ایسا لگتا ہے کہ روانہ کی بنیاد پر جو تبدیلیاں آرہی ہیں اس سے صاف یہی نظر آتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو کارنر کیا جارہا ہے۔ اس سے بہت سے سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ ایک طرف ان کے اتحادیوں کا رویہ اور لب و لہجہ بھی تبدیل ہورہا ہے اور دوسری طرف ان کی اپنی جماعت میں نئے نئے گروپ اور دھڑے سامنے آتے جارہے ہیں۔ اندازہ بہت عرصے پہلے سے ہورہا تھا کہ عمران خان کے خلاف بننے والا محاذ وقت کے ساتھ ساتھ توانا ہوتا جائے گا اور اس میں بالآخر تمام گروپ اکٹھے ہوکر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کیلئے یک زبان ہوجائیں۔ یہ بتدریج ہورہا ہے اور منظر نامہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ حزب مخالف کا اعتماد صاف بتارہا تھا کہ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ پی ٹی آئی کے کم از کم 20 سے 25 ارکان اسمبلی فیصلہ کن موڑ پر اپنی جماعت کے کیمپ سے چھلانگ لگادیں گے۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ ساری تبدیلیاں' موقف بدلنے' وفاداریاں تبدیل کرنے اور اپوزیشن کی طرف رخ موڑ لینے کی وجوہات کیا ہوسکتی ہے۔ پی ٹی آئی میں ترین گروپ کی اپنی قیادت سے کھینچا تانی اس وقت سے چل رہی تھی جب شوگر اسکینڈل منظر عام پر آیا تھا۔ جہانگیر ترین نے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرکے حکومت کو یہ پیغام دیا کہ ان سے خواہ مخواہ الجھنے کی کوشش ہوئی تو وہ ادھر ادھر ہوسکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان خطرے کو بھانپ کر دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔ پھر اس وقت شاید بہت سے لوگوں کو حیرانگی ہوئی کہ جس مرحلے پر حزب مخالف نے اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن اور ساتھ ساتھ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کی گئی تو علیم خان منظر پر نمودار ہوئے اور انہوں نے بھی بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طرح سے اپنی اس پارٹی کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی جس کے ساتھ وہ دامے درمے سخنے نہ صرف ہاتھ تھامے ہوئے تھے بلکہ عمران خان کے بازو بھی بنے ہوئے تھے۔ اب خبر یہ ہے کہ دو اور گروپ بھی سامنے آنے والے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان کے خلاف صف بندی مکمل ہورہی ہے۔ اس دوران پرویز الٰہی کا یہ بیان توجہ کا مرکز بنا کہ وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ عمران خان کو کوئی بڑے فیصلے کرنے چاہئیں ورنہ دیر ہوجائے گی۔ یہ تو صرف اندازہ ہی لگاسکتے ہیں کہ بڑا فیصلہ کیا ہے اور عمران خان کے پاس ایسا کونسا ٹرمپ کارڈ ہے جس کا وہ بار بار تذکرہ کررہے ہیں اور یہ بھی کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد وہ کوئی بڑا فیصلہ کرنے کے مجاز بھی ہیں یا نہیں۔ جس طرح اس وقت عمران خان اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اختیار کھوچکے ہیں اس وقت تک کیلئے جب تک وہ اس تحریک کو ناکام نہ بنادیں۔ یہ جو سرگرمیاں چل رہی ہیں اس میں کئی غیر سیاسی کردار بھی متحرک ہیں۔ کیا یہ بات کس طرف اشارہ کررہی ہے کہ چوہدری شجاعت بیماری کی حالت میں لاہور سے اسلام آباد آگئے اور یہاں انہوں نے کئی اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ یہ بات بڑی واضح ہوتی جارہی ہے کہ حالات کس طرف جارہے ہیں۔ اس دوران علیم خان لندن سے ہو آئے ہیں۔ وہاں پر ان کی کئی اہم ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ اب سب کی نظریں اس طرف ہیں کہ عمران خان استعفیٰ دیدیں یا ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوجائے۔ علیم خان اب جہانگیر ترین کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں۔ یہ گروپ بزدار کو کسی بھی قیمت پر وزارت اعلیٰ کے عہدے پر نہیں دیکھنا چاہتا اور یہ بھی طے ہے کہ اگر عثمان بزدار کی حکومت گئی تو پھر اسلام آباد میں عمران کی حکومت بھی نہیں رہ سکے گی۔ لگتا یہ ہے کہ تمام اشارے وزیراعظم کے خلاف دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ سیاسی جوڑ توڑ ہے تو سو فیصد یہ ان کا حق ہے' لیکن اگر اس میں غیر سیاسی پہلو ہے تو پھر یہ بدقسمتی والی بات ہے۔ اس بارے میں شبہات اور اندیشے موجود ہیں۔ خدا کرے ایسا نہ ہو جو کچھ بھی ہو ایک آئینی طریقہ سے ہو۔ جس کے نتیجے میں جو بھی تبدیلی آئے وہ یقیناً درست ہوگی۔ عمومی طور پر لگ یہی رہا ہے کہ مائنس عمران اور مائنس بزدار کی ہوا چل رہی ہے۔ ایک طرف حزب مخالف پر اعتماد ہے کہ وہ 172 ارکان کو ایوان میں لے آئیں گے۔ دوسری طرف عمران اپنی حکومت بچانے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ کپتان کو وکٹ کے دونوں جانب کھیلنا پڑرہا ہے' کیونکہ ان کی وفاقی اور پنجاب کی حکومت پر تابڑ توڑ حملے کئے جارہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں عمران خان نے امریکہ اور یورپ کے خلاف وہی بیانیہ تشکیل دینا شروع کردیا ہے کہ عالمی طاقتیں انہیں اس لئے اقتدار سے الگ کرنے کے درپے ہیں کیونکہ وہ کسی بھی قیمت پر کسی کے آگے جھکنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یہ سب تھیوریز کو ایک طرف رکھیں۔ صرف یہ سوچیں کہ ہوا کا رخ کیسے بدل گیا۔ یقیناً اگر آپ لوگوں کے چہرے پڑھ سکتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ان پر کیا لکھا ہے۔ یہ فہرست لمبی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ عمران خان کو ضرور اندازہ ہوگا کہ ان سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئی ہیں۔ خواہ وہ مانیں یا نہ مانیں۔ عمران نے یورپی یونین کو ناراض کیا۔ امریکہ سے الجھنے کی کوشش کی۔ بعض ایسی کوششیں کیں جن سے اجتناب کیا جاسکتا تھا۔ اس کی فی الواقع کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ پنجاب میں دیکھیں کیسی کھچڑی پک رہی ہے۔ علیم خان اور ترین کسی بھی قیمت پر عثمان بزدار کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ عثمان بزدار اور ق لیگ کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ عثمان بزدار نے اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو پیش کیا کہ اگر میرے استعفیٰ سے حالات ٹھیک ہوسکتے ہیں تو یہ حاضر ہے۔ لیکن عمران خان نے یہ کہہ کر ان کا استعفیٰ نامنظور کردیا کہ عثمان بزدار آسان ٹارگٹ ہے اور یہ کہ وہ تمام لوگ عثمان بزدار کے خلاف ہیں جو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں۔ اب علیم خان اور جہانگیر ترین کا موقف بالکل واضح ہے وہ کہہ رہے ہیں کہ پہلے بزدار کو ہٹاؤ پھر بات ہوسکتی ہے۔ لنگڑیال کہہ رہے ہیں کہ علیم خان ہمارے گروپ میں شامل ہوگئے ہیں لیکن ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ جہانگیر ترین کے فیصلوں کو من و عن تسلیم کریں۔ ایسا لگتاہے کہ تمام صورتحال میں کنفیوژن ہے۔ (جاری ہے)