لیکن جب گفت و شنید شروع ہوئی تو شیخ مجیب نے کہا کہ یہ ہمارے پیش کردہ نکات ہیں‘ لیکن اس کے ہر نکتے پر بحث ہوسکتی ہے۔ اس وقت بھٹو اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔ بعد میں انتخابات ہوئے تو اس کے باوجود کہ شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے نورالامین اور راجہ تری دیورائے کے علاوہ ساری کی ساری نشستیں جیت لیں اور واضح اکثریت سے اکثریتی پارٹی بنی۔ لیکن وہاں غلطی یہ ہوئی کہ بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرنا چاہئے تھا‘ لیکن جب دانشمندی اور فراست کے بجائے انا پرستی اور ہٹ دھرمی آڑے آجائے تو آپ اندازہ لگائیے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ حکمرانوں کی ہوشمندی سیاسی قوتوں سے رواداری اور ملکی مفادات کے تحت فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ ہوتا تو ہم یقینا اس سانحہ سے بچ سکتے تھے۔ پھر آپ دیکھیں 1977ء میں اگر بھٹو جب یہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے خلاف انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے مہم زور پکڑتی جارہی ہے تو وہ جلد از جلد اس کو مذاکرات کی میز پر لاتے۔ آمنے سامنے بیٹھتے اور اس مسئلے کو حل کرلیتے۔ سیاست میں لچک‘ میانہ روی اور کچھ لو کچھ دو کا اصول کارفرما ہوتا ہے۔ تو ضیاء الحق کو مارشل لاء لگانے کا موقع نہ ملتا۔ ہماری پوری تاریخ بھری پڑی ہے۔ ہم کن کن مراحل سے گزرے۔ قوم نے کیسے کیسے نشیب و فراز دیکھے۔ 90کی پوری دہائی دیکھیں نواز شریف اور بینظیر بھٹو ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی میں تمام حدود پھلانگ گئے جس کے خلاف 2B 58-استعمال ہوئی۔ دوسرے فریق نے اس اقدام کو خوش آمدید کیا۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ ہمارا سیاسی اور جمہوری کیڈر جس کو توانا ہونے کی ضرورت تھی کمزور ہوگیا۔ پھر ایک خبط ہمارے سارے حکمرانوں میں یہ بھی رہا کہ جتنے اختیار اور قوت وہ حاصل کرنا چاہیں کرلیں۔ پھر عدم برداشت بہت زیادہ پروان چڑھی۔ جسے حکمرانی ملی اس نے اپنے مخالفین کو کچلنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اس کے نتیجے میں پولیٹیکل پولرائزیشن بڑھتی چلی گئی۔سیاسی استحکام نہ آسکا۔اپنے اپنے مفادات کیلئے اندھا دھند فیصلے کئے گئے۔ ایوب خان کے دور کو دیکھیں ترقی کے اعتبار سے یہ ایک مثالی دور تھا۔صنعتی ترقی ہو یا زرعی اس دور میں کئی سنگ میل عبور کئے گئے۔منگلا اور تربیلا ڈیم جیسے منصوبے بنے۔ امن و امان کی صورتحال بھی انتہائی اچھی رہی لیکن ایوب خان نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے مخالفین کو تگنی کا ناچ نچائے رکھا۔ پے در پے غلطیاں کیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کو ہرانے کیلئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کیا۔ طاقت کو اپنے ہاتھ میں مرتکز رکھا۔ اقتدار سے الگ ہوئے تو یہ اقتدار اسپیکر قومی اسمبلی کے بجائے جنرل یحییٰ کے حوالے کردیا۔ جنرل یحییٰ نے صوبوں کو بحال کیا۔ ون مین ون ووٹ کے اصول کو مانا اور اس طرح مشرقی پاکستان کی آبادی کی بنیاد پر انتخابی برتری کو تسلیم کیا۔ لیکن اپنی غفلت اور غیر دانشمندانہ قسم کے فیصلوں سے ملک کو دولخت کروادیا۔ بھٹو کے کریڈٹ میں بے شمار کارنامے ہیں‘ لیکن اقتدار کے جنون نے انہیں بھی مغلوب کردیا۔ دھاندلی کا وہ حربہ جو وہ نہ بھی اپناتے تو جیت جاتے۔ انہوں نے صنعتوں کو قومیانے کا فیصلہ کرکے پاکستان میں صنعتی ترقی کا دھچکا پہنچایا۔ لیکن بھٹو کے کریڈٹ پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کیلئے اقدامات پاکستان کے متفقہ آئین کی تشکیل‘ سیاست میں عام آدمی کی شراکت کو یقینی بنانا‘ اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد‘ اسلامی بلاک کے قیام کیلئے کوششیں یہ ایسے اقدامات تھے جس پر ان کی تمام کمزوریوں کو معاف کیا جاسکتا ہے۔ ضیاء الحق کا پورا دور ہیجان خیز رہا۔سیاسی طور پر ان کی پوری کوشش پیپلز پارٹی کو کرش کرنے پر لگی رہی۔ وہ اسلامائزیشن کی بات کرتے رہے‘ لیکن معاشرے میں کوئی تبدیلی نہ لاسکے‘ 90ء کی دہائی بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان ٹکراؤ کی دہائی تھی۔ اسی کی دہائی میں ایم کیو ایم کی اٹھائی ہوئی۔ مشرف آئے تو انہوں نے بھی اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے وہ سب کچھ کیا جو وہ کرسکتے تھے۔ اب عمران خان کا دور ختم ہوا۔ تو وہ یہ نعرہ لیکر سامنے آگئے کہ امریکہ نے پاکستان کے سیاستدانوں کے ساتھ ملکر سازش کی اور ان کی حکومت کی چھٹی کرادی۔ غرض خان صاحب گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے عوام کو یہی بتارہے ہیں کہ انہیں ایک سازش کے تحت ہٹانے کی کوشش ہوتی رہی ہے اور بالآخر یہ سازش کامیاب ہوگئی۔ اقتدار سے الگ ہونے کے بعد انہوں نے پشاور اور کراچی میں بہت بڑے بڑے جلسے کئے۔خان صاحب کے پشاور اور کراچی کے جلسے میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ پرجوش ہجوم تھا۔ دیکھیں خان صاحب نے جس طرح حکومت کی جو مسائل پیدا ہوئے‘ معیشت بھی ہچکولے کھاتی رہی‘ مہنگائی بڑھتی رہی‘ غربت اور بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوا‘ مواقع بھی سکڑے۔ ایسا لگ رہا تھا لیکن ان کا گراف نیچے کو جارہا ہے۔ ان کی قبولیت ڈھلان پر لڑھک رہی ہے۔ لیکن جب وہ حکومت سے باہر ہیں‘ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں‘ ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے بڑی ہوشیاری بلکہ میں یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ بڑی چالاکی سے ایک بیانیہ بنایا۔ لیکن میں سچی بات کررہا ہوں‘ لیکن جو اس کو صحیح سمجھ رہے ہیں وہ اسے صحیح کہہ رہے ہیں بڑے جذباتی انداز میں صحیح سمجھ رہے ہیں‘ ہم انہیں مانیں یا نہ مانیں اور خان صاحب اسی وجہ سے اپنے سپورٹرز کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ وہ کہہ یہ رہے ہیں کہ انہیں آئینی طور پر نہیں بلکہ ایک سازش کے تحت ہٹایا گیا۔ ان میں وہ لوگ بھی خان صاحب کی طرف آگئے ہیں جو کہتے تھے کہ بندہ تو اچھا ہے‘ لیکن کچھ کر نہیں سکا۔ اب ان کیلئے عمران خان ایک مظلوم لیڈر ہے‘ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ میں مانتا ہوں نہ بھی مانوں تو ماننا پڑے گا کہ ان کا ہارڈ کور سپورٹر کو تو انہوں نے متحرک کردیا ہے‘ لیکن سپورٹر یہ بات بھول رہا ہے کہ اس کی یہ سپورٹ خان صاحب کو انتخابات میں فیصلہ کن برتری نہیں دلاسکتی۔ یہ کور سپورٹر 2013ء میں بھی تھے اس وقت خان صاحب کے پاس 32 نشستیں تھیں۔2018ء میں وہ جس طرح جیتے ہیں اس میں ان کے پاس کور سپورٹ کے علاوہ الیکٹ ایبل کی بارات کو لایا گیا تھا۔ پھر اور بھی بہت سے محرکات تھے جس کے سبب انہیں ووٹ پڑا۔ اگر آپ خان صاحب کے سپورٹر کے علاوہ لوگوں سے پوچھیں تو وہ خان صاحب کے بیانیے کو درست نہیں کہیں گے۔ بڑے جلسے کرنا اور انتخابات جیتنا یہ بالکل الگ سائنسز ہیں۔ الیکشن آنے دیں میں آپ کو ہر حلقے کی سائنس پر بات کروں گا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں خان صاحب پاپولر لیڈر نہیں ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ پاپولر ہیں‘ لیکن آپ سمجھ رہے ہیں۔ ان کے جلسوں کی رونق دیکھ کر اندازہ کررہے ہیں کہ خان صاحب دو تہائی اکثریت حاصل کرلیں گے تو دیکھ لیجئے ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ لیکن خان صاحب کی اتنی پرجوش فالوئنگ درحقیقت ان روایتی سیاسی جماعتوں کیلئے آنکھیں کھولنے کیلئے ایک کال ضرور ہے ۔ سوچنے کا مقام یہی ہے کہ آئین شکنی‘ امریکن سازش کا بیانیہ اور بہت سے نعرے یہ سب کچھ لوگ کیوں مانتے چلے جارہے ہیں۔ اس پر غور کریں پہلے تو یہ کہ عمران سے نالاں لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی ہے کام نہیں کرسکا۔ ڈیلیوری صحیح نہیں تھی۔ پھر بھی ٹھیک ہے۔ وہ عمران خان کے بیانیے کو جس طرح بیان کررہے ہیں اس پر تو پولیٹیکل سائنس کے طالب علموں کو ریسرچ کرنی چاہئے کیا ایسا تو نہیں کہ ہمارے سوسائٹی میں قانون‘ آئین کی پاسداری کا تصور کمزور پڑگیا ہے۔ کیا لوگ اتنے جذباتی ہیں کہ وہ صحیح اور غلط کے درمیان لکیر نہیں کھینچ سکتے۔ خان صاحب ایک ایسی منزل کی طرف چل پڑے ہیں جہاں خطرات بھی ہیں اور سوسائٹی کے تقسیم ہونے کے اندیشے بھی‘ لیکن خان صاحب سمجھ رہے ہیں کہ وہ بہت جلد دوبارہ برسراقتدار آجائیں گے۔