں بلایا جاتا بلکہ کام کی بنیاد پر کمیٹی فیصلہ کرتی ہے۔امید ہے کانفرنسوں اور ادبی میلوں کے منتظمین اپنے رویے اور طریقے پر غور کریںگے اور ان کانفرنسوں کے دروازے نئے دیوانوں کے لیے بھی کھولیں گے ۔