جارج آرول کا یہ مشہور فقرہ سیاست پر ایک بہترین تبصرہ ہے۔ political language is designed to make lies sound truthful and murder respectful. سیاسی زبان کو اس طرح سے استعمال کیا جاتا ہے کہ جس میں جھوٹ پرکشش لگنے لگے اور قتل قابل عزت فعل بن جائے۔جارج آرول کے تبصرے کو آپ عالمی سیاست پر منطبق کریں یا پاکستان کی سیاست پر آپ کو اس کی سچائی پر یقین آ جائے گا۔سیاست اور جھوٹ اس دور میں لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں، کبھی سیاست کے محلول میں جھوٹ ڈالا جاتا ہے اور کبھی کبھی تو جھوٹ کا ایک محلول تیار کر کے اس میں سیاست کے شربت کے دو چمچ ڈال دیے جاتے ہیں۔ نجیب احمد کی ایک نظم کا مصرع ہے کہ ذرا سا جھوٹ ہو شامل تو سونا نت نئے گہنوں میں ڈھلتا ہے۔۔۔درویش شاعر اپنے آپ کو جب اس جھوٹ کی دنیا میں مس فٹ پاتا تو خود کو سمجھانے کی کوشش کرتا کہ تھوڑا تھوڑا جھوٹ ملا لے اپنی سچی باتوں میں۔۔لیکن یہ بھلے وقتوں کی بات ہوگی جب لوگ جھوٹ ڈر کے بولتے یا کسی ضرورت کے تحت بولتے۔ اب جھوٹ ڈنکے کی چوٹ پہ بولا جاتا ہے شاید اب جھوٹ ہی بولا جاتا ہے ،کبھی کبھار جھوٹ کے وقفے میں سچائی اپنا آپ دکھاتی ہے تو لوگ اس سچائی کو بھی پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں۔امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے طرز سیاست نے کئی نئے زاویوں سے سیاست کو سمجھنے اور اس پر تحقیق کرنے کے مواقع پیدا کیے۔ ایک دلچسپ تحقیق یہ ہوئی کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے چار سالہ صدارتی دور میں 30 ہزار کے قریب چھوٹے دعوے کیے۔ یعنی اپنے صدارتی دور میں ہر روز کم وبیش 20 جھوٹ بولے۔ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنے سیاست میں جھوٹ ہی کا راج دیکھا ہے سیاست دان عموما ایسے جھوٹ تو بولتے ہی ہیں جس سے غریب عوام ان کے جھانسے میں آتی رہے۔غریب عوام کے خوابوں اور ان کے حقوق کا استحصال کرنے والے سیاست دانوں کے جھوٹوں کا حساب کوئی عدالت نہیں لیتی۔ مگر کچھ جھوٹ ایسے ہوتے ہیں جن کی زد ریاست کی سالمیت اور سوویرنٹی کی بنیادی حد بندی پر پڑتی ہے سیاست کے اس کھیل میں امریکی سائفر کا بیانیہ عمران خان کا ایک ایسا ہی خطرناک جھوٹ ثابت ہوا۔ جس وقت تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت گئی اس وقت وہ بطور وزیراعظم حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے اپنے حامیوں میں تیزی سے مقبولیت کھو رہے تھے سو انہیں ایک ایسا بیانیہ بنانے کی اشد ضرورت تھی جو انہیں اس مشکل سیاسی صورت حال میں فیس سیونگ کا سہارا دے سکے اور تحریک عدم اعتماد کے قانونی اور آئینی پروسس کو بھی ایک سوال بنا کر اپنے حامیوں کے سامنے پیش کر سکے تاکہ وہ اپنے حامیوں کے سامنے یہ ثابت کر سکیں کہ ان کی حکومت کو بیرونی مداخلت پر پر ختم کیا گیا ہے۔عمران خان کے طرز سیاست کو سمجھنے والے پہلے دن سے جانتے تھے۔جلسہ عام میں لہرایا گیاامریکی سائفر کا یہ بیانیہ جھوٹ ہے اور ایک سیاسی سٹنٹ ہے۔ امریکی مداخلت سے رجیم چینج کے اس جھوٹے بیانیے نے عمران خان کے حامیوں کے دل جیت لیے۔ایبسلوٹلی ناٹ کی اصطلاح کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے حامیوں نے اپنی گاڑیوں پر اسے لکھوا لیا۔عمرا ن خان اس وقت ایک عارضی مقبولیت حاصل کرنے میں پوری طرح کامیاب رہے۔ وگرنہ جس وقت تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کو بطور وزیراعظم اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا ، اس وقت کے اعداد و شمار اور سروے بتاتے ہیں کہ وہ ساڑھے تین سال کی حکومت کے بعد اپنی مقبولیت تیزی سے کھو رہے تھے۔ کیونکہ تبدیلی کے جتنے بڑے دعووں کے ساتھ وہ حکومت میں آئے تھے کہیں دور دور تک ان دعووں کے پورا ہونے کا امکان دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اگرچہ ساڑھے تین سال کی مدت کچھ بھی نہیں لیکن بہرحال اس مدت میں پالیسوں اور طرز حکومت کی سمت تو درست ہو سکتی تھی۔ اپنی غلط پالیسوں کی وجہ سے وہ اپنے حامیوں میں تیزی سے اپنی مقبولیت کھو رہے تھے، یہاں تک کہ اخبارات اور ٹی وی چینل پر ان کے حامی تجزیہ کار اور کالم نگار وں۔کو بھی انہیں سپورٹ کرنے میں مشکل پیش آرہی تھی اور اور ان کے حامی کالم نگاروں کی تحریروں میں بھی ان کے طرز حکومت پر تنقید نظر اتی تھی۔ مگر پھر سائفر کے جھوٹے بیانیے نے اس ڈوبتی ہوئے کشتی کو ایسا سہارا دیا کہ عمران خان کی مقبولیت کو دیکھ کر تجزیہ کار حیران رہ گئے کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حکومت سے نکلنے کے بعد کسی بھی سابق وزیراعظم کو عوام میں ایسی مقبولیت نہیں ملی تھی۔ اب سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا یہ بیان کہ امریکی سائفر کا بیانیہ سراسر جھوٹ پر مبنی تھاکوئی نئی خبر نہیں۔ بلکہ اس طرف اشارہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے اس کا جواب طلب کرے گی۔ یہ ایک سیکرٹ آفیشل ڈاکومنٹ تھا جو پرنسپل سیکرٹری نے عمران خان کو دیا جسے بعد میں انہوں نے یہ کہ کر واپس نہ کیا وہ مجھ سے کھو گیا ہے۔ سابق وزیراعظم ڈپلومیٹک سیکرٹ ڈاکومنٹ کے حوالے سے دو تین سنگین بد بے احتیاطیوں کے مرتکب ہوئے۔ ملک کا وزیراعظم بہت سی آفیشل سیکرٹ ڈاکومنٹس تک رسائی رکھتا ہے جن کو بوجوہ عوامی نہیں کیا جاتا اور وہ اس رازداری کا حلف لیتا ہے کہ وہ پاکستان کی ریاست کے ساتھ وفادار رہے گا۔سیاست کا رخ بتارہا ہے کہ امریکی سائفر کو ایک جھوٹے سیاسی بیانیے کے لیے اپنی ذاتی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا سنگین غلطی ہے۔ ٭٭٭٭