اسرائیل نے ۲۰۰۲ء کے بعد الفتح رہنما مروان بار گھوتی کو جیل بھیجتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ ’’وہ دوسری انتفاضہ میں اسرائیل کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کی رہنمائی کرتا تھا‘‘۔ اپنے خلاف مقدمے کی کارروائی میں واضح طورپر جانب داری نظر آنے پر مروان گھوتی نے اپنے دفاع سے انکار کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود اسے پانچ بار عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ سزائیں دینے والے ججوں نے ان عدالتی فیصلوں کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی، جن میں کئی جرائم میں عدم ثبوت کے باعث مروان گھوتی کو بری کر دیا گیا تھا۔ اس دوران امریکا نے ایسے متعدد قوانین پاس کیے، جن میں انسداد دہشت گردی کے نام پر امریکی عدالتوں میں فلسطینیوں پر اسرائیل کے خلاف حماس سے ملتے جلتے الزامات لگا کر انھیں سزائیں دی گئیں۔ لیکن دوسری طرف امریکا نے فلسطینیوں کو اسرائیلی ظلم و ستم سے بچانے کے لیے کبھی کوئی قانون پاس نہیں کیا۔جب کہ اس وقت بھی چار ہزار فلسطینی بچے،خواتین اور بوڑھے اسرائیل کی قید میں ہیں۔ امریکی دبائو میں نام نہاد عالمی برادری کی طرف سے ہر قسم کی فلسطینی مزاحمت خواہ وہ مسلح ہو یا غیر مسلح اسے دہشت گردی سے جوڑ کر اس کی مذمت کی جاتی ہے۔آخر کیوں؟نام نہاد دانشور،انسانی حقوق کے علمبردار اورلبرل سیاستدان، جارح کی مذمت کے بجائے جارحیت کا شکار فلسطینیوں کو خوش اخلاقی کی تلقین کیوں کرتے ہیں؟ بے شمارفلسطینی مزاحمتی گروپوں کے درمیان صرف حماس کو جنگلی، مذہبی جنونی، اپنی موت کو دعوت اور تباہی کو آواز دینے والے اور یہود کے بدترین دشمن قرار دینا، مغرب کے لبرل سیاست دانوں کا سب سے آسان سیاسی فارمولا ہے۔ مغربیوں کی پشت پناہی میں اسرائیل کا برس ہا برس سے پھیلایا ہوا پروپیگنڈا ہے کہ ’فلسطینی دہشت گرد‘ ہیں۔ اور ایسے آزاد خیال اس پروپیگنڈے کو پھیلانے کا حق ان کو کس نے دیا؟ یہ وہی امریکا ہے نا جس نے افغانستان میں طالبان کے خلاف پراپیگنڈہ کر کے ان کے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور پھر انہی سے مذاکرات کر کے فرار کا راستہ مانگا؟ بیس برس سے زائد عرصہ گزر گیا۔حماس قومی سیاست کے مرکزی دھارے کی طرف مڑنے والی تنظیم ہے، جس نے فلسطینی ریاست کوقبول کیا تھا۔انتخابات لڑے اور جیتے۔ پھر بھی ان کی جمہوریت امریکیوں کو پسند نہیں آئی جب کہ حماس نے کہا: ’’حماس اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اس کا تنازعہ صہیونی منصوبے سے ہے نہ کہ یہودیوں کے ساتھ کسی مذہبی دشمنی کی وجہ سے۔ حماس، یہودیوں کے خلاف محض ان کے یہودی ہونے کی وجہ سے کوئی جدوجہد نہیں کر رہی بلکہ یہ جدوجہد صرف اس لیے ہے کہ اسرائیل فلسطین پر ناجائز طورپر قابض ہے۔ یہ جدوجہد ان صہیونی غاصبوں کے خلاف ہے، جو یہودیوں کو فلسطینیوں کی زمینوں پر ناجائز طور پر بسا رہے ہیں اور غیر قانونی نوآبادیاتی منصوبے کو توسیع دے رہے ہیں۔فوجی کارروائی، قومی و سیاسی اہداف کے حصول کا ذریعہ ہے نہ کہ بذاتِ خود کوئی مقصد یا ترجیحی اقدام‘‘۔ حماس کے رہنما یحییٰ سنوار نے اس بات کی وضاحت اپنے ایک انٹرویو میں اس طرح کی کہ‘ہم جنگ یا لڑائی نہیں چاہتے کیونکہ اس کی قیمت انسانی جانوں کی شکل میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہم امن چاہتے ہیں اور ایک طویل عرصے سے عوامی اور سیاسی مزاحمت کر رہے ہیں، لیکن افسوس کہ عالمی برادری اسرائیل کے جرائم اور قتل عام کو عملی طور پر روکنے کے بجائے صرف تماشا دیکھ رہی ہے اور اسرائیلی جنگی مشینیں ہمارے نوجوانوں کو قتل کیے جارہی ہیں۔ کیا دنیا ہم سے یہ توقع رکھتی ہے کہ ہمارے پیارے مرتے رہیں اور ہم رونے دھونے کے ساتھ صرف انھیں دفنانے پر توجہ مرکوز رکھیں؟ کیا مظلوم (victim) ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ ذبح ہوتے وقت خاموشی سے درد سہا جائے اور تڑپنے کا شور بھی نہ مچایا جائے؟ حماس پر دہشت گرد ی، خونخواری، بچوں اور عورتوں کو ڈھال کے طورپر استعمال کرکے یہود دشمنی کے الزامات لگانا اسرائیلی پروپیگنڈے کا حصہ ہے، کیونکہ حماس کی پالیسی اسرائیل کے نسل پرستانہ نظریات کے خلاف اور توسیعی کارروائیوں سے متصادم ہے‘‘۔ حماس کی قومی، عسکری و سیاسی حکمت عملی دیگر سامراج مخالف حریت پسند تحریکوں مثلاً سن فین (Sinn Fein) یا آئرش ری پبلکن آرمی کی طرح سیاسی انداز سے آگے بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ کی طرف سے طویل عرصے تک آئرش گروپوں کو ’دہشت گرد‘ قرار دیا جاتا رہا، لیکن پھر انہیں مذکرات کا حصہ بھی بنایا گیا، جو ’بیلفاسٹ معاہدے‘ کے سلسلے میں ہوئے اور بالآخر آئرلینڈ کے شمالی علاقوں میں کئی عشروں کے بعد تشدد کا خاتمہ ہوا۔ اگر حماس اور دیگر فلسطینی دھڑوں نے فوجی مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل اور اس کے امریکی و یورپی سرپرستوں نے فلسطینیوں کی طرف سے کی گئی تمام فراخ دلانہ پیش کشوں کو ہمیشہ مسترد کیا ہے۔ امریکا، حماس کو سخت بے رحمی سے مسترد کرتا ہے اور اس سے بات چیت کے لیے تیار نہیں حالانکہ وہ طالبان مزاحمت کارروں سے تو براہ راست مذاکرات کے لیے تیار رہا ہے جن کے ساتھ افغانستان میں بیس سال سے جنگ کر چکا تھا۔ حماس نے آج تک امریکا سے براہ راست کوئی جنگ نہیں کی لیکن اس کے باوجود امریکا ان سے بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ امریکی ایما پر اسرائیل اور خلیجی عرب حکومتوں کے درمیان تعلقات کی بحالی اور معاہدات ہی نے اسرائیل کو موقع فراہم کیا کہ وہ یروشلم میں مزید علاقوں پر قبضے کرکے یہودی آبادیاں بسائے۔ اسی سفاکیت نے فلسطینی مزاحمتی گروپوں کو یروشلم میں فلسطینیوں کے دفاع کے سلسلے میں ایک بار پھر عسکری کارروائیاں کرنے پر مجبور کیا۔حماس ہو یا باقی فلسطینی مزاحمتی گروپ امریکا اور یورپ کے علاوہ مسلم دنیا کے بکائو حکمرانوں کا یہ عمل بالکل ویسے ہی تعصب پر مبنی ہے، جیسے امریکا میں سیاہ فام لوگ جب اپنے حقوق کے لیے نعرہ لگاتے ہیں کہ‘ہر جان مساوی اہمیت رکھتی ہے’تو ریاستی ادارے نسل پرستانہ پالیسی پر عمل پیرا ہو کر ان پر ہر قسم کا جبر اور تشدد مسلط کرتے ہیں۔ یہ بات تو تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ’ہر انسانی جان برابر کی اہمیت رکھتی ہے‘ لیکن کیسا سنگین مذاق ہے کہ انسانی جان لینے والے ریاستی تشدد اور مظلوموں کی مزاحمت پر برابر کی ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی۔ جرم کی نوعیت، واضح تشخیص اور تاریخی پس منظر جانے بغیر دونوں فریقوں پر یکساں ذمہ داری ڈالنا امن کی طرف بڑھتا ہوا قدم نہیں بلکہ ظلم اور جنگ کے شعلوں کو مزید ہوا دینے کے مترادف ہے۔ فلسطین میں ہر قسم کے تشدد کی اصل وجہ یہودی نوآبادیاتی توسیع پسندانہ منصوبہ ہے اور اس کا راستہ روکے بغیر عدل، انصاف اور امن کی کوئی امید پوری نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک سوال ہے،جو تڑپاتا ہے، امریکا ہمیشہ کمزوروں پر حملہ آور کیوں ہوتا ہے۔اپنے سے بڑی قوت سے کیوں نہیں ٹکراتا؟ہم پلًہقوت کے مقابل کیوں نہیں آتا؟ امریکہ طاقت کے بل پر کمزوروں پر ٹوٹ پڑتا ہے،کبھی ہم وزن طاقت کے سامنے آئے،کبھی اپنے سے زیادہ طاقت والے کوللکارے۔نعوذ باللہ کیا وہ خدا ہے،بخدا ہر گز نہیں ہے۔